islam
مزار مبارک امُ المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے تنعیم کے مقام سے تقریبا بارہ کلومیٹر آگے نواریہ کے مقام پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مزار پرُانوار واقع ہے۔ ’’نواریہ‘‘جس کا قدیم نام ’’سَرِف‘‘ ہے۔ یہاں ام المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا آرام فرمارہی ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے آخری زوجہ محترمہ ہیں۔ آپ کے بعد رسول اکرم نورمجسم ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے نکاح نہیں فرمایا۔ سیّدہ میمونہ سلام اللہ علیھا کا نام ’’بَرّہ‘‘ تھا، مگر حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ’’میمونہ ‘‘ نام رکھا۔ ’’میمونہ‘‘ یَمَنْ سے مشتق ہے اور اس کے معنی ہیں ’’برکت‘‘اور ’’میمون‘‘ یا ’’میمونہ ‘‘ کے معنی ہیں : مبارک۔
ام المومنین سیدہ میمونہ سلام اللہ علیھا کی ولادت مقام ’’سرف‘‘ متصل مکة المکرمہ میں ہوئی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد(نکاح) بھی اسی مقام پر ہوا، آپ کا وصال مبارک بھی یہیں ہوا اور تدفین بھی اسی مقام پر عمل میں آئی۔
سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح مسعود بن عمرو بن عمیر ثقفی رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا،انہوں نے کسی وجہ سے طلاق دے دی تھی، پھر سیّدہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا نکاح ابورہم بن عبدالعزیٰ سے ہوا۔۷ ؍ ہجری میں سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں۔ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بہنوئی تھے، چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو سیّدہ میمونہ سے نکاح کے لیے ترغیب دی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ یعنی حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی چچی حضرت لبابة الکبریٰ جن کی کنیت ام الفضل تھی انہوں نے اپنی ہمشیرہ سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے نکاح پر آمادہ کیا۔ جب ۷ ؍ ہجری میں سیّد المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے وقت کا قضا کیا ہوا عمرہ ادا کرنے کے لیے مکة المکرمہ تشریف لائے۔ اسی موقع پر یہ نکاح منعقد ہوا۔اسی’’نواریہ یا سَرِف‘‘ کے مقام پر حضور علیہ الصلوٰة والسلام احرام کی حالت میں تھے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی معتمر اور مُحرِم تھے۔ عم رسول حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ بھی حالت احرام میں تھے اور آپ ہی اپنی خواہر نسبتی سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے وکیل نکاح بنے اور آپ ہی نے خطبۂ نکاح پڑھا۔
سیّدہ میمونہ سے حضور کا نکاح ذوالقعدہ ۷ ؍ ہجری میں ہوا اور ان کا وصال ۵۱ ؍ ہجری میں بعمر ۸۰ سال اسی مقام سرف پر ہوا۔
ام المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ ہند بنت عوف کو سسرال کے لحاظ سے ’’اکرم الناس‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابن قتیبہ نے ’’معارف‘‘ میں لکھا ہے کہ پوری روئے زمین میں ہند بنت عوف سے زیادہ کوئی عورت اپنے دامادوں کے لحاظ سے بزرگ اور خوش قسمت نہیں ہے۔
۱۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دامادہیں۔
۲۔ سیّد الشہداء حضرت سیّدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما داماد ہیں۔
۳۔ سیّدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ داماد ہیں۔
۴۔ سیّدنا حضرت جعفر طیّار رضی اللہ عنہ داماد ہیں۔
۵۔ سیّدنا حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ داماد ہیں۔
۶۔ حضرت سیّدنا شدّاد ابن الہادرضی اللہ عنہ داماد ہیں۔
یہ حضرت شدّاد رضی اللہ عنہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضور کے اس طویل سجدے کو ملاحظہ کیا تھا۔ جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے نانا جان کی پشت پر دوران سجدہ بیٹھ گئے تھے۔
ھند بنت عوف کی دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کی دوبیٹیاں یکے بعد دیگرے حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کے عقد میں رہیں۔
ام المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے ۷۶ ؍ احادیث مروی ہیں۔
ام المومنین سیدہ میمونہ سلام اللہ علیھا کی ولادت مقام ’’سرف‘‘ متصل مکة المکرمہ میں ہوئی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد(نکاح) بھی اسی مقام پر ہوا، آپ کا وصال مبارک بھی یہیں ہوا اور تدفین بھی اسی مقام پر عمل میں آئی۔
سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح مسعود بن عمرو بن عمیر ثقفی رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا،انہوں نے کسی وجہ سے طلاق دے دی تھی، پھر سیّدہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا نکاح ابورہم بن عبدالعزیٰ سے ہوا۔۷ ؍ ہجری میں سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں۔ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بہنوئی تھے، چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو سیّدہ میمونہ سے نکاح کے لیے ترغیب دی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ یعنی حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی چچی حضرت لبابة الکبریٰ جن کی کنیت ام الفضل تھی انہوں نے اپنی ہمشیرہ سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے نکاح پر آمادہ کیا۔ جب ۷ ؍ ہجری میں سیّد المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے وقت کا قضا کیا ہوا عمرہ ادا کرنے کے لیے مکة المکرمہ تشریف لائے۔ اسی موقع پر یہ نکاح منعقد ہوا۔اسی’’نواریہ یا سَرِف‘‘ کے مقام پر حضور علیہ الصلوٰة والسلام احرام کی حالت میں تھے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی معتمر اور مُحرِم تھے۔ عم رسول حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ بھی حالت احرام میں تھے اور آپ ہی اپنی خواہر نسبتی سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے وکیل نکاح بنے اور آپ ہی نے خطبۂ نکاح پڑھا۔
سیّدہ میمونہ سے حضور کا نکاح ذوالقعدہ ۷ ؍ ہجری میں ہوا اور ان کا وصال ۵۱ ؍ ہجری میں بعمر ۸۰ سال اسی مقام سرف پر ہوا۔
ام المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ ہند بنت عوف کو سسرال کے لحاظ سے ’’اکرم الناس‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابن قتیبہ نے ’’معارف‘‘ میں لکھا ہے کہ پوری روئے زمین میں ہند بنت عوف سے زیادہ کوئی عورت اپنے دامادوں کے لحاظ سے بزرگ اور خوش قسمت نہیں ہے۔
۱۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دامادہیں۔
۲۔ سیّد الشہداء حضرت سیّدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما داماد ہیں۔
۳۔ سیّدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ داماد ہیں۔
۴۔ سیّدنا حضرت جعفر طیّار رضی اللہ عنہ داماد ہیں۔
۵۔ سیّدنا حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ داماد ہیں۔
۶۔ حضرت سیّدنا شدّاد ابن الہادرضی اللہ عنہ داماد ہیں۔
یہ حضرت شدّاد رضی اللہ عنہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضور کے اس طویل سجدے کو ملاحظہ کیا تھا۔ جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے نانا جان کی پشت پر دوران سجدہ بیٹھ گئے تھے۔
ھند بنت عوف کی دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کی دوبیٹیاں یکے بعد دیگرے حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کے عقد میں رہیں۔
ام المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے ۷۶ ؍ احادیث مروی ہیں۔