Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

ودیعت کا بیان

باب الوديعۃ
ودیعت کا بیان 
کبيرہ نمبر238:     ود یعت (امانت) میں خیانت کرنا
کبيرہ نمبر239:     رہن رکھی ہوئی چیز میں خیانت کرنا
کبيرہ نمبر240:     کرائے پرلی ہوئی چيزميں خيانت کرنا
    اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُکُمْ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا
ترجمۂ کنز الايمان: بے شک اللہ تمہيں حکم دیتاہے کہ امانتيں جن کی ہيں انہيں سپرد کرو۔(پ5، النساء:58)
(1)۔۔۔۔۔۔يہ آيت مبارکہ حضرت سیدنا عثمان بن طلحہ حجبی داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق ميں نازل ہوئی، وہ فتح مکہ کے دن خانہ کعبہ کے خادم تھے، جب نبی کريم،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم خانہ کعبہ شریف ميں داخل ہونے لگے تو انہوں نے کعبہ کا دروازہ بند کر ديا اور یہ گمان کرتے ہوئے چابی دينے سے انکار کر ديا اگر وہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کو اللہ عزوجل کا رسول مانتے تو ہر گز انکار نہ کرتے حضرت سيدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اُن کے ہاتھ کو مروڑا (یعنی بل ديا) اور ان سے چابی لے لی اور کعبہ کا دروازہ کھول ديا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کعبہ شريف ميں داخل ہوئے اور اس ميں نماز پڑھی، پھر جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم باہر تشريف لائے تو حضرت سيدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”چابی مجھے عنايت فرمایئے تا کہ ميں کعبہ شریف کی خدمت اور اس ميں حاجيوں کوپانی پلانے کی ذمہ داری لے لوں۔ تو اللہ عزوجل نے يہ آيت مبارکہ نازل فرمائی۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    پس رسول اکرم، شفيع مُعظَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے حضرت سيدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو حضرت سيدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چابی واپس دينے اور اُن سے معذرت کرنے کا حکم ديا، اس پرحضرت سیدناعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:”پہلے تم نے نفرت دلائی، ايذاء پہنچائی اور اب نرمی کرنے لگے ہو۔” تو حضرت سيدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے  ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل نے تیرے بارے ميں قرآنِ کریم کی آیت مبارکہ نازل فرمائی ہے۔” پھر انہيں يہ آيت مبارکہ سنائی تو وہ مسلمان ہو گئے،اور چابی انہيں کے پاس رہی جب ان کے انتقال کا وقت ہوا تو انہوں نے وہ چابی اپنے بھائی شيبہ کے حوالے کر دی اور اب قيامت تک کعبہ کی خدمت انہيں کی اولاد ميں رہے گی، کيونکہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے انہيں چابی عطا فرماتے ہوئے ارشاد فرمايا تھا:”اسے ہميشہ کے لئے لے لو تم سے يہ چابی ظالم کے علاوہ کوئی نہيں چھين سکتا۔”
     (المعجم الاوسط ، الحدیث: ۴۸۸ ، ج۱ ، ص ۱۵۱)
    اور ايک قول يہ ہے :”اس آیتِ کریمہ ميں تمام امانتيں مراد ہيں۔”حافظ ابو نُعَيم”حِلْيَۃُ الْاَوْلِیَاء” ميں فرماتے ہيں : ”جن علماء نے ارشاد فرمایا ہے کہ يہ آيت مبارکہ ہر قسم کی امانتوں کو عام ہے ان ميں حضرت سيدنا براء بن عازب، عبداللہ بن مسعود اور اُبی ّ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی شامل ہيں، یہ سب فرماتے ہيں:”وضو، جنابت، نماز، زکوٰۃ، روزہ، ناپ تول اور وديعت ہر چيز ميں امانت ہے۔”
    حضرت سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہيں :اللہ عزوجل نے تنگدست يا فراخ دست کسی کو بھی امانت روک لينے کی رخصت نہيں دی۔”
    حضرت سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہيں:اللہ عزوجل نے انسان کی شرمگاہ کو پيدا کياتو فرمايا:”يہ ايک امانت ہے جو ميں نے تيرے سپرد کی ہے، اسے حق کے علاوہ قابو ميں رکھ۔”
٭۔۔۔۔۔۔کسی کا قول ہے :”انسان کا معاملہ یا تو اپنے رب عزوجل کے ساتھ یہ ہے کہ وہ مامورات پر عمل کرے اور منہیات سے اجتناب کرے، کیونکہ انسان کا ہر عضو اللہ عزوجل کی امانت ہے، زبان ميں امانت يہ ہے کہ انسان اسے جھوٹ، غيبت، چغلی، بدعت اور بدکلامی ميں استعمال نہ کرے، آنکھ ميں امانت يہ ہے کہ اسے حرام اشياء ديکھنے ميں استعمال نہ کرے، کانوں ميں امانت يہ ہے کہ انہيں حرام سننے کے لئے استعمال نہ کرے، اسی طرح ديگر اعضاء ہيں۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

٭۔۔۔۔۔۔یا پھر انسان کا معاملہ لوگوں کے ساتھ یہ ہے کہ وہ ان کی امانتيں لوٹائے اور ناپ تول وغيرہ ميں کمی نہ کرے،
٭۔۔۔۔۔۔ اور اُمراء رعايا کے ساتھ عدل کریں،
٭۔۔۔۔۔۔علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا عوام کے ساتھ معاملہ يوں ہے کہ وہ انہيں اطاعت، اخلاقِ حسنہ اور اعتقاداتِ صحيحہ کی ترغيب ديں اور نافرمانی اور ديگر برائيوں جيسے تعصبات باطلہ سے روکيں،
٭۔۔۔۔۔۔عورت اپنے شوہر کے مال اوراس کی آبرو ميں خيانت نہ کرے،
٭۔۔۔۔۔۔غلام اپنے آقا کی خدمت ميں کوتاہی نہ کرے اور نہ اس کے مال ميں خيانت کرے،
(2)۔۔۔۔۔۔بے شک اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے اس فرمانِ عالیشان ميں اس بات کی طرف اشارہ فرمايا کہ”تم ميں سے ہر ايک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے ميں پوچھا جائے گا۔”
   ( صحیح البخاری ،کتاب الجمعۃ ، باب الجمعۃ فی القری المدن، الحدیث:۸۹۳، ص ۷۰)
٭۔۔۔۔۔۔نفس کی امانت يہ ہے کہ اس کے لئے اسی چيز کو اختيار کرے جودين ودنيا ميں اس کے لئے نفع بخش اور بہتر ہو اور يہ کہ اس کی خواہشات اور ارادوں کی مخالفت ميں کوشش کرے کيونکہ يہ اپنے پيروکار کے لئے دنيا و آخرت ميں زہر قاتل ہيں۔
(3)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ايسے خطبے بہت کم دئيے جن ميں يہ بات ارشاد نہ فرمائی ہو :”جو امانتدار نہيں اس کا کوئی ايمان نہيں اور جس کا عہد نہيں اس کا کوئی دين نہيں۔”
 ( المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند انس بن مالک بن النضر،الحدیث:۱۲۳۸۶ج ۴،ص۲۷۱)
 (4)۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل کافرمانِ عالیشان ہے کہ،
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللہَ وَالرَّسُوۡلَ وَتَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿27﴾
ترجمۂ کنز الايمان:اے ايمان والو اللہ اور رسول سے دغا نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں ميں دانستہ خيانت۔(پ9،الانفال:27)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    يہ آيت مبارکہ حضرت سیدنا ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے ميں نازل ہوئی، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بنو قريظہ کے محاصرے کے وقت انہيں بنو قريظہ کی طرف بھيجا کيوں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہل وعیال یہودیوں کے قبیلے میں رہتے تھے اس لئے وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ميلان رکھتے تھے، یہودیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا:”اگر ہم محمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کے حکم کے مطابق نيچے اتر آئيں تو تمہارے خيال ميں ہمارے ساتھ کيا معاملہ ہو گا؟” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ سے گردن کی طرف اشارہ کيا کہ تمہيں قتل کر ديا جائے گا لہذا ايسا مت کرنا، يہ بات اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے خيانت تھی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں :”ميرے قدم اپنے مقام سے ہٹے بھی نہ تھے کہ ميں سمجھ گیاکہ ميں اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے خيانت کا مرتکب ہو چکا ہوں۔” پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد ميں حاضر ہوئے اور اپنے آپ کو باندھ ديا اور قسم اٹھائی کہ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے علاوہ مجھے کوئی نہ کھولے گا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی طرح بندھے رہے يہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ان کی توبہ کی قبولیت کا فرمان نازل فرمايا تو خاتَمُ الْمُرْسَلِین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلَمین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے دستِ مبارک سے انہيں رسيوں سے کھول کر آزاد فرمايا۔
    حضرت سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہيں:”امانات سے مراد وہ اعمال ہيں جن پر اللہ عزوجل نے بندوں کو امین مقرر کيا ہے۔” اوردیگرکا قول ہے :” اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے خيانت کرنے سے مراد ان دونوں کی نافرمانی ہے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    جہاں تک امانتوں ميں خيانت کرنے کامعاملہ ہے توہرايک اللہ عزوجل کے احکامات پرامين ہے اور اللہ عزوجل اسے اپنی بارگاہ ميں اس طرح کھڑاکریگاکہ اللہ عزوجل اور بندے کے درميان کوئی ترجمان نہ ہوگا،پھراس بندے سے اس کے بارے ميں پوچھے گا کہ اس نے ان احکام ميں اللہ عزوجل کی امانت کی حفاظت کی يا انہيں ضائع کر ديا؟ لہذا انسان کو چاہے کہ وہ اللہ عزوجل کے سوالات کے جوابات تيار کرے کيونکہ جب اللہ عزوجل ان احکام کے بارے ميں پوچھے گا تو اس دن اس کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہ ہو گی،پس اسے چاہے کہ اللہ عزوجل کے اس فرمانِ عالیشان ميں غور کرے کہ،
وَ اَنَّ اللہَ لَا یَہۡدِیۡ کَیۡدَ الْخَآئِنِیۡنَ ﴿52﴾
ترجمۂ کنزالايمان:اوراللہ دغا بازوں کا مکر نہيں چلنے ديتا۔(پ12،يوسف:52)
    یعنی امانت میں خیانت کرنے والے کاکوئی حیلہ اسے ہدایت کے مقام پرفائزنہیں کرسکتا بلکہ اسے دنیا میں بھی راہِ ہدایت سے محروم کردیتا ہے اور آخرت میں بھی ساری انسانیت کے سامنے رسوا کرے گا، خیانت اگرچہ ہر چیزمیں قبیح ہے لیکن بعض چیزوں میں دوسری چیزوں کے مقابلے میں زیادہ قبیح ہے، کیونکہ جو شخص روپے پیسے کے معاملے میں تجھ سے خیانت کرے وہ اس شخص کی مثل نہیں ہو سکتا جوتيرے اہل وعیال کے معاملے میں خیانت کا مرتکب ہو، نیز اللہ عزوجل نے امانت کے معاملے کو انتہائی عظمت دی اور اس کی تاکید بیان کی ،پس ارشادفرمایا:


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ72﴾
ترجمۂ کنزالایمان:بے شک ہم نے اما نت پیش فرما ئی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھا نے سے انکا ر کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھا لی،بے شک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔(پ22، الاحزاب:72)
(5)۔۔۔۔۔۔منقول ہے :”اللہ عزوجل نے اس دنيا کو ايک باغ کی طرح پيدا کيا پھر اسے 5چيزوں:علماء کے علم،حکمرانوں کے عدل،صالحين کی عبادت،مشورہ دينے والے کی خيرخواہی،اورامانت کی ادائيگی سے مزین فرمایا، تو ابليس ملعون نے علم کے ساتھ چھپانے، عدل کے ساتھ ظلم، عبادت کے ساتھ ريا کاری، خير خواہی کے ساتھ بدديانتی اور امانت کے ساتھ خيانت کو ملا ديا۔”
(6)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المُبلِّغین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”مؤمن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹااور خائن (یعنی خیانت کرنے والا )نہیں ہوسکتا۔”
(جامع الاحادیث ، قسم الاقوال ، باب الاکمال من الجامع الکبیر، الحدیث: ۲۸۵۸۵،ج۹ ، ص ۳۰۱)
(7)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”سب سے پہلے لوگوں سے امانت اٹھائی جائے گی،آخرمیں نماز باقی رہ جائے گی اور بہت سے نمازی ايسے ہوں گے جن ميں کوئی بھلائی نہ ہو گی۔”
( مجمع الزوائد ،کتاب الفتن ، باب رفع الامانۃ والحیاء ، الحدیث: ۱۲۴۲۷ ، ج ۷ ، ص ۶۲۲)
(8)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق وامین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جہنميوں ميں ايسے شخص کو بھی شمار فرمايا جس کی خواہش اور طمع اگرچہ کم ہی ہو مگر وہ اسے خيانت کا مرتکب کر دے۔
( صحیح مسلم ،کتاب الجنۃ ، باب الصفات التی یعرف بھا فی الدنیا ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۷۲۰۷، ج۱۱۷۴)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(9)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دِلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”تم ميری 6باتيں قبول کر لو ميں تمہارے لئے جنت قبول کر لوں گا: (۱)جب تم کوئی بات کرو توجھوٹ نہ بولو (۲)جب وعدہ کرو تواس کی خلاف ورزی نہ کرو (۳)جب امانت رکھی جائے تو اس ميں خيانت نہ کرو(۴)اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھو (۵)اپنے ہاتھوں کو (حرام سے )روکے رکھواور (۶)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔”
(شعب الایمان ، باب فی الایفاء بالعقود ،الحدیث: ۴۳۵۵ ،ج۴، ص ۷۸)
(10)۔۔۔۔۔۔ایک اور روایت میں ہے کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”تم مجھے 6 چيزوں کی ضمانت دے دو ميں تمہيں جنت کی ضمانت ديتا ہوں: (۱)جب بات کرو توسچ بولو (۲)جب وعدہ کرو توپورا کرو (۳) جب امین بنائے جاؤتوامانت اداکرو(۴)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو(۵)اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھو اور (۶)اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔”
 ( المسند للاما م احمد بن حنبل ،حدیث عبادہ بن الصامت، الحدیث: ۲۲۸۲۱، ج۸، ص ۴۱۲)
(11)۔۔۔۔۔۔ ایک روایت میں ہے کہ مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”تم مجھے6چيزوں کی ضمانت دے دو ميں تمہيں جنت کی ضمانت ديتا ہوں: (۱)نماز(۲)زکوٰۃ(۳)امانت (۴)شرمگاہ(۵)پيٹ اور (۶)زبان۔”
       ( المعجم الاوسط ، الحدیث: ۴۹۲۵ ، ج ۳ ، ص۳۹۶)
(12)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا حذيفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”امانتداری لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اُتری، پھر قرآنِ حکیم نازل ہوا تو انہوں نے قرآن پاک سيکھا اور سنت سيکھی۔” پھرسرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہميں امانت اٹھنے کے بارے ميں بتايا اورارشاد فرمايا: ”آدمی سوئے گا تو امانت اس کے دل سے کھينچ لی جائے گی اور اس کا نشان ايسا رہ جائے گا جيسے پھنسی کے دھبے جب وہ اچھی ہو جاتی ہے اور پھر آدمی سوئے گا تو امانت اس کے دل سے کھينچ لی جائے گی اور اس کا نشان آبلے کے نشان کی طرح رہ جائے گاجیسے تُو کوئی انگارہ اپنے پاؤں پر رکھے تو جِلد پھول جائے اور تُو اُسے آبلے کی صورت میں پائے حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا ۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

( صحیح مسلم ،کتاب الایمان ، باب رفع الامانۃ والایمان۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۳۶۷ ، ص ۷۰۲)
(13)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہميں بتايا:”جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ايمان نہيں اور جس کا و ُضُونہیں اس کی کوئی نماز نہيں۔”
     ( المعجم الاوسط ، الحدیث: ۲۲۹۲ ، ج۱ ، ص ۶۲۶)
(14)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا علی المرتضیٰ کَرَّ مَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہيں :”ہم سرکارِ مدینہ،راحت قلب وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ ميں حاضر تھے کہ مدینے کے بالائی حصّے کی بستی کے ايک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مجھے اس دين کی سب سے مشکل اور سب سے آسان چيز کے بارے ميں بتایئے؟” تو نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اس کی آسان ترین چیز یہ ہے کہ ،اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ عزوجل کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) اللہ عزوجل کے بندے اور رسول ہيں،اور اے بالائی بستی والے ! اس کی مشکل ترین چیز امانت ہے، بے شک جو امانت ادا نہيں کرتا اس کا نہ کوئی دين ہے، نہ نماز اور نہ ہی زکوٰۃ۔” ( البحر الزخار بمسند البزار ،مسندعلی بن ابی طالب،الحدیث: ۸۱۹،ج۳ ، ص ۶۱)
(15)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”تم ميں سب سے بہتر ميرا زمانہ ہے، پھر وہ لوگ جو ا ن سے ملے ہوں گے، پھر وہ جو ان سے ملے ہوں گے، پھر ان کے بعد ايسے لوگ آئيں گے جو گواہی ديں گے تو ان کی گواہی قبول نہ کی جائے گی، خيانت کريں گے اور امانت دار نہيں ہوں گے، نذريں مانيں گے اورپوری نہيں کريں گے اور ان ميں موٹاپا ظاہر ہو گا۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 ( صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابۃ ، باب فضل الصحابہ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۶۴۷۵، ص ۱۱۲۲)
(16)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”منافق کی 3علامتيں ہيں: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور (۳)جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس ميں خيانت کرے۔”
(17)۔۔۔۔۔۔مسلم شريف کی روايت ميں يہ الفاظ زائد ہیں:”اگرچہ روزے رکھتا ہو، نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو ۔”
(صحیح مسلم ،کتاب الایمان ، باب خصال المنافق ، الحدیث: ۲۱۴ ، ص۶۹۰)
(18)۔۔۔۔۔۔حضورنبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”4خصلتيں ايسی ہيں جس ميں ہوں گی وہ پکا منافق ہو گا اور جس ميں ان ميں سے کوئی ايک خصلت ہو گی تو اس ميں منافقت کی بھی ايک خصلت ہو گی يہاں تک کہ اسے چھوڑ دے: (۱)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خيانت کرے (۲)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳)جب عہد کرے تو بد ديانتی کرے اور (۴)جب جھگڑا کرے تو گالياں دے۔”
 (صحیح البخاری ،کتاب الایمان ، باب علامات المنافق ، الحدیث: ۳۴، ص۵ )


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(19)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دعا مانگا کرتے تھے : ”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُوْعِ فَاِنَّہ، بِئْسَ الضَّجِیْع وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَاِنَّھَابِئْسَتِ الْبطَانَۃ” یعنی اے اللہ عزوجل! ميں بھوک سے تيری پناہ چاہتا ہوں کيونکہ يہ بہت بُرا دوست ہے اور خيانت سے پناہ چاہتا ہوں کيونکہ يہ بہت بری چھپی ہوئی خصلت ہے۔”
( سنن ابی داؤد ،کتاب الوتر، باب الاستعاذۃ ،الحدیث: ۱۵۴۷، ص۱۳۳۷)
(20)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ سرکار ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جب بھی ہميں خطبہ ديا يہ بات ضرور ارشاد فرمائی :”جو امانتدار نہيں اس کا کوئی ايمان نہيں اور جو وعدہ پورا نہيں کرتا اس کا کوئی دين نہيں۔”
( المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند انس بن مالک بن النضر ، الحدیث: ۱۲۳۸۶،ج۴،ص ۲۷۱)
(21)۔۔۔۔۔۔شاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:”ميری اُمت جب 15خصلتيں اپنا لے گی تو اس پر آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوں گی۔” عرض کی گئی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! وہ 15برائیاں کون سی ہيں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”(۱)جب غنيمت کا مال دولت سمجھا جائے (۲)امانت کو غنيمت اور (۳) زکوٰۃ کو قرض سمجھا جانے لگے (۴)شوہر اپنی بيوی کی اطاعت کرے اور (۵)اپنی ماں کی نافرمانی کرے (۶)اپنے دوست سے اچھا سلوک کرے اور (۷)اپنے باپ پر ظلم کرے (۸)مسجدوں ميں آوازيں بلند ہونے لگيں(۹)قوم کا ذليل ترين شخص اس کا سردار بن جائے (۱۰)آدمی کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لئے کی جائے (۱۱)شراب نوشی کی جائے (۱۲)جھوٹی گواہی دی جائے (۱۳)ريشم پہنا جائے(۱۴)گانے والی عورتیں اور آلات موسیقی رکھے جائیں اور (۱۵)اس اُمت کے پچھلے (بدبخت) لوگ اگلے(نیک)لوگوں پر لعنت بھيجيں تو اس وقت سرخ آندھی، زمين ميں دھنسنے ياچہرے بدلنے کا انتظار کريں۔”
( جامع الترمذی ،ابواب الفتن ، باب ماجاء فی علامۃ حلول ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث:۲۲۱۰،ص ۱۸۷۴،بدون” وشہد بالزور ”)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(22)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے:”تو اس وقت ميری اُمت آندھی، شکليں بگڑ جانے، زمين ميں دھنس جانے، قذف (یعنی پتھروں کی بارش)اور ايسی نشانيوں کا انتظار کرے، گويا ايک ہارہے جس کا دھاگاکاٹ دياگيا ہے اوراس کے موتی ايک ايک کرکے مسلسل گررہے ہيں ۔”
     ( المرجع السابق، الحدیث:۲۲۱۱ ، ص ۱۸۷۴)
(23)۔۔۔۔۔۔رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے:”3چيزيں عرش سے معلق ہيں:(۱)رشتہ داری کہتی ہے: ”اے اللہ عزوجل !ميں تيری وجہ ہی سے ہوں لہذا مجھے نہ توڑا جائے۔” (۲)امانت کہتی ہے:”يا اللہ عزوجل! ميں تيری وجہ سے ہی ہوں لہذا مجھ ميں خيانت نہ کی جائے۔” اور (۳)نعمت کہتی ہے:” يا الٰہی عزوجل! ميں تيری طرف سے ہوں لہذا ميری ناشکری نہ کی جائے۔”      (البحرالزخاربمسند البزار،مسند ثوبان،الحدیث:۴۱۸۱،ج۱۰،ص۱۱۷)
(24)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں :”راہِ خدا عزوجل ميں شہيدہوناامانت(میں خیانت )کے علاوہ تمام گناہوں کو مٹا ديتا ہے۔مزيد فرماتے ہيں :”قيامت کے دن ايک بندے کو لايا جائے گا اگرچہ اسے راہِ خدا عزوجل ميں شہيد کر ديا گيا ہو، پھر اس سے کہا جائے گا:”امانت ادا کرو۔” وہ عرض کریگا:”اے ميرے رب عزوجل! کيسے ادا کروں دنيا تو ختم ہو گئی۔” تو کہا جائے گا:”اسے ھَاوِيَۃ کی طرف لے جاؤ۔” تو امانت اس کے سامنے اس ہيئت ميں آ جائے گی جس ميں اس کے سپرد کی گئی تھی، وہ اسے ديکھ کر پہچان لے گا تو اسے پانے کے لئے اس کے پیچھے جائے گا، اور پھر اسے اپنے کندھے پر اٹھا لے گا، جب اسے يہ گمان ہو گا کہ وہ جہنم سے نکل آيا ہے تو وہ امانت اس کے کندھے سے پھسل کر پھر جہنم ميں جا گرے گی، اور وہ ہمیشہ اس کے پیچھے جاتارہے گا۔” پھر فرمايا:”نما ز امانت ہے، وضو امانت ہے، اور ناپ تول امانت ہے ۔” اور بہت سی چيزوں کو شمار کر کے فرمايا:”ان سب ميں سخت تر وہ اشياء ہيں جو تمہارے پاس حفاظت کے لئے رکھی جاتی ہيں۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    حضرت سيدنا زاذان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہيں :”ميں نے حضرت سيدنا زيد بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر ان سے کہا:”کيا آپ نہيں ديکھتے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کيا فرمارہے ہيں؟ انہوں نے ايسا ايسا کہا ہے۔” تو حضرت سيدنا زيد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:”انہوں نے سچ کہا ہے، کيا تم نے اللہ عزوجل کا يہ فرمان نہيں سنا؟
اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُکُمْ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا
ترجمۂ کنز الايمان:بے شک اللہ تمہيں حکم دیتاہے کہ امانتيں جن کی ہيں انہيں سپرد کرو۔ (پ5، النساء:58)
(شعب الایمان،باب فی الامانات ووجوب…الخ،الحدیث:۵۲۶۶،ج۴،ص۳۲۳”زیدبن عامر”بدلہ”براء بن عازب”)

تنبیہ:

    اس گناہ کو بہت سے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا ہے اور يہ مذکورہ آیاتِ مبارکہ ا ور احادیثِ مبارکہ سے بالکل ظاہر ہے۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!