محبت الٰہی عزوجل میں مرنا،فکرآخرت سکھاگیا
حضرت سیدنا محمد بن داؤد دینوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ، میں نے حضرت سیدنا اسحاق ہروی علیہ رحمۃاللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :” ایک مرتبہ میں بصرہ میں موجودتھا کہ میرے پا س حضرت سیدنا ابن خیوطی علیہ رحمۃاللہ القوی تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:” چلو، ہم اُبُلَّہ چلتے ہیں۔” ( یہ بصرہ کے ایک قصبہ کانام ہے)
چنانچہ ہم سفر پر روانہ ہوئے۔ بدرِ کامل نے اپنی روشنی سے سارے قصبے کو نور بار کیا ہواتھا ، ہر طرف خاموشی کا سماں تھا جب ہم اس قصبہ کے قریب پہنچے تو وہاں ایک عظیم الشان عمارت نظر آئی جو کسی رئیس کی ملکیت میں تھی ، پھر یکایک خاموش فضاؤں میں سارنگی بجنے کی آواز آئی۔ جب ہم اس سمت گئے تو دیکھاکہ ایک لونڈی محل کے قریب بیٹھی سارنگی بجار ہی ہے اوربار بار ایک شعر گنگنارہی ہے،جس کامفہوم یہ ہے:” تم روزانہ بدلتے ہو، کیا تمہیں اس کے علاوہ بھی کوئی شئے زیبا ہے۔ ”
اس عمارت کی ایک طرف ایک فقیر دو چادروں میں لپٹا ہوا بیٹھا تھا۔ جب اس نے یہ شعر سنا تو زور زور سے چیخنے لگا اور لونڈی سے کہنے لگا:” خدارا! وہ شعر مجھے دوبارہ سنا ؤ،ہائے افسوس !میرا حال بھی میرے رب عزوجل کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ جلدی کرو ،مجھے دوبارہ وہ شعر سناؤ ، جب اس لونڈی کے مالک نے یہ حالت دیکھی تو لونڈی سے کہا :” سارنگی بجانا چھوڑ دو اور اس فقیر کو جا کر شعر سنا ؤ، یہ خدا رسیدہ بزرگ ہے ۔” چنانچہ وہ لونڈی اس فقیر کے پاس آئی اور دوبارہ یہی شعر پڑھا،وہ شعر پڑھتی جاتی اور فقیر چیختا جاتا اور کہتا : ”خدا عزوجل کی قسم! میری حالت بھی میرے رب عزوجل کے ساتھ ایسی ہی ہے۔” پھر یکدم اس نے ایک دِل خراش چیخ ماری اور زمین پر گر پڑا۔ ہم اس کے پاس گئے اور اسے ہلا جلا کر دیکھا تو اس کی رو ح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
جب یہ خبر اس عظیم الشان عمارت کے مالک کو پہنچی تو وہ نیچے آیا اور اس فقیر کی لاش کو اپنے گھر لے گیا ۔ہمیں اس واقعہ پر بہت افسوس ہوا ،پھر ہم اپنے کام کے سلسلہ میں آگے روانہ ہوگئے ۔جاتے وقت ہم نے دیکھا کہ اس صاحبِ عمارت نے اپنے سامنے موجود تمام آلاتِ لہو ولعب تو ڑ دیئے تھے،پھر ہم وہا ں سے روانہ ہوگئے۔
پھر جب صبح ہمارا گزر اسی مقام سے ہوا تو دیکھا کہ اس عمارت کے گرد لوگو ں کاجمِ غفیرہے اور وہاں اس فقیر کا جنازہ رکھا ہو ا ہے ، ایسے لگتا تھا گویا پورے شہرِبصرہ میں اس فقیر کی موت کی اطلاع پہنچادی گئی ہے ، شہر کا ہر عام وخاص اس کے جنازے میں شرکت کے لئے موجود تھا، قاضی اور حکام بھی وہاں موجود تھے ۔
پھر اس خدا رسیدہ بزرگ کے جنازہ کو سوئے قبر ستان لے جایا گیا۔ اس کے پیچھے فوجی لشکراور عوام خواص کا ہجوم تھا ، سب کے سب ننگے سراور ننگے پاؤں تھے ،سب افسردہ وغمگین تھے، جب اس مرد قلندر کو دفنایا گیا تو اس عمارت والے رئیس نے
لوگوں سے کہا :” تم سب لوگ گواہ ہوجاؤ، میرے تمام غلام اور لونڈیاں آج کے بعداللہ عزوجل کی رضا کی خاطرآزادہیں، میری تمام جاگیر اور مال و دولت سب اللہ عزوجل کی راہ میں وقف ہے، میری ملکیت میں چار ہزار دینار ہیں، میں انہیں بھی اللہ عزوجل کی راہ میں وقف کرتا ہوں۔” پھر اس نے اپنا قیمتی لباس اُتارکر پھینک دیا، اب اس کے پاس صرف ایک شلوار باقی بچی۔ اس نیک بخت رئیس کی یہ حالت دیکھ کر قاضی نے کہا:”میرے پاس دو چادریں موجود ہیں، آپ وہ قبول فرمالیں۔” چنانچہ قاضی صاحب نے اس رئیس کو وہ دو چادریں دے دیں۔ اس نے ایک کو اوڑھ لیا اور دوسری کو بطورِ تہبند استعمال کیا، لوگ میت سے زیادہ رئیس کی اس حالت پر روئے، پھر وہ نیک بخت رئیس مالکِ حقیقی عزوجل کی رضا کی خاطر اپنی تمام دولت چھوڑ کردائمی نعمتوں کے حصول کے لئے ایک نامعلوم سمت روانہ ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)