islam
کتب خانہ جامعہ نظامیہ کے تاریخی مخطوطات
کتب خانہ جامعہ نظامیہ کے
تاریخی مخطوطات
بقلم: شاہ محمد فصیح الدین نظامی ،
مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ
برصغیرکی تاریخ کے زرین ابواب دانش گاہوں، درسگا ہوں، خانقاہوں اور کتب خانوں کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں، یہاں سابق میں ہر صاحب حیثیت کے دولت خانہ میں تین خانے ہوا کرتے تھے مہمان خانہ ،اسلحہ خانہ، کتب خانہ، اوراق گذشتہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صرف حیدرآباد دکن ہی میں چارہزار کتب خانے تھے۔ لائبریری عشاقِ کتب کامقام ، مشتاقانِ فن کا منصب ، شائقینِ علم کا مذہب ، محبان ادب کی منزل، اصحابِ دانش کا قبلہ ، اربابِ عرفان کا کعبہ ہوتی ہے، کتب خانے دراصل روحانی شفاخانے ہوتے ہیں اور ان میں موجود کتابیں نوادرات ، مخطوطات ماضی کا ورثہ، حال کا سرمایہ اور مستقبل کی اساس ہوتے ہیں، قلی قطب شاہ کے بسائے ہوئے تاریخی شہر فرخندہ بنیاد حیدرآباد میں جہاں کتب خانہ آصفیہ ، کتب خانہ سالارجنگ میوزیم ، اسٹیٹ آرکائیوز، اور ینٹل مینوسکرپٹ لابئریری ، کتب خانہ جامعہ عثمانیہ، جیسے علمی تحقیقی مراکزقائم ہیں وہیں۱۳۶سالہ قدیم مرکزِعلم وعرفان ’’جامعہ نظامیہ ‘‘ کا کتب خانہ بھی اپنی قدامت و اہمیت کے لحاظ سے برصغیرکی علمی ادبی تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہے جسے کسی زاویہ سے فراموش نہیں کیا جاسکتا، اتالیق آصف جاہ سادس وآصفجاہ سابع، علامہ انواراللہ فاروقی فضیلت جنگ خان بہادرؒ (۱۸۴۷ء تا ۱۹۱۷ء) نے جامعہ نظامیہ کی شکل میں جو چراغِ علم وفن روشن کیا تھا وہ سواصدی سے زیادہ ، تاباں ودرخشاں چلاآرہا ہے اس طویل مدت میں اس چراغ کی ضیاء پاشیوںنے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں دل ودماغ کو منورکیا اور آج بھی یہ چراغ گم گشتہ راہوں کے لئے نشانِ منزل کی صورت میں اپنی پوری تابانیوںکے ساتھ ہم میں موجودہے، جامعہ نظامیہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آصف سابعؔنے کہاتھا:
بہ پیشِ مصحف قدسی تو شو جبیں سائے
زبہر ہر یکے بنگر تو نیز ملجائے
چہ شانِ مکتبِ انوار گفت ایں عثماںؔ
علومِ مشرقیہ رابخواں توایں جائے
جامعہ نظامیہ کے کتب خانہ میں علامہ اقبالؔ کے بقول ’’خزانے علم وحکمت کے‘‘ اور کتابیں اپنے آباء کی ‘‘ بھری پڑی ہیں جہاں دور دور سے قدرشناس آتے ہیں اور علمی جواہر پاروںسے اپنے دامنِ علم کو بھرلے جاتے ہیں ، علم ودانش کا یہ خزانہ اور نادرونایاب تہذیبی وثقافتی اثاثہ علامہ فضیلت جنگؒ کے شوقِ بے پایاں اور ذوقِ فراواں کا ثبوت ہے جنہوںنے کشمیرسے کنیاکماری اور ہند سے حجازتک دنیاکے مختلف ممالک وخطوں سے لاکھوں روپئے خرچ کرکے اس قومی اثاثہ کو یکجاکیا۔ ۱۸۷۵ء میں کتب اندوزی کا سلسلہ شروع ہوا، اس وقت یہ کتب خانہ ہزارہا مطبوعات، سینکڑوں مخطوطات، منقش مرصع، مطلانسخوں، اکابر و مثاہیر کے مکاتیب، شجرے فرامین ، روزنامچے اور نامورخطاطوں کی خوش نما وخوش وضع تحریر وں کی بناء ایک خاص شہرت رکھتا ہے بالخصوص مخطوطات کے شعبہ میں مغلیہ، بہمنی ، قطب شاہی ، عادل شاہی، بریدشاہی، اور آصف جاہی دور کی تاریخ وتذکرے نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں یہاں ، ’’بشیرالتہنیتہ‘‘ نامی وہ مخطوطہ بھی دعوت نظارہ دے رہاہے جس میں سلطنت آصفیہ کے آخری تاجدار سلطان العلوم کی تخت نشینی (1329ھ)کے تفصیلی حالات تحریر کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل ’’شاہنامہ فردوسی‘‘ پدماوت (منظوم)اکبر نامہ (مہابھارت) ابوالفضل ، کلیات بیدلؔ، مثنوی مولانا رومؒ ، من لگن، پنجیباحیا، کنزالعمال، کشف المحجوب، وقائع ایام محاصرہ حیدرآباد (نعمت خان عالیؔ) خاصہ کی چیز ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وقائع گولکنڈہ کا ایک نسخہ جو قلعہ کے کتب خانہ میں تھا، اورنگ زیب عالمگیرنے فتح کے بعد اپنے کتب خانہ میں شامل کرلیا تھا۔ اورنگ زیب جہاں ایک بادشاہ غازی تھا، وہیں اسکی حیثیت فروع علم وفن کے سفیر کی بھی تھی وہ محب علماء اور صوفیاء بھی، ان صوفیاء ودرویشوںنے جہاں اپنی خانقاہوںسے علم معرفت کے موتی لٹائے وہیں خودبھی علم کے خزانے اور کتابوںکے بڑے بڑے ذخیرے جمع کئے خود سرزمین دکن پر روضۃ الحدیث ، رین بازار (حضرت حسن الزماں الفاطمیؒ )کتب خانہ سعیدیہ ، کتب خانہ حضرت شاہ عبدالرزاق قادریؒ ، سرنظامت جنگ لابئریری ، کتب خانہ احیاء المعارف النعمانیہ (جلال کوچہ) ، کتب خانہ شاہ عارف اللہ قادری ، (بالاپور) ، کتب خانہ اردواکیڈمی ، (پرانی حویلی)، کتب خانہ جناب سید ارشد مسلم ایڈوکیٹ ، (سیتارام باغ) اسکی روشن مثالیں ہیں دور دراز سے آنے والے وارفتگانِ شوق، دیدئہ ذوق سے ان کتب خانوں کا مشاہدہ کرتے ہیں یہاں کے نوادرات محققین وریسرچ اسکالرس کیلئے خوانِ یغما اورمن وسلوٰی سے کم نہیں، جامعہ نظامیہ لابئریری کا امتیاز یہ ہے کہ یہ صرف مسلمانوں ہی کے تہذیبی ورثے کی محافظ نہیں بلکہ اس میں دنیا کی مختلف اقوام والْسنہ کے علوم وفنون کا ایسا بیش بہااور پُرازمعلومات اثاثہ محفوظ ہے جسکی بناء پر اسکوبجاطور پر ہندوستان کاقومی سرمایہ کہا جاسکتا ، بقول مولاناجلال الدین رومیؒ۔
کعبہ عشاق باشدایں مقام
ہر کہ ناقص آمد ایں جاشد تمام
مخطوطات کسی بھی قوم کی تہذیب وتمدن ، شعوروآگہی کے منھ بولتے ترجمان ہوتے ہیں بقول ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب ’’وہ مخطوطے جو خوشنویسی اورعلم وہنرکے نادرمرقعے ہیںجن کا ایک ایک حصہ اگر کسی میوزیم میں آویزاں کیا جائے تو وہاں کی رونق بڑھ جائے‘‘ بلاشبہ جامعہ نظامیہ لابئریری میں ایسے مخطوطات موجودہیں ’’کتابیں ہیں چمن اپنا‘‘ کے مصنف عبدالمجید قریشی نے مخطوطات کی آفاقیت کو اجاگرکرتے ہوئے ایک روح پرور واقعہ تحریر کیاہے۔
لکھتے ہیں کہ ’’پٹنہ کی مشہور خدا بخش لائبریری کے بانی مولوی خدابحش نے ایک رات خواب دیکھا کہ ان کے کتب خانہ کے برابروالی گلی میں لوگوں کا ہجوم ہے لوگوںنے انہیں دیکھا چلانے لگے کہ رسول اللہ ﷺ تمہارے کتب خانہ کے ملاحظہ کیلئے تشریف لائے ہیں تم کہاں ہو، یہ سن کروہ اس کمرے کی طرف دوڑے جہاں قلمی کتابیں رکھی ہوئی تھیں اس وقت تک رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاچکے تھے لیکن یہاں حدیث کی دوکتابیں میزپر کھلی رکھی تھیں لوگوںنے بتایا کہ ان دونوں قلمی نسخوں کو حضور ملاحظہ فرمارہے تھے‘‘۔
جامعہ نظامیہ کے قلمی کتب کے ذخیرے میں تفسیرالقرآن ، حدیث نبویؐ،تاریخ ، سوانح، شعروادب ، فقہ واصول ، صرف ونحو، کلام ومنطق ، رباعیات ، دواوین، تصوف واخلاق، فلسفہ وحکمت، شخصیات تذکرے ، نجوم وفلکیات، لسانیات، خطبات وروزنامچے موجودہیں اس خزانے سے فیض یاب ہونے کیلئے دنیابھر سے محققین کے قافلے یہاں خیمہ فگن ہوتے ہیں اس طرح یہ کتب خانہ علم وفن کی آماجگاہ بھی ہے اور زیارت گاہ بھی۔
کتب خانہ کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ زندہ ہو، جیتاجاگتا ہو، متحرک وفعال ہو کتب خانہ جامعہ نظامیہ ایساہی ہے جہاں الماریوں کے صدف میں کتابوں کے موتی جھلملاتے ہیں یہاںکے چند اہم مخطوطات کا تعارف ملاحظہ کیجئے
(۱)کتاب التبصرۃ (ابومحمدمکی) ۷۵۳ھ۔
(۲)لیلیٰ مجنوں(مولانا نظام الدین کنجۂ) واضح ہو کہ یہ مخطوطہ اورنگ زیب عالمگیرکے عہدمیں کاشی کے مقام پر کاتب عنایت اللہ نے ۱۰۹۳ھ لکھا۔
(۳)شاہنامہ فردوسی،۱۲۴۰ھ ۔
(۴)تیمورنامہ تقریباچار سوسال قدیم۔
(۵)من لگن(تصوف ، محمود بحری)۱۲۸۷ھ۔
(۶)کشف المحجوب (حضرت داتاعلی ہجویری گنج بخش لاہوریؒ) اسکی کتابت ۱۲۳۴ھ بخارا میں ہوئی جسکو علامہ فضیلت جنگؒ نے مدینہ منورہ میں خریدا اور ہندوستان لے آئے ۔
(۷)رباعیات سبحانیؔ(مولانا سبحان کا یہ نسخہ لاہورمیں ۱۰۷۶ھ میں تحریر کیاگیا)۔
(۸) نلدومن(علامہ شیخ فیضی) کی تصنیف، شاہ جہاں آباد دہلی میں تحریرکردہ ہے)۔
(۹)خزانہ تصانیف، فارسی مصنف مولانا سید عبدالرحمن نے یہ کتاب علامہ فضیلت جنگؒکی خدمت میں ۱۲۹۳ھ ہدیۃً پیش کیا تھا۔
(۱۰)اکبرنامہ (مہابھارت) سنسکرت سے فارسی ترجمہ اکبرکے نورتن ابو الفضل نے کیا تھا تقریباً تین سوسالہ قدیم یہ نسخہ دوجلدوں اور ۸۰۰صفحات پر مشتمل ہے،اس رزم نامہ کا ایک نسخہ جے پور میں بھی موجود ہے۔ جس میں اکبر کے حکم سے تمام معرکوں کی تصویریں بنائی گئی تھیں، اسکی تکمیل میں پانچ برس اور دس ہزارروپئے کا صرفہ ہوا تھا
(۱۱)پدماوت(منظوم)۱۱۰۷ھ
(۱۲)قابوس ترجمہ (فارسی لغت)مترجم محمد حبیب اللہ ،۱۱۴۷ھ خوبصورت خط میں تحریر کی گئی
(۱۳)رباعیات عمرخیامؔ (تعداد۶۲۱)کتابت ۱۲۸۶ھ کی ہے
(۱۴) مجموعہ منتخبہ من الصحاح، یہ علامہ فضیلت جنگؒ کا حدیث نبوی میں ایک خاص اسلوب پر تصنیف کیاگیا قلمی نسخہ ہے جسکی کتابت ۱۳۰۷ھ میں علامہ فضیلت جنگؒ کے علاوہ دیگر کاتبوںنے کی۔ ان کے علاوہ دیگر کئی نادر ونایاب نفیس تربا لخصوص قرآن مجید کے قلمی نسخے ہیں جن کے اوراق کو طلاء کلاریوں اورگل کاریوں سے سجایاگیا ہے سورۃ کے عنوان کے علاوہ متن کے گرداگرد سنہری ، آسمانی، سرخ رنک دیاگیاہے ، یہ مشہور تزینی طرز تاج محل کی پچی کاری اور دیگر عمارتوں میں بھی دکھائی دیتاہے ، خط نسخ ، نستعلیق ، رفعہ ، ثلث، دیوانی ، شکستہ ، شفیعہ گلزار میں لکھی ہوئی کتب بالخصوص قرآن مجید کی ماہرانہ خطاطی ونازک گل کاری کی گئی ہے (قرآن چاہے، شاندارلکھے ہوئے ہوں یا سیدھے سادے ان میں انسانیت کی نجات کا وہ راستہ متعین کردیا گیا ہے جو اسے دارالمحن سے بچاتا ہو سیدھے مولاتک لے جاتا ہے)۔ کتب خانہ کے اس ذخیرے میں مملکت آصفیہ کے ساتویں تاجدار آصف سابع کی جانب سے عطیہ دی گئی کتب کے علاوہ ایسی بھی کتابیں ہیں جوکسی دورمیں شاہزادوں ، نوابو ں ، امراء جنگ ، دولہ کے کتب خانوں میں رہ چکی ہیں ان میں کوئی کتاب علامہ جامیؒکی ہے تو کوئی امام غزالیؒ کی ، کو ئی دجلہ کے دیس بغداد کی تاریخ پر مشتمل ہے تو کسی کتاب پر حضرت حسن الزماںؒکی تحریرہے تو کہیں خود علامہ فضیلت جنگؒ کے پختہ وعمدہ خط میں معلوماتی حاشیے اورفہرستیں بنی ہوئی ہیں ، کہیں حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تصنیف کی عبارت آنکھوں کے راستے روح میں اترجاتی ہے ، یہاں کا ایک مخطوطہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے ’’کتاب التبصرۃ‘‘ کے نام سے فن تجوید وقرأت میں ۷۵۳ھ میں تحریر کیا گیا یہ دنیا کا منفرد نسخہ ہے اس طرح کا دوسرا نسخہ ترکی کے ’’مکتبہ نورعثمانیہ‘‘ میں موجود ہے۔ جامعہ نظامیہ کے قدیم طالب علم مولانا ڈاکٹرقاری محمد غوث حافظؔ نے اس پر تحقیق کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری عثمانیہ یونیورسٹی سے حاصل کی جو آج کل امریکہ میں مقیم ہیں۔ اسکے علاوہ مشہور صوفی ابن عربیؒ کی معرکہ آرا کتاب ’’فتوحات مکیۃ‘‘ (جسکادرس علامہ فضیلت جنگؒ دیا کرتے تھے) پر خود علامہؒ کے ہاتھ سے عمدہ خط میں تحریر کردہ حاشیے موجودہیں، کتب خانہ مخطوطات کے تحفظ کیلئے فیومی گیشن کی سہولت ہے جس سے کیڑے وغیرہ ختم ہو جاتے ہیں، اور کاغذ گلنے سے بچ جاتا ہے۔ تحفظِ مخطوطات کا یہ وسیلہ ہر بڑی لابئری میں لازمی تصور کیا جاتا ہے نیز کتب خانہ میں قدیم کتب کی جلد بندی کیلئے ماہر جلد سازجناب عبدالشکور کا تقرر کیا گیا ہے جو مطبوعات کے علاوہ مخطوطات کی جلدبندی میں فنی مہارت کے حامل ہیں ، یہاں چند نایاب مخطوطات کو شوکیسوں میں سلیقہ سے رکھا گیا ہے جن کی تفصیلات کیٹلاگ پر درج ہیں نیز مولانا قاضی عبدالقادر فاروقیؒ (برادرزادہ فضیلت جنگؒ)و بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق مولانا ابوالوفاء الافغانیؒ کی قلمی اسناد بھی موجودہیں یہ بات بہت ہی مسرت افروز ہے کہ 2006ء میں متحدہ عرب امارات کے ایک عالمی سطح کے ادارہ ’’مرکز جمعہ الماجد للتراث‘‘ نے جامعہ نظامیہ کے قدیم مخطوطات کو کمپیوٹر سی ڈیز میں محفوظ کرنے کا عظیم کام ثقافتی وِرثے کے خیر سگالی جذبے کے تحت ارباب جامعہ نظامیہ کے تعاون سے انجام دیا۔ جو تقریباً 100سی ڈیز میں محفوظ ہے ادارہ کے بانی وسربراہ الشیخ جمعہ الماجد حفظہ اللہ نے بھی جامعہ نظامیہ کا دورہ کر کے اپنے بھرپور تعاون کا تیقن دیا۔ لابئریری کے نایاب ذخیرے میں عوام اور علم دوست اصحاب کے تعاون سے ہر سال قابل قدر اضافہ ہوتا جارہاہے۔ حصولِ علم اور عطیہ کتب ایک عبادت کا درجہ رکھتے ہیں خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے اس جہاں سے اٹھ جانے کے بعد بھی ان کی عبادت جاری ہیگی، جامعہ کی مسجد ، اسلامک ریسرچ سنٹر، گیسٹ ہاؤز ، کمپیوٹر سنٹر ، پر نٹنگ پر یس اور علامہ فضیلت جنگؒ کے نوارنی گنبد کی طرح بیش بہا مخطوطات ونوادرات کی حامل لابئریری کی فضاء شائقینِ علم کا انہماک، عبادتِ علمی واعتکافِ تحقیقی کا سماں پیش کرتی ہے جو اس دوسرے عہد ہزارسالہ میں بھی مرجعِ اَنام بنی ہوئی ہے راقم الحروف کی کوشش ہے کہ اربابِ جامعہ مولانا سیداکبر نظام الدین صابری، مولانا مفتی خلیل احمد ،محترم سید احمدعلی، سیکریٹری کی سرپر ستی میں ان نوادرات کی فہرست کا ایک خوبصورت مصور مرقع بھی شائع کیا جائے جو علم وادب بالخصوص مخطوطات کے عالمی قدردانوں کیلئے ایک بیش قیمت ونایاب تحفہ ثابت ہوگا۔٭٭٭