islam
دوسرامقدمہ
یقیناہروہ معجزہ جوحضرت سيدناآدم علی نبينا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے لے کر ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک ظاہر ہوا وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ بھی ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر دلیل بھی ، کیونکہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام نے اپنی اپنی قوم کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی بشارت دی اور انہیں بتایا کہ اس نبئ مکرّم،شفيعِ معظَّم،رسولِ محتشم صلي اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت عام ہوگی ۔چنانچہ،
اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے :
وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقْرَرْنَا ؕ قَالَ فَاشْہَدُوۡا وَاَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿81﴾
ترجمہ ـ کنزالایمان:اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا۔جومیں تم کو کتاب اور حکمت دو ں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے۔توتم ضرور ضرور اس پر ایمان لانااور ضرور ضرور اس کی مددکرنا۔ فرمایاکیوں! تم نے اقرار کیااور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا، فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔(پ 3،آل عمران: 81)
اللہ عزوجل نے اپنے اس فرمان ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقُ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہ، میں حضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرنے اور ان کی طرف آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجنے پرانبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے پختہ عہد لیااور نبئ مکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ”اگر موسیٰ (علیہ السلام)زندہ ہوتے توان کے لئے بھی میری اتباع کے سواکوئی گنجائش نہ ہوتی ۔” (تفسیرالبحرالمحیط،سورۃ الکہف،تحت الآیۃ:۶۵، ج۶، ص ۹ ۱۳)
اسی طرح نزول کے بعدحضرت سيدنا عیسیٰ ابن مریم علی نبيناوعلیہماالصلوٰۃ والسلام ہمارے نبئ کریم صلي اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت پرایمان لائیں گے اوراس پر عمل کریں گے اور ہمارے امام(یعنی امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پیچھے نماز پڑھیں گے پس ہرنبی کامعجزہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دعوی کی صداقت کی دلیل ہے۔
ہر نبی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آمدکی خوشخبری دی اور اپنی قوم کو ہمارے نبئ مکرّم،تاجدار ِدوعالم،نورِ مجسَّم،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شریعتِ مطہرہ کے آجانے کے بعد اپنی شریعت کومنسوخ کردینے کا حکم فرمایا، لہذاتمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے معجزات ہمارے نبئ کريم،رء ُوف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پردلیل ہیں اوراس کے سا تھ سا تھ وہ معجزات آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بھی معجزات ہيں۔
معجزات میں یہ شرط نہیں کہ وہ مدعئ نبوت کے ہاتھ پر دعوی کے وقت ہی صادرہوں بلکہ بعض اوقات ایسے خارِقِ عادت اُمور اُس نبی کی سچائی پر دلالت کرنے کے لئے صادر ہوتے ہیں جس نے نبوت کے ساتھ ظاہرہوناہوتاہے جیسے وہ خارِقِ عادت اُمورجو زمانہ فترت (يعنی دو انبياء کرام علیہما السلام کے درميانی زمانہ)ميں واقع ہوئے اورایسے احوال جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اورپھرپہلی وحی کے آنے تک کے عرصہ کے دوران ظاہرہوئے۔
اے میرے بھائی! مذکورہ دونوں مقدمے تجھ پرحضورنبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسّم صلي اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کی وسعت اور کثرت کواچھی طرح واضح اور ظاہر کرتے ہیں کہ دوسروں کے معجزات در حقیقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کے معجزات ہیں،تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو کچھ نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ لائے وہ سب سے اَتم واَکمل اور سب سے اچھانہ ہو۔( علامہ زملکانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام ختم ہوا ۔)
شیخ تقی الدین سبکی علیہ رحمۃ اللہ القوی ۱؎(756-683ھ)کی کتاب ”اَلسَّيْفُ الْمَسْلُوْلُ عَلٰی مَنْ سَبَّ الرَّسُوْلَ۲؎ ”میں ہے کہ امام ابو داؤد۳ ؎ (275-202ھ)
نے سیدنا امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما ۱ ؎(241-164ھ) سے حضرت سيدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کے متعلق سوال کیا کہ جب ایک شخص نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ دلایاتو حضرت سیدنا ابو برزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :” کیا مَیں اسے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے قتل نہ کردوں؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :”نہیں،اس لئے کہ یہ حکم دینارسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کے لئے جائز نہیں ۔ ”
سیدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ حضرت سيدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اس وقت تک قتل کرناجائز نہ تھاجب تک کہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق تین باتو ں میں سے ایک بات نہ پائی جاتی ۔
(۱) ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا(۲)احصان(يعنی شادی)کے بعدزناکرنااور (۳) کسی کوناحق قتل کرنا۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الحدود،باب الحکم فی من سبّ النبی صلّی اللّہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم،الحدیث: ۳ ۶ ۳ ۴ ، ج۴،ص۱۷۳،بدون ”بغیر الثلاثۃ” )
جبکہ نبئ کریم ،رء ُوف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اختیار تھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان تین باتوں کے نہ پائے جانے کے باوجود بھی اس کے قتل کا حکم دے دیں۔لہذایہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے قتل کا حکم بھی دے سکتے ہیں جس کا ایسا کوئی سبب لوگو ں کو معلوم نہ ہو جواس کے قتل کو جائز قرار دے ۔ پس لوگو ں پر لازم ہے کہ وہ اس فیصلے پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کریں کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اسی بات کا حکم فرماتے ہیں جس کااللہ عزوجل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوحکم فرماتاہے اور یہ دونوں خصوصیات شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعددوسری خصوصیت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بندہو گیاجبکہ پہلی خصوصیت جس میں گالی دینے والے کے قتل کا حکم ہے وہ بندنہیں ہوا،پس اَئمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ان دواحکام کوپورا کرنے میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قائم مقام ہیں۔
شیخ تقی الدین سبکی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا خضر علیہ السلام نے اس لڑکے کو کافرانہ فطرت کی وجہ سے قتل کردیاتھا تو یہ آپ علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے کیونکہ شریعت کی روسے کسی بچے کو قتل کرنااور وہ بھی اس کے مسلمان والدین کے سامنے کسی صورت ميں جائز نہیں اگر فرض بھی کرلیں کہ اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کی طرح بعض اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کوبچے کے حال کے متعلق بتا دیا ہو تو پھربھی شریعت مطہرہ کی رو سے اس بچے کو قتل کرنا جائز نہیں۔
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے متعلق ہے کہ جب نجدہ الحروری ۱ ؎ نے انہیں ایک عریضہ لکھا جس میں اس نے سوال پو چھا کہ کیا وہ بچوں کو قتل کرسکتا ہے؟تو حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے لکھ کر بھیجا :”اگر تُو خضرہے اور مؤمن اور کافرکی پہچان رکھتا ہے تو پھر انہیں قتل کردے۔”
اس سے حضرت سیدنا اِبن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے نجدہ کی دلیل کو ردکرنے ، اس کے ناممکن چیزپراِنحصارکرنے،حضرت سیدناخضرعلیہ السلام کے فیصلہ سے دلیل پکڑنے کے اِمکان اور طمع کو ختم کرنے کا ارادہ فرمايا۔
(المسندللامام احمدبن حنبل،مسندعبداللہ بن عباس،الحدیث:۱۹۶۷،ج۱،ص۴۸۲)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصود ہرگزیہ نہ تھا کہ اگر اسے معرفت (يعنی پہچان) حاصل ہوجائے تو قتل کرنا جائز ہوجائے گاکیونکہ شریعت اس کا تقاضا نہیں کرتی اس لئے کہ بچہ ابھی کافر نہیں بلکہ بعد میں کافرہوگا توجو چیز(يعنی کفر)ابھی تک حاصل نہیں ہوئی اس کے سبب سے کیسے قتل کیا جاسکتا ہے۔
قطعی بات یہ ہے کہ بچے کو کفرِحقیقی یاایمانِ حقیقی کے ساتھ متصف نہیں کیا جاسکتا۔حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کے واقعہ کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ آپ علیہ السلام کی ایک مستقل شریعت تھی،یہ قول ان کا ہے جن کے مطابق حضرت سیدناخضرعلیہ السلام نبی ہیں۔(علامہ سبکی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا کلام ختم ہوا)
۱ ؎ شیخ الاسلام تقی الدین علی بن عبدالکافی بن علی ا لسبکی ،الانصاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مصر کے علاقہ ”سبک ”میں پیدا ہوئے ، علمِ فقہ اپنے والد سے سیکھا اور دیگر علماء سے بھی فیضیاب ہوئے ، قاہر ہ میں آپ کا وصال ہوا ، بہت سے علوم وفنون مثلاً تفسیر ، حدیث ، فقہ ، لغۃ ، ادب ، وغیرہ میں مہارت حاصل کی ،آپ کی مشہور تصانیف ، الابتہاج فی شرح المنہاج للنووی ، الدرالنظیم فی تفسیر قرآن العظیم ، السیف المسلول علی من سب الرسول ، شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام،ہیں۔
(معجم المؤلفین،ج۲ ،ص۴۶۱، الاعلام لزرکلی،ج۴، ص ۳۰۲)
۲ ؎ السیف المسلول علی من سب الرسول للشیخ تقی الدین علی بن الکافی السبکی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کتاب کو چار ابواب پر مرتب فرمایا ، ماہ رمضان المبارک ۳۴ ۷ھ میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کتاب کی تصنیف سے فارغ ہوئے
(کشف الظنون،ج۲،ص۱۰۱۸)
۳ ؎ حافظ الحدیث ، المحدث الامام ابو داؤد سلیمان بن الاشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد الازدی ، السجستانی آپ کی مشہور تصانیف میں سے کچھ یہ ہيں ، السنن ، المراسیل ،کتاب الزھدوغیرہ۔
(معجم المؤلفین،ج۱،ص۷۸۴ ،الاعلام لزرکلی،ج۳،ص۱۲۲)
؎ امام الحدیث والفقہ،امام المذہب الحنبلی ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی،البغدادی ،آپ کی مایہ نازل تصانیف ، المسند،کتاب الزھد، المناسک ، وغیرہ ہیں۔ (معجم المؤلفین،ج۱،ص۲۶۱، الاعلام لزرکلی،ج۱ ،ص۲۰۳)
۱ ؎ نجدہ بن عامر الحروری (۳۶تا ۶۹ھ) ایک قول یہ ہے کہ ۷۲ہجری میں خارجی ہونے کی وجہ سے سیدنا عبداللہ بن زبير رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب نے اسے قتل کیا ۔(مرأۃ الجنان،ج۱،ص۱۱۶، الاعلام للزرکلی ج۸،ص۱۰)