۔۔۔۔۔افعال تعجب کا بیان۔۔۔۔
و ہ ا فعال جنھیں تعجب کے اظہار کے لیے وضع کیا گیا ہو انہیں افعال تعجب کہتے ہیں۔ جس چیز پر تعجب کیا جائے اسکو متعجب منہ کہتے ہیں۔جیسے مَا أَحْسَنَ زَیْدًا۔ یہاں زَیْدًا متعجب منہ ہے ۔
٭۔۔۔۔۔۔ثلاثی مجرد کے مصادر سے اس کے دو صیغے کثیر الاستعمال ہیں ۔۱۔ مَا أَفْعَلَہٗ۔ ۲۔أَفْعِلْ بِہٖ۔
۱۔مَا أَفْعَلَہٗ جیسے مَا أَحْسَنَ زَیْدًا (زیدکیا ہی حسین ہے )۔ ماأَحْسَنَ زَیْدًا کی اصل أَیُّ شَئْیٍ أَحْسَنَ زَیْدًا ہے ۔
ترکیب :
مَاأَحْسَنَ زَیْدًا
اسکی ترکیب اس طرح ہوگی مَا بمعنی أَیُّ شَئْیٍ مبتدا أَحْسَنَ فعل ھُوَ ضمیر فاعل اور زَیْدًا مفعول ہے فعل اپنے فاعل اور مفعول بہ سے ملکر خبر مبتدا خبر سے مل کر جملہ اسمیہ انشائیہ۔
۲۔أَفْعِلْ بِہٖ جیسے أَحْسِنْ بِزَیْدٍ (زید کیا ہی حسین ہے)۔
ترکیب : أَحْسِنْ بِزَیْدٍ
أَحْسِنْ صیغہ امر بمعنی ماضی بَاء زائدہ زَیْدٍ لفظا مجرور محلا مرفوع اس کا فاعل فعل فاعل ملکر جملہ فعلیہ ۔
فعل تعجب کے چند ضروری قواعد:
٭۔۔۔۔۔۔متعجب منہ ہمیشہ معرفہ یا نکرہ مخصوصہ ہوتاہے جیسے مَاأَحْسَنَ زَیْدًا، مَاأَحْسَنَ رَجُلاً تَہَجَّدَ (وہ کیا ہی اچھا آدمی ہے جس نے تہجد پڑھی)۔ پہلی مثا ل معرفہ اور دوسری مثال نکرہ مخصوصہ کی ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔فعل تعجب اور متعجب منہ کے درمیان کسی اجنبی شے کافاصلہ نہیں ہوتا ۔ ٭۔۔۔۔۔۔متعجب منہ فعل تعجب سے پہلے نہیں آسکتا ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔اگر قرینہ پایا جائے تو متعجب منہ کو حذف کرنا جائز ہے ۔
٭۔۔۔۔۔۔ قرآن پاک میں فَعَلَ کا وزن بھی تعجب کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔