islam
آگ جلا نہ سکی
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں بہت سے ایسے واقعات ہیں کہ آگ ان چیزوں کو نہ جلا سکی جن کو آپ کی ذات سے کوئی تعلق رہا ہو۔
چنانچہ قطب الدین قسطلانی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب ”جمل الایجاز فی الاعجاز” میں لکھا ہے کہ وہ آگ جو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خبر غیب کے مطابق ۶۵۴ھ میں مدینہ منورہ کے پاس قبیلہ قریظہ کی پہاڑیوں سے نمودار ہوئی وہ پتھروں کو جلا دیتی تھی اور کچھ پتھروں کو گلا دیتی تھی۔ یہ آگ جب بڑھتے بڑھتے حرم مدینہ کے قریب ایک پتھر کے پاس پہنچی جس کا آدھا حصہ حرم مدینہ میں داخل تھا اور آدھا حصہ حرم مدینہ سے خارج تھا تو پتھر کا جو حصہ خارجِ حرم تھا اس کو اس آگ نے جلا دیا لیکن جب اس نصف حصہ تک پہنچی جو حرم مدینہ میں داخل تھا تو فوراً ہی وہ آگ بجھ گئی۔
اسی طرح امام قرطبی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہے کہ وہ آگ مدینہ طیبہ کے قریب سے ظاہر ہوئی اور دریا کی طرح موج مارتی ہوئی یمن کے ایک گاؤں تک پہنچ گئی اور اس کو جلا کر راکھ کر دیا مگر مدینہ طیبہ کی جانب اس آگ میں سے ٹھنڈی ٹھنڈی نسیم صبح جیسی ہوائیں آتی تھیں۔ اس آگ کا واقعہ چند اوراق پہلے ہم مفصل طور پر لکھ چکے ہیں۔ (الکلام المبین ص۱۰۷)
اسی طرح ”نسیم الریاض” میں لکھا ہے کہ ”عدیم بن طاہر علوی” کے پاس چودہ موئے مبارک تھے انہوں نے ان کو امیر حلب کے دربار میں پیش کیا۔ امیر حلب نے خوش ہو کر اس مقدس تحفہ کو قبول کیا اور علوی صاحب کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے ان کو انعام و اکرام سے مالا مال کر دیالیکن اس کے بعد جب دوبارہ علوی صاحب امیر حلب کے دربار میں گئے تو امیر نے تیوری چڑھا کر بہت ہی ترش روئی کے ساتھ بات کی اور ان کی طرف سے نہایت ہی بے التفاتی کے ساتھ منہ پھیر لیا۔ علوی صاحب نے اس بے توجہی اور ترش روئی کا سبب پوچھاتو امیر حلب نے کہا کہ میں نے لوگوں کی زبانی یہ سنا ہے کہ تم جو موئے مبارک میرے پاس لائے تھے ان کی کچھ اصل اور کوئی سند نہیں ہے۔ علوی صاحب نے کہا کہ آپ ان مقدس بالوں کو میرے سامنے لائیے۔ جب وہ آ گئے تو انہوں نے آگ منگوائی اور موئے مبارک کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا پوری آگ جل جل کر راکھ ہو گئی مگر موئے مبارک پر کوئی آنچ نہیں آئی بلکہ آگ کے شعلوں میں موئے مبارک کی چمک دمک اور زیادہ نکھر گئی ۔یہ منظر دیکھ کر امیر حلب نے علوی صاحب کے قدموں کا بوسہ لیا اور پھر اس قدر انعام وا کرام سے علوی صاحب کو نوازا کہ اہل دربار ان کے اعزاز و وقار کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ (الکلام المبین ص۱۰۸)
اسی طرح حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دستر خوان کی روایت مشہور ہے کہ چونکہ اس دستر خوان سے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک اور روئے اقدس کو صاف کر لیا تھا اس لئے یہ دسترخوان آگ کے جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا جاتاتھا مگر آگ اس کو جلاتی نہیں تھی بلکہ اس کو صاف وستھرا کر دیتی تھی۔(1) (مثنوی شریف مولانا رومی)