سَر دْ رَات میں سو کوڑے
حضرت سیدنا ابو وداعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”مَیں حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی محفل میں باقاعدگی سے حاضر ہوا کرتا تھا،پھر چند دن میں حاضر نہ ہوسکا۔ جب دوبارہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس حاضر ہوا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:” تم اتنے دن کہاں تھے؟” میں نے کہا:” میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھابس اسی پریشانی میں چند دن حاضر ی کی سعادت حاصل نہ ہو سکی ۔” یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”تو نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی تا کہ میں بھی جنازہ میں شرکت کرتا ؟” حضرت سیدنا ابو وداعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” ا س پر میں خاموش رہا۔” جب میں نے رخصت چاہی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” کیا تم دوسری شادی کرنا چاہتے ہو؟” میں نے کہا:” حضور! میں تو بہت غریب ہوں، میرے پاس بمشکل چند درہم ہوں گے، مجھ جیسے غریب کی شادی کون کروائے گا۔” تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے:” میں تیری شادی کرواؤں گا ۔” میں نے حیران ہوتے ہوئے عرض کی:”کیا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہمیری شادی کرائیں گے ؟” فرمایا:” جی ہاں!میں تیری شادی کراؤں گا۔” پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عزوجل کی حمد بیان کی اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمپر درود وسلام پڑھا اور میری شادی اپنی بیٹی سے کرادی ۔
میں وہاں سے اٹھا او رگھر کی طر ف روانہ ہوا ۔میں اتنا خوش تھا کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرو ں ، پھر میں سوچنے لگا کہ مجھے کس کس سے اپنا قرضہ وصول کرنا ہے ، اور اسی طر ح میں آنے والے لمحات کے بارے میں سوچنے لگا پھر میں نے مغر ب کی نمازمسجد میں ادا کی اور دوبارہ گھر کی طرف چلا آیا ۔میں گھر میں اکیلا ہی تھا، پھر میں نے زیتو ن کا تیل اور رو ٹی دستر خوان پر رکھی اور کھانا شرو ع ہی کیا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔میں نے پوچھا:” کون ؟” آواز آئی:” سعید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔”میں سمجھ گیا کہ ضرور یہ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی ہوں گے۔ اتنی دیر میں وہ اندر تشریف لے آئے۔ میں نے کہا:”آپ
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے پیغام بھیج دیتے، میں خود ہی حاضر ہوجاتا۔”فرمانے لگے:” نہیں،بلکہ تم اس بات کے زیادہ حق دار ہو کہ تمہارے پا س آیاجائے۔” میں نے کہا:”فرمائیے! میرے لئے کیاحکم ہے ؟آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ” اب تم غیر شادی شدہ نہیں ہو، تمہاری شادی ہوچکی ہے، میں اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم شادی ہوجانے کے بعد بھی اکیلے ہی رہو ، پھر ایک طرف ہٹے تو ان کی بیٹی ان کے پیچھے کھڑی تھی۔ انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ ااور کمرے میں چھوڑ آئے اور مجھے فرمایا:” یہ تمہاری زوجہ ہے۔” اتنا کہنے کے بعد تشریف لے گئے ۔میں دروازے کے قریب گیا اور جب اطمینان ہوگیا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جاچکے ہیں تو میں واپس کمرے میں آیا تواس شرم وحیا کی پیکر کو زمین پر بیٹھے ہوئے پایا ۔میں نے جلدی سے زیتون کے تیل اور روٹیوں والا برتن اٹھا کر ایک طر ف رکھ دیا تاکہ وہ اسے نہ دیکھ سکے۔پھر میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھا اور اپنے پڑوسیوں کو آواز دینے لگا۔تھوڑی ہی دیر میں سب جمع ہوگئے اور مجھ سے پوچھنے لگے :” تمہیں کیا پریشانی ہے ؟” میں نے کہا:” حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی بیٹی سے میری شادی کرادی ہے اور وہ اپنی بیٹی کو میرے گھر چھوڑ گئے ہیں۔ لوگو ں نے بے یقینی سے پوچھا :”کیا حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کرائی ہے ؟” میں نے کہا:” اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو میرے گھر جا کر دیکھو، ان کی بیٹی میرے گھر میں موجود ہے۔” یہ سن کر سب میرے گھر آگئے ۔جب میری والدہ کو یہ خبر ملی تو وہ بھی فوراً ہی آگئیں اور مجھ سے فرمانے لگیں:” اگر تین دن سے پہلے تو اس کے پاس گیا توتجھ پر میرا چہرہ بھی دیکھنا حرام ہے۔تین دن تک میں اس کی اصلاح کرلوں اس کے بعد ہی تواس سے قربت اختیار کرنا۔”میں تین دن انتظار کرتا رہا، چوتھے دن جب اس کے پا س گیا اور اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ حسن وجمال کا شاہکار تھی ، قرآن پاک کی حافظہ، حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکی سنتوں کو بہت زیادہ جاننے والی،اور شوہر کے حقوق کو بہت زیادہ پہچاننے والی تھی ۔اسی طر ح ایک مہینہ گزر گیا۔ نہ تو حضر ت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے پاس آئے اور نہ ہی میں حاضر ہو سکا ، پھر میں ہی ان کے پاس گیا۔ وہ بہت سارے لوگوں کے جھرمٹ میں جلوہ فرماتھے ، میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے جواب دیا ۔اس کے بعد مجلس کے ختم ہونے تک انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی ،جب سب لوگ جاچکے اور میرے علاوہ کوئی اور نہ بچا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا:” اس انسان کو کیسا پایا ؟”
میں نے عرض کی:”حضور!( آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بیٹی ایسی صفات کی حامل ہے کہ) شاید کوئی دشمن ہی اسے ناپسند کرے ورنہ دوست تو ایسی چیز وں کو پسند کرتے ہیں۔” فرمایا :”اگر وہ تجھے تنگ کرے تو لاٹھی سے اصلاح کرنا پھر جب میں گھر کی طرف روانہ ہوا تو انہوں نے مجھے بیس ہزار درہم دیئے۔ میں انہیں لے کر گھر کی طر ف چلا آیا۔
حضر ت سیدنا عبداللہ بن سلمان علیہ رحمۃاللہ المنان فرماتے ہیں : ”حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اسی
صاحبزادی کے لئے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنے بیٹے ولید کی شادی کا پیغام بھیجا تھا لیکن حضرت سیدنا سعید بن مسیبرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکار کر دیا ، عبد الملک نے ہر طر ح کوشش کی کہ کسی طر ح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ راضی ہوجائیں لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ برابر انکار کرتے رہے پھر وہ ظلم وستم پر اتر آیا اور ایک سرد رات اس ظالم نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سو کوڑے مارے اور اُون کا جبہ پہنا کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہپر ٹھنڈا پانی ڈلوایا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)