islam
جہیز:
جہیز کے لئے بھی کوئی حد ہونی چاہيے کہ جس کی ہر امیر وغریب پابندی کرے۔ امیر لوگ اور موقع پر اپنی لڑکیوں کو جوچاہیں دیں۔ مگر جہیز وہ دیں جو مقرر ہوگیا یا د رکھو اگر تم جہیز سے دولہا کا گھر بھی بھر دو گے تو بھی تمہارا نام نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بعض جگہ بھنگی چمارو ں نے اتنا جہیز دے دیا ہے کہ مسلمان بڑے مالدار بھی نہیں دے سکتے۔ چنا نچہ چند سال گزرے کہ آگر ے(ھند کے ایک شہر) میں ایک چمار نے اپنی لڑکی کو اتنا جہیز دیا کہ وہ بارات کے ساتھ جلوس کی شکل میں ایک میل میں تھا۔ اس کی نگرانی کے لئے پولیس بلانی پڑی جب اس سے کہا گیا کہ اتنا جہیز رکھنے کے لئے دولہا کے پاس مکان نہیں ہے تو فورا چھ چھ ہزار یعنی بارہ ہزار روپے کے مکان خرید کر دولہا کو دے دیئے چنانچہ اب ہم نے خود دیکھا کہ جو مسلمان اپنی جائیداد ومکان فروخت کر کے اتنا جہیز دیتے ہیں تو دیکھنے والے اس چمار کے جہیز کا ذکر شرو ع میں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائی وہ چمار جہیز کا ریکارڈ تو ڑگیا۔ اس مسلمان بیچا رے کا نام نہ تعریف لہٰذا اے مسلمانو!ہوش کرو۔ اس ناموری کے لالچ میں اپنے گھر کو آگ نہ لگاؤیا در کھو کہ نام اور عزت تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی پیروی میں ہے۔ لہٰذا جو جہیز ہم عرض کرتے ہیں اس سے زیادہ ہر گز نہ دو۔
بر تن ااعدد، چا ر پائی درمیانی ایک عد د، لحاف ایک عد د۔ تو شک (گدیلا) ایک عد د، تکیہ ایک عد د، چا در ایک عدد، دلہن کو جوڑے چا ر عدد، جس میں دو عدد سوتی ہوں اور دو ریشمی۔ دولہا کو جوڑے دو عدد، دولہا کے والد کو جوڑا ایک عدد، دولہا کی ماں کو جوڑا ایک عدد، مصلی (جائے نماز) ایک عدد، قرآن شریف مع رحل ایک عدد، زیور بقدرہمت مگر اس میں بھی زیادتی نہ کرو۔ اگر ہو سکے تو اس کے علاوہ نقد روپیہ لڑکی کے نام میں جمع کر ادو اور اگر تم کو اللہ عزوجل! نے دیا ہے تو لڑکی کو کوئی مکان، دوکان، جائیداد کی شکل میں خرید دو لڑکی کے نام رجسٹری ہو۔ یہ بھی یا د رکھو کہ تمام لڑکیوں میں برابری ہونا ضروری ہے لہذا اگر نقدی روپیہ یا جائیداد ایک کودی ہے تو سب کو دو ورنہ گنہگار ہو گئے۔ جو اولاد میں برابر ی نہ رکھے حدیث شریف میں اس کو ظالم کہا گیا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح مسلم،کتاب الھبۃ ،باب کراہیۃ تفضیل بعض الاولاد فی الھبۃ،الحدیث۲۲۱۶،ج۴،ص۸۹۸)
اور اپنی لڑکیوں کو سکھا دو کہ اگر ان کی ساس یانند طعنہ دیں تو وہ جواب دیں کہ میں سنت طریقہ اور حضرت خاتون جنت کی غلامی میں تمہارے گھر آئی ہوں۔ اگر تم نے مجھ پر طعنہ کیا تو تمہارا یہ طعنہ مجھ پر نہ ہوگا بلکہ اسلام اور بانئی اسلام علیہ السلام پر ہوگا۔ ساس نند بھی خوب یادرکھیں کہ اگر انہوں نے یہ جواب سن کربھی زبان نہ روکی۔ تو ان کے ایمان کا خطرہ ہے۔
لطیفہ: حضر ت امام محمدرحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا۔ کہ میں نے قسم کھائی تھی کہ اپنی بیٹی کو جہیز میں ہر چیز دو ں گا۔ اب کیا کرو ں کہ قسم پوری ہو۔ کیونکہ ہر چیز تو بادشاہ بھی نہیں دے سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ تو اپنی لڑکی کو جہیز میں قرآن شریف دے دے کیونکہ قرآن شریف میں ہر چیز ہے اور آیت پڑھ دی (روح البیان ) پارہ گیار ہواں سورہ یونس کی پہلی آیت
وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۵۹﴾
(پ۷،الانعام ـ ۵۹)
ترجمہ کنزالایمان:اور نہ کوئی تراور نہ خشک جوایک روشن کتاب میں نہ لکھا ہو
( رو ح البیان، پ ۱۱، یونس : تحت۱، ج ۴، ص ۴ )
لہٰذا لڑکیوں اور ان کی ساس نندوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس نے قرآن شریف جہیز میں دے دیا اس نے سب کچھ دے دیا کیا چکّی، چولہا اور دنیا کی چیزيں قرآن شریف سے بڑھ کر ہیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اور اگر برات دوسرے شہر سے آئی ہے تو برات میں آنے والے آدمی مرد اور عورت ۲۵ سے زیادہ نہ ہوں اور ان مہمانوں کو لڑکی والا کھانا کھلائے مگر یہ کھانا مہمانی کے حق کا ہوگانہ کہ برات کی رو ٹی۔ اس طر ح دولہن والے کے گھر جو اپنی برادری اور بستی کی عام دعوت ہوتی ہے۔ وہ بالکل بند کردی جائے۔ہاں باہر کے مہمان اور برات کے منتظمین ضرور کھانا کھائیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ دلہن کے گھر عام برادری کی دعوت نہ ہو کہ یہ بلاوجہ کا بوجھ ہے۔ جہاں تک ہوسکے لڑکی والے کا بوجھ ہلکا کردو۔
جب دلہن خیر سے گھر پہنچے۔ تو رخصت کے دو سرے دن یعنی شبِ عروسی کی صبح کو دولہا کے گھر دعوت ولیمہ ہونی چاہيے۔ یہ دعوت اپنی حیثیت کے مطابق ہو کہ یہ سنت ہے مگر اس کی دھوم دھام کے لئے سودی قرضہ نہ لیا جائے اور مالدارو ں کے ساتھ کچھ غربا اور مساکین کوبھی اس دعوت میں بلایا جائے یا در کھو کہ جس شادی میں خرچہ کم ہوگا۔ ان شاء اللہ عزوجل! وہ شادی بڑی مبارک اور دلہن بڑی خوش نصیب ہوگی ہم نے دیکھاکہ زیادہ جہیز لے جانے والی لڑکیا ں سسرال میں تکلیف سے رہیں اورکم جہیز لانے والیاں بڑے آرام سے گزارا کر رہی ہیں۔