islam
حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
ان کے والد کا نام حارث بن حزن ہے اور ان کی والدہ ہند بنت عوف ہیں ۔ حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نام پہلے ”برہ ”تھا لیکن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر ”میمونہ ” (برکت دہندہ) رکھ دیا۔
یہ پہلے ابو رہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں تھیں مگر جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
۷ ھ میں عمرۃ القضاء کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو یہ بیوہ ہو چکی تھیں حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کے بارے میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے گفتگو کی اور آپ نے ان سے نکاح فرما لیا اور عمرۃ القضاء سے واپسی پر مقام ”سرف” میں ان کو اپنی صحبت سے سرفراز فرمایا۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سگی بہنیں چار ہیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱)ام الفضل لبابۃ الکبریٰ: یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہیں اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان ہی کے شکم سے پیدا ہوئے۔
(۲)لبابۃ الصغریٰ: یہ حضرت خالد بن الولید سیف اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں۔
(۳)عصماء: یہ ابی بن خلف سے بیاہی گئی تھیں۔ انہوں نے اسلا م قبول کیا اور صحابیات میں ان کا شمار ہے۔
(۴)عِزّہ:یہ بھی صحابیہ ہیں جو زیاد بن مالک کے گھر میں تھیں۔
حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ان سگی بہنوں کے علاوہ وہ بہنیں جو صرف ماں کی جانب سے ہیں وہ بھی چار ہیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱)اسماء بنت عمیس: یہ پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تھیں ان سے عبداﷲ وعون و محمد رضی اﷲ تعالیٰ عنہم تین فرزند پیدا ہوئے پھر جب حضرت جعفر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ”جنگ موتہ” میں شہید ہو گئے تو ان سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نکاح کر لیا اور ان سے محمد بن ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے عقد فرما لیا اور ان سے بھی ایک فرزند پیدا ہوئے جن کا نام ”یحیی” تھا۔
(۲)سلمیٰ بنت عمیس: یہ پہلے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اور ان سے ایک صاحبزادی پیدا ہوئیں جن کا نام ”امۃ اﷲ” تھا حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ان سے شداد بن الہاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نکاح کر لیا اور ان سے عبداﷲ و عبدالرحمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہما دو فرزند پیدا ہوئے۔
(۳)سلامہ بنت عمیس: ان کا نکاح عبداﷲ بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوا تھا۔
(۴)ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو ام المساکین کے لقب سے مشہورہیں جن کا ذکرخیر اوپر گزر چکا ہے۔
حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی والدہ ”ہند بنت عوف” کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ دامادوں کے اعتبار سے روئے زمین پر کوئی بڑھیا ان سے زیادہ خوش نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ان کے دامادوں کی فہرست میں مندرجہ ذیل ہستیاں ہیں۔
(۱) رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم (۲) حضرت ابوبکر (۳) حضرت علی(۴)حضرت حمزہ(۵) حضرت عباس(۶)حضرت شداد بن الہاد۔رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ سب کے سب بزرگوار ”ہند بنت عوف” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے داماد ہیں۔ (1)
(زرقانی جلد۳ ص۲۵۱ و مدارج جلد۲ ص۴۸۴)
حضرت بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے کل چھہتر حدیثیں مروی ہیں جن میں سے سات حدیثیں ایسی ہیں جو بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں مذکور ہیں اور ایک حدیث صرف بخاری میں ہے اور ایک ایسی حدیث ہے جو صرف مسلم میں ہے اور باقی حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔
یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آخری زو جہ مبارکہ ہیں ان کے بعد حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا ان کے انتقال کے سال میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ مگر قول مشہور یہ ہے کہ انہوں نے ۵۱ ھ میں بمقام ”سرف” وفات پائی جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے زفاف فرمایا تھا۔ ابن سعد نے واقدی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ۶۱ھ میں وفات پائی اور ابن اسحاق کا قول ہے کہ ۳ ۶ھ ان کے انتقال کا سال ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔
ان کی وفات کے وقت ان کے بھانجے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما موجود تھے اور انہوں ہی نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو قبر میں اتارا، محدث عطا ء کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے ساتھ حضرت بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے جنازہ میں شریک تھے۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے بہ آواز بلند فرمایا کہ اے لوگو! یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیوی ہیں۔ تم لوگ ان کے جنازہ کو بہت آہستہ آہستہ لے کر چلو اور ان کی مقدس لاش کو نہ جھنجھوڑو۔حضرت یزید بن اصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے حضرت بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو مقام سرف میں اسی چھپر کی جگہ میں دفن کیا جس میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو پہلی بار اپنی قربت سے سرفراز فرمایا تھا۔ (1)(زرقانی جلد۳ ص۲۵۳)