ترجمۂ کنز الایمان:کہ ان کے اونچے اونچے اس کے حضورجھکے رہ جائیں۔(پ19، الشعرآء:4)
ایک قول یہ ہے :”ان سے مراد مؤمن جنات اور انسانوں کے علاوہ ہرچیز ہے۔” اسی طرح بعض مفسرینِ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ان سے مراد ملائکہ، انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیائے عظام رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ کو قرار دیا ہے، مگر سیدنا زجاج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ملائکہ اورمؤمنین والے قول کو درست کہا ہے۔اور امام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کا جواب اس طرح دیا ہے کہ ابن ماجہ میں یہ روایت موجود ہے کہ شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، باذنِ پروردگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اَللاَّعِنُوْنَ یعنی لعنت کرنے والوں کی تفسیر زمین کے رینگنے والے جانوروں سے کی ہے۔
حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:”ان سے مراد اللہ عزوجل کے تما م بندے ہیں۔” بعض کا کہنا ہے کہ یہ آیتِ مبارکہ علم چھپانے کے کبیرہ گناہ ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ عزوجل نے اس پر لعنت کو واجب کیاہے اور پسِ پشت ڈال دینا شدید اعراض کرنے سے کنایہ ہے جبکہ ثَمَنٌ قَلِیْلٌ سے مراد وہ مال ہے جسے وہ لوگ علم میں سردارہونے کی وجہ سے اپنے ماتحتوں سے وصول کرتے تھے۔”فَبِئْسَ مَایَشْتَرُوْنَ” کامعنی ہے کہ ان کی خریداری بہت بری ہے اور اس میں ان کا نقصان بھی ہے۔
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپایا تو اللہ عزوجل قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائے گا۔”
(2)۔۔۔۔۔۔ سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو شخص کسی علم کو زبانی یاد کرے اور پھر اسے لوگوں سے چھپائے تو وہ قیامت کے دن آگ کی لگام پہن کرآئے گا۔”
(3)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس سے علم کی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپا لیا تووہ قیامت کے دن آگ کی لگام پہن کر آئے گا اور جس نے قرآن پاک میں اپنے علم کے بغیر کلام کیا وہ بھی قیامت کے دن آگ کی لگام پہن کر آئے گا۔”
(مسند ابی یعلی، مسند ابن عباس، الحدیث: ۲۵۷۸،ج۲،ص۵۰۰)
(4)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے علم چھپایا اللہ عزوجل اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائے گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المستدرک،کتاب العلم، باب من سئل عن علم ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۵۲،ج۱،ص۲۹۷)
صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت مثلا ًحضرت سیدنا جابر، حضرت سیدنا انس، حضرت سیدنا ابن عمر، حضرت سیدنا ابن مسعود، حضرت سیدنا عَمْرُو بْنُ عَنْبَسَہ اور حضرت سیدنا علی بن طلق وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے یہ حدیثِ مبارکہ مروی ہے جبکہ حضرت سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے :”جس سے علم کی ایسی بات پوچھی گئی جس کے ذریعے اللہ عزوجل لوگوں کو دینی معاملہ میں نفع پہنچاتا ہے۔”
(سنن ابن ماجہ، ابواب السنۃ ، باب من سئل من علم فکتمہ ، الحدیث:۲۶۵،ص۲۴۹۳)
(5)۔۔۔۔۔۔حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب اس اُمت کے لوگ اگلوں پر لعنت کرنے لگیں اس وقت جو ایک حدیث چھپائے تو گویا اس نے اللہ عزوجل کا نازل کردہ حکم چھپایا۔”
(سنن ابن ماجہ، ابواب الطھارۃ، باب من سئل من علم فکتمہ ، الحدیث:۲۶۳،ص۲۴۹۳)
(6)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”علم حاصل کرنے کے بعد اسے بیان نہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جوخزانہ جمع کرتاہے پھراس میں سے کچھ بھی خرچ نہیں کرتا۔”
(المعجم الاوسط،الحدیث ۶۸۹،ج۱،ص۲۰۴)
(7)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”علم کے معاملہ میں ایک دوسرے کی خیرخواہی چاہوکیونکہ تم میں سے کسی کا اپنے علم میں خیانت کرنا اپنے مال میں خیانت کرنے سے زیادہ سخت ہے اور اللہ عزوجل تم سے اس کے بارے میں ضرورپوچھ گُچھ فرمائے گا۔” (المعجم الکبیر،الحدیث۱۱۷۰۱،ج۱۱،ص۲۱۵)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(8)۔۔۔۔۔۔ایک دن دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے خطبہ ارشا د فرمایا اور مسلمانوں کے کچھ گروہوں کی تعریف فرمائی، پھر ارشاد فرمایا :”ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اپنے پڑوسیوں کو نہیں سمجھاتے نہ سکھاتے ، نہ نیکی کی دعوت دیتے اور نہ ہی برائی سے منع کرتے ہیں، اور ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اپنے پڑوسیوں سے نہیں سیکھتے، نہ ان سے سمجھتے اور نہ ہی نصیحت طلب کرتے ہیں، اللہ عزوجل کی قسم! چاہے کہ ایک قوم اپنے پڑوسیوں کو ضرور دین سکھائے ، سمجھائے، نصیحت کرے اور نیکی کی دعوت دے، اسی طرح دوسری قوم کو چاہے کہ اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھے، سمجھے اور نصیحت حاصل کرے ورنہ جلد ہی انہیں اس کا انجام بھگتنا پڑے گا۔”
پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم منبر شریف سے نیچے تشریف لے آئے، تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے (ايک دوسرے سے) استفسار فرمايا کہ ”آپ کے خیال میں رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ان لوگوں سے کون سے لوگ مرادلئے ہیں؟” تو دوسروں نے انہیں بتایا :”ان سے مراد اَشعری قبیلہ والے ہیں کیونکہ وہ فقہاء کی قوم ہے اور ان کے پڑوسی جفاکار اعرابی ہیں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جب یہ بات اشعریوں تک پہنچی تو وہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضرہوئے اور عرض کی: ”یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ایک قوم کی بھلائی اور ایک کی برائی کا ذکر فرمایا، ہم ان میں سے کس میں ہیں؟” توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”چاہے کہ ایک قوم اپنے پڑوسیوں کو ضرور دین سکھائے، انہیں سمجھائے، نصیحت کرے، نیکی کی دعوت دے اور برائی سے منع کرے، اسی طرح دوسری قوم کو چاہے کہ اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھے، سمجھے اور ان سے نصیحت طلب کرے ورنہ جلد دنیا میں ہی اس کا انجام بھگتے گی۔” انہوں نے دوبارہ عرض کی ”یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم! کیا ہم دوسرے لوگوں کو نصیحت کریں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے یہی بات دہرائی، انہوں نے پھر یہی عرض کی ”کیا ہم دوسروں کونصیحت کریں۔” تو شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”ہاں ایسا ہی ہے۔” انہوں نے پھر عرض کی ”ہمیں ایک سال کی مہلت دیجئے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے انہیں ایک سال کی مہلت عطا فرما دی تا کہ یہ لوگوں کو دین سکھائیں اور نصیحت کریں، پھرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:
ترجمۂ کنز الایمان:لعنت کئے گئے وہ جنہوں نے کفرکیا بنی اسرائیل میں داؤد اورعیسٰی بن مریم کی زبان پریہ بدلہ ان کی نافرمانی اورسرکشی کا۔(پ6، المآئدۃ:78)
(مجمع الزوائد،کتاب العلم ،باب فی تعلیم من لایعلم ، الحدیث۷۴۸،ج۱،ص۴۰۲،انغظ بدلہ”انفطن” )
تنبیہ:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بہت سے متأخرین علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کے کبیرہ گناہ ہونے کی صراحت کی ہے اس لئے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا شاید کہ ان کے پیش نظر بھی میری بیان کردہ سخت وعید پرمبنی روایات ہی ہیں حالانکہ یہ وعید مطلق نہیں کیونکہ علم چھپانا کبھی واجب ہوتا ہے، کبھی اس کا اظہار واجب ہوتاہے اور کبھی مستحب، مثلاً طالبِ علم کی عقل جس بات کی متحمل نہ ہو اور کسی عالم کو اس بات کا خوف ہو کہ اگر اسے یہ بات بتائی گئی تو یہ فتنہ میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسی صورت میں علم چھپانا واجب ہے اور بصورت دیگر یعنی اس کے علاوہ دوسرے افراد ہوں تو اب اگر وہ بات فرضِ عین ہو یا اس کے حکم کا تعلق ان سے ہو تو اس کو ظاہرکرنا واجب ہے وگرنہ اس کا اظہار مستحب ہے جب تک کہ اس کا حصول کسی ناجائز ذریعہ سے نہ ہو۔
حاصل کلام یہ ہے کہ علم سکھانا چونکہ علم کا وسیلہ ہے پس واجب کے معاملہ میں علم کا اظہار واجب، فرضِ عین کے معاملہ میں فرضِ عین، فرضِ کفایہ کا علم سکھا نا فرضِ کفایہ، مستحب کا علم سکھانا مستحب ہے جیسے عروض وغیرہ کا علم اور اسی طرح حرام چیز کا علم سکھانا بھی حرام ہے جیسے جادو اور شعبدہ بازی وغیرہ۔
بعض مفسرینِ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :”کافر کو قرآن پاک سکھانا جائز نہیں اور نہ ہی کوئی دینی علم سکھانا جائزہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائے، اسی طرح اہلِ حق سے مناظرہ کرنے کے لئے بدعتی کو مناظرہ یا دلائل سکھانا بھی جائز نہیں، نہ ہی فریقین میں سے ایک کو دوسرے کا مال دبا لینے کے لئے حیلہ سکھانا جائز ہے اوراسی طرح جاہلوں کوگناہوں کے ارتکاب اور واجبات چھوڑنے کے طریقوں میں رخصتیں بیان کرنا بھی جائزنہيں۔
(9)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”حق داروں سے علم روک کر ان پرظلم نہ کرو اور نااہلوں کو حکمت سکھا کر ان پر ظلم نہ کرو۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی،سورۃ البقرۃ،تحت الآیۃ:۱۵۹،ج۱، ص۱۴۱)
(10)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”خنزیروں کے گلے میں موتیوں کے ہار نہ ڈالو۔” یعنی نااہلوں کوفقہ نہ سکھاؤ۔
(تاریخ بغداد،الحدیث۴۹۰۷،ج۹،ص۳۵۶ )
(علامہ ابن حجرہیتمی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں)کافرکے بارے میں جواحکام مذکورہوئے وہ ہمارے قواعد کے مطابق درست نہیں کیونکہ جس کافرکے اسلا م لانے کی اُمید ہو اسے ہمارے نزدیک قرآن سکھانا جائز ہے لہٰذا علم سکھانا بدرجۂ اَوْلیٰ جائز ہے۔
(11)۔۔۔۔۔۔ مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور نااہل کو علم سکھانے والا خنزیر کے گلے میں جواہرات، موتیوں اور سونے کا ہار پہنانے والے کی طرح ہے۔”
(سنن ابن ماجہ،ابواب السنۃ ، باب فضل العلماء۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث:۲۲۴،ص۲۴۹۱)