Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

چوتھی حدیثِ پاک کی آٹھویں سند

   علامہ ابو بکر بن ابی شیبہ (235-159ھ) اورامام احمد بن مَنیع(244-160ھ) رحمہمااللہ تعالیٰ دو نوں اپنی اپنی” مُسْنَد ” میں فرما تے ہیں کہ یزید بن ہارو ن ، عوام بن حوشب سے ، وہ طلحہ بن نافع ابو سفیان سے اور وہ حضرت سيدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص شہنشاہِ خوش خِصال،پیکرِ حُسن وجمال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس سے گزرا۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس کی تعریف کی ۔تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”اسے کون قتل کریگا؟” حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”مَیں۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی طرف گئے مگر اسے نماز کی حالت میں کھڑا پایا۔اس نے نشان لگا کر اپنے لئے جگہ مخصوص کر رکھی تھی ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس لوٹ آئے اور اسے نماز کی حالت میں قتل نہ کیا۔
    آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پھرارشادفرمایا:”اسے کون قتل کرے گا؟” حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”میں قتل کروں گا۔”پس آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی طرف گئے مگر اسے اسی مخصوص جگہ پر نماز کی حالت میں کھڑا دیکھا تو واپس لوٹ آئے اور اسے قتل نہ کیا ۔
    سرکارِ مدینہ، راحت قلب وسینہ،باعث نزولِ سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا: ”اسے کون قتل کرے گا؟ ”حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کی: ”اسے مَیں قتل کرو ں گا ۔” آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”تم ہی ایسا کرتے مگرمجھے لگتا ہے کہ تم اسے نہيں پاؤگے ۔”آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس کی طرف گئے تو وہ جا چکا تھا۔
(مسندابی یعلٰی،مسندجابربن عبداللہ،الحدیث:۲۲۱۲،ج۲،ص۳۳۸)
    امام ابویعلٰی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیثِ پاک کی تخریج یوں کرتے ہیں کہ ابو خیثمہ ، یزید بن ہارون سے اس حدیثِ پاک کو روایت کرتے ہیں ۔
    یہ سندامام مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔یزید بن ہارو ن اور عوام بن حوشب صحیحین کے راويوں میں سے ہیں اور ابوسفیان طلحہ بن نافع ،مسلم شریف کے راویوں میں سے ہيں، اگر حدیث کی اس سند کے علاوہ کوئی اور سندنہ بھی ہوتی تو بھی یہ سند اس حدیث کے ثبوت اور صحت کے لئے کافی ہوتی ۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!