Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

انوارِ ساطعہ کا تاریخی پس منظر

انوارِ ساطعہ کا تاریخی پس منظر

میلاد النبی اور فاتحۂ مروجہ کی اصل حدیثِ نبوی سے
ثابت ہے، اسی لیے یہ ہمیشہ سے علما و مشائخ ملت اور اکابر امت کا معمول رہا ہے۔
محفل میلاد النبی کی اصل یہ ہے کہ سرورِ کائنات، فخر موجودات، سید الانبیا کی
ولادتِ طیبہ اور سیرتِ طیبہ کو بیان کیا جائے۔ جامع ترمذی جو صحاح ستہ میں سے
مشہور اور معتمد کتاب ہے، اس میں ایک باب ہے:
باب ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(ان احادیث کا بیان جو
نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادتِ طیبہ کے بارے میں آئی ہیں۔)  اس باب میں ایک حدیث صحابیِ رسول حضرت قیس بن
مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  :
قَالَ : وُلِدَتُّ أنا و رسولُ اللّٰہِ عَامَ الفِیلِ۔
قال: وسأل عثمانُ بنُ عفّان قباثَ بنَ أَشْیمَ أخَا بني یَعْمر بن لیث :أنت أکبرُ
أم رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ فقال: رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم أکبَرُ مِنِّی،  وأنا أقدم منہ فی المیلاد
۔(۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)       جامع ترمذی، ج: ۲؍ ص: ۲۰۲،
مطبوعہ مجلس برکات، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور،
۱۴۲۳ھ/ ۔۔۔۔۲۰۰۲ء۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھوں نے کہا:میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس
سال پیدا ہوئے جس میں اصحابِ فیل کا واقعہ پیش آیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ نے قباث بن اشیم صحابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم بڑے ہو یا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم؟ تو انھوں نے کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے
بڑے ہیں، اور میں پیدائش میں ان سے پہلے ہوں۔
اس حدیث کی روشنی میں جہاں یہ ثابت ہوا کہ سرکار اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ کا بیان نہ صرف جائز بلکہ صحابہ کا طریقہ ہے، وہیں
یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ذکر نہایت تعظیم و ادب سے
کرنا چاہیے، جس میں توہین و تنقیص کا ادنیٰ شائبہ بھی نہ ہو، کیوں کہ حضرت عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کے سوال کا مقصد یہی تھا کہ اے قباث بن اشیم ! عمر میں آپ بڑے ہیں
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں ؟ جس کا سیدھا سا جواب یہ تھا کہ ’’میں بڑا
ہوں ‘‘۔ مگر اس میں بہ ظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ہونے کی بات تھی
تو صحابیِ رسول کو یہ بھی گوارا نہ ہوا اس لیے تعبیر بدل کر ایسا جواب دیا کہ ظاہر
کے اعتبار سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ہونے کا شائبہ نہ ہو اور فرمایا
کہ ولادت میں میں ان سے مقدم اور پہلے ہوں۔ اسی طرح قرآن کریم کی آیت ’
قَدْ جَاءَ
کُمْ مِنَ اللّٰہِ نُوْرٌ
‘ ( یقیناً تمہارے پاس اللہ کی جانب سے ایک نور آ گیا)
 اور آیت کریمہ 
وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ
اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِین
میں سرکار کی آمد کا ذکر ہے۔
اسی بنا پر سلفِ صالحین، علمائے دین، مشائخ طریقت اور اساطین
امت محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کرتے رہے اور اس میں برابر شرکت
کرتے رہے،حد یہ ہے کہ امام ابو شامہ استاذ امام نووی، امام ابن جزری، حافظ عماد
الدین بن کثیر، حافظ زین الدین عراقی، امام ابن حجر عسقلانی، حافظ جلال الدین سیوطی،علامہ
شہاب الدین قسطلانی، علامی عبد الباقی زرقانی مالکی،علامہ ملا علی قاری حنفی،شیخ
عبد الحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی وغیرہ بے شمار اساطینِ امت بلا نکیر
محفل میں شریک ہوتے رہے، بلکہ بہت سے علمائے کرام نے محفل میلاد کے لیے مستقل کتابیں
لکھیں۔صاحبِ انوار ساطعہ نے نورِ سوم کے لمعہ تاسعہ میں ان علما و محدثین اور مشائخ
طریقت کی ایک لمبی فہرست پیش کی ہے۔ اسی طرح فاتحہ اور ایصالِ ثواب بھی پوری امت
مسلمہ میں رائج تھا۔
یہی حالات تھے کہ مغلیہ حکومت کے زوال کے تقریباً بیس
سال بعد سہارن پور اور اس کے اطراف کے چند اسلاف بیزار مولویوں نے اس عملِ خیر اور
مجلسِ خیر کے خلاف آواز اٹھائی اور دہلی کے غیر مقلد وہابی علما سے یہ سوال کیا:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس
مسئلہ میں کہ مولود خوانی و مدحت حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ہیئت
سے کہ جس مجلس میں امردانِ خوش الحان گانے والے ہوں، اور زیب و زینت و شیرینی و روشنی
ہائے کثیرہ ہو اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب و حاضر ہوں، جائز ہے یا
نہیں ؟ اور قیام وقتِ ذکرِ ولادت جائز ہے یا نہیں ؟ اور حاضر ہونا مفتیان کا ایسی
مجلس میں جائز ہے یا نہیں ؟ اور نیز بروز عیدین پنج شنبہ وغیرہ کے آب و طعام سامنے
رکھ کر اس پر فاتحہ وغیرہ ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اور اس کا ثواب اموات کو پہنچانا
جائز ہے یا نہیں ؟ اور نیز بروز سوم میت کے لوگوں کو جمع کر کے قرآن خوانی اور بھونے
ہوئے چنوں پر کلمۂ طیبہ مع پنج آیت پڑھنا اور شیرینی وغیرہ تقسیم کرنا بحدیث نبوی
جائز ہے یا نہیں ؟ بَیِّنُوا تُوجَروا۔
اس سوال نامہ کا جواب ان کی طرف سے یہ دیا گیا  :
انعقادِ محفل میلاد اور قیام وقت ذکر پیدائش آں حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کے قرونِ ثلاثہ سے ثابت نہیں ہوا۔پس یہ بدعت ہے۔ اور علی ہذا
القیاس بروز عیدین و غیر عیدین و پنج شنبہ وغیرہ میں فاتحۂ مرسومہ ہاتھ اٹھا کر پایا
نہیں گیا البتہ نیابۃً عن ا  لمیت بغیر تخصیص
ان امور مرقومۂ سوال کے للہ مساکین و فقرا کو دے کر ثواب پہنچانا اور دعا اور استغفار
کرنے میں امید منفعت ہے۔ اور ایسا ہی حال سوئم، دہم، چہلم وغیرہ، اور پنج آیت اور چنوں
اور شیرینی وغیرہ کا عدم ثبوت حدیث اور کتب دینیہ سے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بدعاتِ
مخترعات ناپسند شرعیہ ہیں ‘‘۔ اس فتویٰ پر دہلی کے تین غیر مقلد علما کے دستخط

تھے۔ (۱) مولوی حفیظ اللہ (۲) مولوی
شریف حسین (
۳) الٰہی بخش۔ اور اُن کے علاوہ درج ذیل علمائے دیو بند و
گنگوہ وسہارن پور کے تائیدی دستخط بھی تھے۔ (
۱) مولوی
محمد  یعقوب،صدر مدرس مدرسہ دیو بند (
۲) مولوی
محمد  محمود حسن، مدرس مدرسہ دیو بند (
۳) مولوی
محمد  عبد الخالق دیو بند ی (
۴) مولوی
رشید احمد گنگوہی۔

 گنگوہی صاحب
کے الفاظ یہ ہیں  :
ایسی مجلس ناجائز ہے اور اس میں شریک ہونا گناہ ہے،
اور خطاب جناب فخر عالم علیہ السلام کو کرنا اگر حاضر ناظر جان کر کرے کفر ہے، ایسی
مجلس میں جانا اور شریک ہونا ناجائز ہے، اور فاتحہ بھی خلاف سنت ہے اور سوم بھی،
کہ یہ سنتِ ہنود کی رسوم ہے ۔۔ التزام مجلس میلاد بلا قیام و روشنی وتقاسیم شیرینی
و قیوداتِ لایعنی کے، ضلالت سے خالی نہیں ہے۔ علی ہذا القیاس سوم و فاتحہ بر طعام
کہ قرونِ ثلاثہ میں نہیں پائی گئی۔
اس زمانے میں یہ محفل میلاد و فاتحہ وعرس کے خلاف پہلا
فتویٰ تھا جو چار ورقی تھا اور
۱۳۰۲ھ میں مطبع ہاشمی میرٹھ سے
شائع ہوا، اس کی سرخی تھی  : فتویٰ
مولود  و عرس  وغیرہ۔پھر دوسرا فتویٰ مطبع ہاشمی میرٹھ ہی سے
چھپا جس کا عنوان تھا  : فتویٰ میلاد شریف یعنی
مولود مع دیگر فتاویٰ۔ یہ چوبیس صفحے کا تھا اس میں محفلِ میلاد شریف کی بڑی مذمت
کی گئی تھی اور پہلا چار ورقی فتویٰ بھی اس میں شامل کر دیا گیا تھا۔ ان فتووں نے
مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بویا اور عوامِ اہلِ سنت کو طرح طرح کے شکوک
و شبہات میں مبتلا کیا۔ اس علاقے کے لوگ زیادہ تر شیخ المشائخ حاجی امدادُ اللہ
صاحب فاروقی چشتی تھانوی سے بیعت و ارادت کا تعلق رکھتے تھے، جو کچھ عرصہ پہلے

ہندوستان کے حالات کی ناساز گاری کی وجہ سے ۱۲۷۶ھ / ۱۸۵۹ء
میں مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے تھے، اور حاجی صاحب کے مرید با صفا اور خلیفۂ صادق
عالمِ ربانی حضرت مولانا محمد  عبد السمیع
بے دؔل رام پوری سہارن پوری (متوفی
۱۳۱۸ھ ) اہلِ سنت و جماعت کے
مرجع و مقتدا تھے اور صبر و قناعت اور زہد و ورع میں اپنے پیرو مرشد کے آئینہ دار
تھے، اس لیے حاجی صاحب کے مریدین اور دیگر اہل سنت نے آپ سے بصد اصرار فرمائش کی
کہ آپ ان کا جواب لکھیں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں میلاد و فاتحہ وعرس کا صحیح
شرعی حکم واضح فرمائیں۔ اس لیے مولانا رام پوری نے قلم اٹھایا اور چند دنوں میں انوار
ساطعہ در بیان مولود و فاتحہ کے نام سے ایک شاندار وقیع اور افراط و تفریط سے پاک
کتاب تیار کر دی اور اس میں قرآن و حدیث اور اصول شریعت کی روشنی میں میلاد و فاتحہ
کا جواز ثابت کیا اور تائید میں سلفِ صالحین، فقہا و محدثین اور مشائخِ طریقت کے
اقوال و معمولات کو بھی پیش کیا۔(
۱)

جب یہ کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی تو اہل سنت و جماعت
میں مسرت و شادمانی کی ایک لہر دوڑ گئی، اور اسے اس قدر قبول عام حاصل ہوا کہ دیکھتے
ہی دیکھتے چند دنوں میں اس کے سارے نسخے ہاتھوں ہاتھ نکل گئے۔ جب یہ کتاب دیو بند،
گنگوہ اور سہارن پور کے وہابی علما تک پہنچی تو انہیں اپنے پیروں تلے سے زمین
کھسکتی نظر آئی۔ آخر کار ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے ‘‘ کے مطابق وہابی دیو بندی
علما کے سر گروہ مولوی رشید احمد گنگوہی (متوفی
۱۳۲۲ھ )
نے اس کے جواب میں ایک کتاب لکھ کر اپنے مرید خاص مولوی خلیل احمد انبیٹھوی سہارن
پوری (متوفی
۱۳۴۶ھ ) کے نام سے شائع کرائی،
جس کا لمبا چوڑا چار سطری نام اپنے خاص ذوق کے مطابق یہ رکھا :  البراہین القاطعۃ علی ظلام الأنوار الساطعۃ،  الملقّب بالدلائل الواضحہ علی کراھۃ المروَّج
من المولود و الفاتحۃ  اور نیچے یہ عبارت

لکھوائی : ’’بہ امر حضرت بقیۃ السلف، حجۃ الخلف، رأس الفقہاء والمحدثین، تاج
العلماء  الکاملین جناب مولانا رشید احمد
صاحب گنگوہی ‘‘۔(۲)

۔۔۔۔۔۔
(۱)       انوار ساطعہ، ص:
(۲)      براہین قاطعہ گنگوہی صاحب ہی کی تصنیف ہے۔ اس کا ثبوت یہ
ہے کہ حکیم عبد الحئی رائے بریلوی نے اسے گنگوہی صاحب کی تصانیف میں شمار کرایا ہے
اور خلیل احمد انبیٹھوی کی تصانیف میں اسے ذکر نہیں کیا۔ عبارت یہ ہے :  لہ مصنفات مختصرۃ قلیلۃ منھا ۔۔۔۔ البراہین
القاطعۃ في الردّ علی الأنوار الساطعۃ للمولوي عبد السمیع الرامفوری۔ طُبِعَ باسم
الشیخ خلیل أحمد السہارنفوری۔( نزھۃ الخواطر،ج:
۸، ص: ۱۶۶،
مطبوعہ ندوۃ العلما لکھنؤ۔)
۔۔۔۔۔۔۔
اس کتاب میں گنگوہی صاحب اس قدر آپے سے باہر ہو گئے کہ
نہ صرف میلاد و فاتحہ وعرس کو بدعت و ناجائز لکھا، اور اسے کنھیا کے جنم، ہندوؤں کے
سوانگ سے تشبیہ دی اور میلاد کرنے والے مسلمانوں کو  کفار و ہنود سے بھی بدتر قرار دیا۔ (براہین
قاطعہ،ص: ۔۔ ) بلکہ بد حواسی میں یہ بھی لکھ مارا کہ : (
۱)  اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے۔ (دیکھئے براہین قاطعہ،
ص:
۱۰) (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام
انسانوں کی طرح ایک بشر ہیں۔( ایضاً،ص:
۱۲) (۳) رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم شیطان اور ملک الموت سے کہیں کم ہے، شیطان اور ملک
الموت کے علم کا وسیع ہونا نصوصِ قطعیہ اور دلائلِ یقینیہ سے ثابت ہے جب کہ فخر
عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعتِ علم کا ثبوت کسی نص قطعی اور دلیلِ یقینی سے نہیں۔

اس لیے آپ کے لیے وسیع علم ماننا شرک ہے۔ (ایضاً،ص: ۱۲۲)
(۴)
سرکار
کو اپنے خاتمہ کا حال معلوم نہیں۔ اور انہیں دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں۔ (ایضاً،ص:
۱۲۱) (۵)  فخر
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اردو علمائے مدرسہ دیو بند سے سیکھی۔ (ایضاً،ص:
۶۳)

اس کے علاوہ اپنے پیر بھائی مولانا محمد عبد السمیع
رام پوری کے خلاف اپنی افتادِ طبع کے مطابق فحش مغلظات بکنے سے بھی گریز نہیں کیا،
اور لکھا کہ وہ کم فہم، جاہل، بے شرم، بے غیرت، بے سمجھ، کم عقل، دین سے بے بہرہ،
ہوش وحواس سے قاصر، پھکڑ باز، قوتِ شہوانیہ سے محروم، کوڑ مغز اور تیلی کے بیل وغیرہ
وغیرہ ہیں۔ گنگوہی صاحب نے خود کو لسانی محاسبہ اور ضابطۂ اخلاق سے بالاتر سمجھتے
ہوئے جس جاگیر دارانہ ذہنیت کا اظہار کیا ہے ان تمام ملفوظات شریفہ کو باضابطہ یک
جا کر دیا جائے تو ایک رسالہ تیار ہو جائے، جو مغلظات نویسی اور سبّ و شتم میں گنگوہی
صاحب کے پیشہ ورانہ کمال اور فنّی مہارت کا منھ بولتا ثبوت ہو گا۔(
۱) مگر
گنگوہی صاحب جیسے لوگوں سے اس کا کیا شکوہ ؟ کیوں کہ جب اللہ ورسول کی شان بھی ان
کے سمندقلم کی منھ زوری سے محفوظ نہیں تو کسی اور کی کیا حیثیت ہے ؟۔
ادھر مولانا رام پوری علیہ الرحمہ کی کتاب انوار ساطعہ
جب ان کے پیرو مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خدمت میں مکہ مکرمہ پہنچی تو
انھوں نے اسے ملاحظہ کرنے کے بعد مورخہ
۲۲؍ شوال ۱۳۰۴ھ
مطابق
۱۸۸۶ء کو مولانا رام پوری کو ایک خط لکھ کر کچھ اس طرح
اظہارِ خیال فرمایا  :
درحقیقت کتاب کا اصل مضمون اس فقیر اور بزرگان فقیر کے
مذہب و مشرب کے مطابق ہے، آپ نے خوب لکھا۔
جَزَاکَ اللّٰہ خیرًا۔(اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے)۔(
۲)
۔۔۔۔۔
(۱)     محترم سید قمر الدین اشرف (علی گڑھی)
نے براہین قاطعہ کا مطالعہ کرنے کے بعد مولانا گنگوہی کے مولانا رام پوری پر تمسخر

اور استہزا کے ریمارکس اور مغلظات کی تفصیل اپنی کتاب البراہین النافعہ کے باب سوم
میں ص: ۱۳۶ سے ص: ۱۶۸، تک صفحہ اور سطر کی نشاندہی
کے ساتھ ذکر کی ہے جو میرے دعوے کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ (دیکھئے البراہین النافعہ،
ڈی۔بی بلڈنگ، نوتنواں بازار،ضلع مہراج گنج،یو۔ پی۔)

(۲)      پورا خط انوار ساطعہ ص: ۷،۸ پر
فارسی زبان میں مطبوع ہو چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
 اور اسی کے
ساتھ تیز قلمی اور غیظ نفسانی والی عبارتوں کو آئندہ ایڈیشن میں کتاب سے خارج کرنے
کا حکم دیا۔ اس کے بعد مولوی خلیل الرحمن کے ذریعہ یہ بھی کہلوایا کہ جب دوبارہ
کتاب انوار ساطعہ چھپے تو پانچ چھ نسخے میرے پاس ضرور بھیج دیے جائیں۔(
۱)
ان کے علاوہ اس زمانہ کے ایک نامور عالمِ دین مصنف
انوار ساطعہ کے استاذ پایۂ حرمین شریفین حضرت مولانا رحمت اللہ بن خلیل الرحمن کیرانوی
مہاجر مکی بانی مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ نے مولانا رام پوری کو بذریعہ خط لکھا کہ
’’آپ کی اور مولوی رشید احمد صاحب کی مخالفت حد درجہ کو پہنچ گئی ہے۔ لہذا یہ

مقدمہ جتنا دب سکے دبائیو اور ہرگز نہ بڑھائیو ‘‘۔(۲)

اس کے بعد مولانابے دلؔ رام پوری صاحب نے انوار ساطعہ
کے اس نسخہ پر
۱۳۰۶ھ میں نظر ثانی کی اور اپنے
پیرو مرشد اور استاد کے حکم کے مطابق جو کچھ سخت الفاظ اور طنزیہ کلمات کتاب میں آ
گئے تھے انہیں یک سر کتاب سے خارج کر دیا اور لکھا  : 
مجھ کو رضا جوئی حضرت مرشدی و مولائی کی بجان و دل
منظور ہے، تعمیلِ ارشادِ مرشد میں قصور (کوتاہی) کرنا سراسر قصور ہے۔(
۳)
یہ خیال رہے کہ صاحبِ انوار ساطعہ مولانا عبد السمیع
رام پوری اور صاحبِ براہینِ قاطعہ مولوی رشید احمد گنگوہی دونوں حاجی امداد اللہ
صاحب مہاجر مکی کے خلیفہ ہیں،حاجی صاحب نے دونوں کو خوب خوب سمجھایا اور ان کے درمیان
صلح و مصالحت کی بہت کوشش فرمائی۔صاحبِ انوار ساطعہ نے تو اپنے پیرو مرشد کے حکم
کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ مگر گنگوہی صاحب اپنی ضد پر اڑے رہے، اور اپنے پیرو
مرشد کی ایک نہ مانی۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ براہینِ قاطعہ  آج تک اسی انداز سے چھپ رہی ہے جیسی ابتدا میں لکھی
گئی تھی۔یہاں حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کے تعلق سے چند حقائق حاضر خدمت
ہیں، امداد المشتاق میں حاجی امداد اللہ صاحب نے اپنے خلفا کے بارے میں فرمایا  :
۔۔۔۔
(۱)       دیکھئے انوارساطعہ،ص: ۸۔                       
(۲)      حوالۂ سابق ص: ۱۰۔ 
(۳)     نفس مصدر،ص: ۸۔
۔۔۔۔۔۔۔
میرے خلفا دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جنہیں میں نے از خود
خلافت دی ہے۔ دوسرے وہ جن کو تبلیغ دین کے لیے ان کی درخواست پر اجازت دی ہے۔ جن
خلفا کو از خود خلافت دی ہے انھوں نے پوری طرح حاجی صاحب کی اتباع کی۔مثلاً مولانا
لطف اللہ علی گڑھی (متوفی
۱۳۳۴ھ )،مولانا احمد حسن کان پوری
(متوفی
۱۳۲۲ھ )،مولانا محمد  حسین الہ آبادی (متوفی ۱۳۲۲ھ )
اور مولانا محمد عبد السمیع رام پوری (متوفی
۱۳۱۸ھ )،
اور جن خلفا نے حاجی صاحب سے اختلاف کیا ان میں مولوی محمد  قاسم نانوتوی (متوفی
۱۲۹۷ھ )،
مولوی رشید احمد گنگوہی (متوفی
۱۳۲۲ھ ) اور مولوی اشرف علی
تھانوی (متوفی
۱۳۶۲ھ ) کے نام سرِ فہرست ہیں۔(۱)
۔۔۔۔

(۱)       صابری سلسلہ ا ز وحید احمد مسعود، ص: ۴۶،
بدایوں
۱۹۷۱ء۔ بحوالہ انگریز نوازی کی حقیقت ص: ۳۸،
از مولانا یٰسین اختر مصباحی، دارالقلم دہلی۔ طبع اول
۱۴۲۸ھ / ۲۰۰۷ء۔
۔۔۔۔۔۔
اپنے خلفا کے درمیان مسلکی اختلاف کی اطلاع پا کر ان
کے تصفیہ کے لیے حاجی صاحب نے فیصلۂ ہفت مسئلہ کے نام سے ایک مختصر سی کتاب لکھی
جو (
۱) مولود شریف (۲)فاتحہ
(
۳) عرس وسماع (۴) ندائے
غیر اللہ(
۵) جماعتِ ثانیہ (۶) امکانِ
نظیر (
۷) امکانِ کذب کے مسائل میں اثباتِ مسلک اہل سنت پر مشتمل
ہے۔اس فیصلۂ  ہفت مسئلہ کے ساتھ یہ سلوک
ہوا کہ اسے نذر آتش کر دیا گیا۔ اس وقت تک مولانا اشرف علی تھانوی، حاجی صاحب کے
مسلک سے کچھ قریب تھے، مگر بعد میں انھوں نے بھی انحراف کیا اور مولانا رشید احمد
گنگوہی شروع ہی سے اپنے پیرو مرشد کے مسلک  و معمول کے بر عکس خیالات رکھتے تھے۔ اب نذر آتش
کرنے کا حادثہ خواجہ حسن ثانی نظامی (درگاہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی) کی زبانی
سنیے  :
نذر آتش کرنے کی یہ خدمت والدی حضرت خواجہ حسن نظامی
کے سپرد ہوئی جو اس وقت گنگوہ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے یہاں زیر تعلیم
تھے۔ لیکن خواجہ صاحب نے جلانے سے پہلے اس کو پڑھا اور جب ان کو وہ کتاب اچھی
معلوم ہوئی تو انھوں نے استاد کے حکم کی تعمیل میں آدھی کتابیں توجلادیں اور آدھی بچا
کر رکھ لیں۔

اس کے کچھ عرصہ بعد مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا
گنگوہی سے ملنے آئے اور ان سے پوچھا کہ میں نے کچھ کتابیں تقسیم کرنے کے لیے آپ کے
پاس بھیجی تھیں، ان کا کیا ہوا ؟ مولانا گنگوہی نے اس کا جواب ’’خاموشی ‘‘ سے دیا۔
لیکن کسی حاضر الوقت نے کہا کہ علی حسن (خواجہ حسن نظامی ) کو حکم ہوا تھا کہ انھیں
جلا دو۔ مولانا تھانوی نے میاں علی حسن سے پوچھا کہ کیا واقعی تم نے کتابیں جلا دیں
؟ انھوں نے جواب دیا کہ استاد کا حکم ماننا ضروری تھا اس لیے میں نے آ دھی کتابیں تو
جلا دیں اور آدھی میرے پاس موجود ہیں۔ حضرت خواجہ صاحب بیان کرتے تھے کہ مولانا
تھانوی اس سے اتنے خوش ہوئے کہ آم کھا رہے تھے، فوراً دو آم اٹھا کر مجھے انعام میں
دیے۔(
۱)
حضرت حاجی صاحب نے اپنے خلیفہ حضرت مولانا صوفی محمد  حسین الہ آبادی کے نام ۱۳۱۲ھ / ۱۸۹۴ء
میں مکہ مکرمہ سے ایک خط لکھ کر معلوم کیا کہ ہماری تحریر سے اختلاف کا کچھ تصفیہ
ہوا یا نہیں ؟ تو آپ نے تحقیقِ حال کر کے حاجی صاحب کو لکھا کہ علمائے دیو بند نے آپ
کی تحریر کو نگاہِ غلط انداز سے بھی نہ دیکھا، بلکہ فیصلۂ ہفت مسئلہ کو نذر آتش کر
دیا۔ (
۲)
ساتھ ہی جرأت وجسارت اور اپنے شیخ کے مقابلے میں سینہ
زوری ایسی تھی کہ بقول مولانا رشید احمد گنگوہی
:
جس فن کے امام حاجی صاحب ہیں اس میں ہم ان کے مقلد ہیں،باقی
فرعیات کے امام ہم ہیں۔حاجی صاحب کو چاہیے کہ ہم سے پوچھ کر عمل کریں۔
 اور مولونا
قاسم نانوتوی نے کہا :’’ہماری معلومات زائد اور حاجی صاحب کا علم زائد ہے‘‘۔
 اور مولوی
اشرف علی تھانوی نے تو اس اختلاف کو جائز قرار دینے کے لیے اپنی ساری قابلیت صرف
کر دی۔ مگر ساتھ ہی از راہِ انصاف یہ بھی تحریر کیا کہ بقول شخصے  :
تانباشد چیز کے مردم نگویند چیزہا‘‘۔(
۳)
۔۔۔۔
(۱)       ماہ نامہ منادی دہلی، جلد ۳۹،
شمارہ
۱۲؍ ص: ۲۲، بحوالہ تقدیس الوکیل (حاشیہ ) ص: ۷،
نوری بک ڈپو لاہور۔
(۲)      صابری سلسلہ،ص: ۴۷۔
(۳)     حوا لہ سابق، ص: ۴۹۔
۔۔۔۔۔۔
بہر حال اس کتاب کے تاریخی پس منظر اور پیش منظر پر
نگاہ ڈالنے کے بعد یہ تاریخی حقیقت ابھر کر سامنے آ گئی کہ اس وقت سنیت اور دیو
بندیت کا اختلاف در اصل حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کے خلفا کے مابین پیدا ہوا
اور ان ہی کے درمیان پلا، بڑھا اور پروان چڑھا، اور اس میں دیگر علما و مشائخ کی
شرکت بہت بعد میں ہوئی۔ لہذا یہ کہنا کہ سنیت اور دیو بندیت کے درمیان اختلاف کا آغاز

مولانا احمد رضا بریلوی نے کیا، تاریخ سے ناواقفیت اور جہالت پر مبنی ہے۔

براہینِ قاطعہ کا ایک تاریخی پہلو یہ بھی ہے کہ جب یہ
کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی تو مولانا غلام دستگیر قصوری اور مولوی خلیل احمد انبیٹھوی
جن کے درمیان پہلے دوستانہ تعلقات تھے ایک دوسرے کے سخت مخالف ہو گئے۔ واقعہ یہ ہے
کہ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی اس زمانے میں مدرسہ عربیہ، ریاست بھاول پور (پاکستان
) میں مدرس اول کے عہدہ پر فائز تھے، اور علمائے اہل سنت کی ان تمام تحریروں پر ان
کی تائیدات و تصدیقات ہوتی تھیں جو اعتقادی و فکری مسائل پر سامنے آتیں۔’’ ابحاث
فرید کوٹ ‘‘ میں مولوی خلیل احمد صاحب ان تمام اعتقادی مسائل کو تصدیقی مہروں سے
مزین فرما چکے تھے جو علمائے اہل سنت کے اعتقادی نظریات پر مبنی تھے۔ براہینِ
قاطعہ چوں کہ انبیٹھوی صاحب کے نام سے چھپی تھی اس لیے اس کو دیکھنے کے بعد مولانا
غلام دستگیر قصوری صاحب کو بڑا صدمہ ہوا۔ اور وہ بہ نفسِ نفیس بھاول پور پہنچے،
اور اپنے دیرینہ دوست سے براہِ راست گفتگو کر کے صورتِ حال معلوم فرمائی اور انہیں
سمجھانے کی بہت کوشش فرمائی، مگر انبیٹھوی صاحب کو اپنی ضد پر قائم پا کر حیرت زدہ
رہ گئے۔ جب انھوں نے افہام وتفہیم کی تمام تدبیروں کو ناکام ہوتے ہوئے دیکھا تو
انبیٹھوی صاحب کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ انبیٹھوی صاحب اپنے ساتھ چھ دیو بندی علما
لے کر حاضر ہوئے اور مولانا غلام دستگیر قصوری رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے ساتھ چھ علمائے
اہل سنت کے ہمراہ تشریف لائے۔شوال
۱۳۰۶ھ میں بمقام بھاول پور،
نوابِ بھاول پور کی نگرانی میں ان مسائل پر مناظرہ ہوا جو انوارِ ساطعہ اور براہینِ
قاطعہ میں زیر بحث آ چکے تھے۔ اس مناظرہ کے حکم اور فیصل والی ریاست بھاول پور کے
پیرو مرشد شیخ المشائخ خواجہ غلام فرید، چاچڑاں شریف تھے۔ مناظرہ میں مولوی خلیل
احمد انبیٹھوی کو شکستِ فاش ہوئی اور حَکم مناظرہ نے یہ فیصلہ سنایا کہ ’’انبیٹھوی
صاحب مع اپنے معاونین کے وہابی،اہل سنت سے خارج ہیں ‘‘۔ اس فیصلہ کے بعد مولوی خلیل
احمد صاحب کو بھاول پور سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔
اس مناظرہ کی تفصیلی روداد مولانا قصوری علیہ الرحمہ
نے’تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل‘کے نام سے لکھی، پھر اس کے مباحث کا عربی
ترجمہ کر کے علمائے حرمین طیبین سے اپنے موقف کے حق ہونے اور انبیٹھوی صاحب کے
موقف کے باطل ہونے پر تصدیقات وتقریظات لکھوائیں اور انہیں بھی کتاب میں شامل کر

کے شائع کیا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔
(۱)       تقدیس الوکیل ص: ۱ تا ۱۳،
نوری بک ڈپو، لاہور پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ان تصدیقات و تقریظات میں شیخ الدلائل مولانا محمد  عبد الحق الہ آبادی (متوفی ۱۳۳۳ھ)،
شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور اساتذۂ مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ کے
علاوہ پایۂ حرمین شریفین حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی کی سات صفحات پر
مشتمل طویل تقریظ و تصدیق ہے جس کے بنیادی عناصر درج ذیل ہیں  :
 (الف:   میں جناب مولوی رشید کو رشید سمجھتا تھا، مگر
میرے گمان کے خلاف کچھ اور ہی نکلے۔(یعنی نارشید) جس طرف آئے اس طرف ایسا تعصب
برتا کہ اس میں ان کی تقریر اور تحریر دیکھنے سے رومٹا کھڑا ہوتا ہے۔
(ب:   پھر مولوی
رشید احمد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے (امام حسین) کی طرف متوجہ ہوئے،
اور ان کی شہادت کے بیان کو بڑی شدت سے محرم کے دنوں میں، گو کیسا ہی روایتِ صحیح
سے ہو، منع فرمایا۔حالاں کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے جناب مولانا اسحاق مرحوم تک
عادت تھی کہ عاشورے کے دن بادشاہِ دہلی کے پاس جا کر روایاتِ صحیح سے بیان حالِ
شہادت کرتے تھے۔
(ج:    پھر
حضرت رشید نے جو نواسے کی طرف توجہ کی تھی اس پر بھی اکتفا نہ کر کے خود ذاتِ نبوی
صلی اللہ علیہ  و آلہ و اصحابہ وسلم کی طرف
توجہ کی۔ پہلے مولود کو کنھیا کے جنم اشٹمی ٹھہرایا اور اس کے بیان کو حرام بتلایا،
اور کھڑے ہونے کو، گو کوئی کیسے ذوق و شوق میں ہو بڑا منکر فرمایا۔
(د:      پھر
ذات نبوی میں اس پر بھی اکتفا نہ کر کے اور امکانِ ذاتی سے تجاوز کر کے چھ خاتم
النبیین بالفعل ثابت کر بیٹھے۔
(ہ:      اور امکانِ ذاتی کے باعتبار تو کچھ حد ہی نہ رہی،
اور ان کا مرتبہ کچھ بڑے بھائی سے بڑا نہ رہا۔
(و:     اور بڑی کوشش اس میں کی کہ حضرت کا علم شیطانِ
لعین کے علم سے کہیں کم تر ہے۔ اور اس عقیدے کے خلاف کو شرک ٹھہرایا۔
(ز:         پھر اس توجہ پر جو ذاتِ اقدس نبوی صلی اللہ علیہ
وسلم کی طرف تھی اکتفا نہ کیا، ذاتِ اقدسِ الٰہی کی طرف بھی متوجہ ہوئے، اور جناب
باری تعالیٰ کے حق میں دعویٰ کیا کہ اللہ کا جھوٹ بولنا ممتنع بالذات نہیں، بلکہ
امکان جھوٹ بولنے کو اللہ کی بڑی صفت کمال کی فرمائی۔نعوذ باللہ من ھذا الخرافات۔
(ح:    میں تو
ان امور کو ظاہر و باطن میں بہت برا سمجھتا ہوں، اور اپنے محبین کو منع کرتا ہوں کہ
حضرت مولوی رشید کے اور ان کے چیلے چانٹوں کے ایسے ارشادات نہ سنیں۔(
۱)
اب اس کے بعد ان اکابر علمائے ہند کے اجمالی احوال
قارئینِ کرام کے سامنے رکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جنھوں نے انوار ساطعہ کی
تائید و تصدیق کی اور اس پر گراں قدر تقریظات لکھیں۔ ان علما و مشائخ کی تعداد چوبیس
ہے۔
۔۔۔۔
(۱)     تقدیس الوکیل : ص: ۴۱۵تا
۴۲۲،نوری بک ڈپو، لاہور پاکستان۔
 
٭٭٭
 

انوَار سَاطعَہ
در
بیان مولود  و  فاتحہ
حافظ محمد عبد السمیع سہارن پوری
 [۱۳۱۸ھ؍۱۹۰۰ء]

تسہیل و تجدید، تخریج و تحقیق

 محمد افروز
قادری چریاکوٹی

اس مضمون  کی محض چوتھائی حصے کی
مکمل پروف ریڈنگ اور تصحیح کی جا سکی ہے۔ اس کے متن پر مکمل اعتماد نہ کیا جائے

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!