Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

مشکل صیغوں کا بیان (ماخوذ از علم الصیغہ)

نوٹ :
یہاں صیغوں کو ان کے تلفظ والی شکل میں لکھ کر بریکٹ میں رسم الخط کے انداز میں لکھا جائے گا۔ مثلاً: فَتَّقُوْنِ (فَاتَّقُوْنِ)۔

یہ تمام صیغے قرآن مجید سے لیے گئے ہیں؛ تاکہ طلباء کے لیے ان صیغوں کو سمجھنے کے بعد آیات کے معانی کو سمجھنا آسان ہو۔
صیغہ نمبر(۱): فَتَّقُوْنِ (فَاتَّقُوْنِ)

دراصل یہ صیغہ اِتَّقُوْا جمع مذکر امر حاضر معروف باب افتعال لفیف مفروق ہے، اس کے شروع میں فاء آنے کی وجہ سے ہمزہ وصل گرگیا یعنی پڑھنے میں نہیں آئے گا ۔ آخر میں یائے متکلم تھی جسے گرادیا گیا فعل اور یائے متکلم کے درمیان نون وقایہ ہے؛ تاکہ فعل کے آخر کو کسرہ سے بچایا جائے ۔ یعنی یہ فَاتَّقُوْنِیْ تھا ۔ نون وقایہ کا کسرہ یائے محذوفہ پر دلالت کرتاہے۔ اِتَّقُوْاکو تَتَّقُوْنَ سے بنایا گیا ہے جس کا طریقہ معروف ہے ۔ تَتَّقُوْنَ اصل میں تَتَّقِیُوْنَ تھا قاف کو ساکن کرکے یاء کا ضمہ اسے دیا اور اجتماع ساکنین کی وجہ سے یاء کو گرادیا۔
صیغہ نمبر(۲): فَرْھَبُوْنِ (فَارْھَبُوْنِ )

یہ بھی امر حاضر معروف جمع مذکر کا صیغہ ہے البتہ یہ باب فتح یفتح سے ہے، اس کے شروع میں بھی فاء ہے اور آخر میں نون وقایہ ہے جس کے بعد یائے متکلم تھی جسے گرادیاگیا۔
فائدہ:
جن افعال کے آخر میں نون وقایہ اور یائے متکلم ہو وہاں یاء کو گرانے کے بعد جب وقف یا جزم کی حالت ہوتی ہے تو طالب علم حیران رہ جاتاہے کہ حالت جزم اور وقف کے باوجود نون اعرابی کیسے آگیا حالانکہ یہ نون وقایہ ہے۔ اسی طرح جب ہمزہ وصل گرتاہے توبعض اوقات صیغے کا سمجھنا مشکل ہو جاتاہے بالخصوص جب دوسرے کلمے کے ساتھ ملنے کی وجہ سے ہمزہ وصل گراہو۔ مثلاً:  (یَا اَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ )(الایۃ) اب یہاں تُرْجِعِیْ پڑھا جاتاہے پہلے کلمہ یعنی المطمئنۃ سے ملنے کی وجہ سے ارجعی (واحد مونث امر حاضر معروف) کا ہمزہ وصل گرگیا ،تاء اور راء کو ملاکر پڑھنے سے صیغہ سمجھ میں نہیں آتا۔     (یَا اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا) (الآیۃ) میں ”اُعْبُدُوْا” جمع مذکر امر حاضر معروف ہے۔ لیکن سُعْبُدُوْا پڑھنے سے صیغے کو سمجھنا مشکل ہوگیا۔ اسی طرح : اِذَا قِیْلَ ارْجِعُوْا میں لَرْجِعُوْا اور رَبِّ ارْجِعُوْنِ میں بِرْجِعُوْنِ کے بارے میں تشویش ہوجاتی ہے کہ یہ کونسا صیغہ ہے حالانکہ یہ دونوں جمع مذکر امر حاضر کے صیغے ہیں۔
ہمزہ وصلی والے ابواب کے شروع میں مَا اور لاَ آنے سے بھی صیغے کو سمجھنے میں پریشانی ہوجاتی ہے ۔ مثلا مَجْتَنَبَ (مَااِجْتَنَبَ ) مَنْفَطَرَ (مَااِنْفَطَرَ) لَنْفَجَرَ (لَااِنْفَجَرَ) مَسْتُوْرِدَ (مَااُسْتُوْرِدَ ) یہ تمام ماضی کے صیغے ہیں، لیکن حرف نفی آنے کی صورت میں ان کا تلفظ الجھن میں ڈال دیتاہے۔
باب اِنْفِعَالٌ کی ماضی پر حرف نفی لاَ آجانے سے لفظ لَنْ اور حرف نفی مَا آجانے سے مَنْ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے: لَاانْفَطَرَ (لَنْفَطَرَ) مَاانْفَطَرَ (مَنْفَطَرَ)۔

مَحْلُوْلِیْنَ جمع مذکر اسم مفعول حالت نصب وجر کے علاوہ ناقص باب افعیلال سے جمع مونث غائب نفی ماضی مجہول کا صیغہ بھی آتاہے۔ مثلاً: مَااُحْلُوْلِیْنَ (پڑھنے میں مَحْلُوْلِیْنَ) ۔ اسی طرح مَضْرُوْبِیْنَ جمع مذکر اسم مفعول باب ضَرَبَ یَضْرِبُ کے علاوہ باب افعیعال سے ماضی منفی جمع مونث غائب کا صیغہ بھی بنتاہے۔ جیسے: مَااُضْرُوْبِیْنَ(پڑھنے میں مَضْرُوْبِیْنَ)۔
صیغہ نمبر(۳): فَدَّارَأْتُمْ ( فَادَّارَأْتُمْ)

صیغہ جمع مذکر اثبات ماضی معروف مہموز اللام باب اِفَّاعُلٌ سے اِدَّارَأْتُمْ تھا۔ شروع میں فاء کے آنے سے ہمزہ وصل گرگیا۔
صیغہ نمبر(۴): لَنْفَضُّوْا (لَااِنْفَضُّوْا)

صیغہ جمع مذکر غائب فعل ماضی مثبت معروف مضاعف ثلاثی باب انفعال ہے ، شروع میں لام تاکید آنے کی وجہ سے ہمزہ وصل گرگیا۔
صیغہ نمبر(۵): اَسْتَغْفَرْتَ (اَ اِسْتَغْفَرْتَ)

صیغہ واحد مذکر حاضر ماضی مثبت معروف صحیح از باب استفعال ہے۔ شروع میں ہمزہ استفہام آنے کی وجہ سے ہمزہ وصل گرگیا۔
صیغہ نمبر(۶):

تَظَاھَرُوْنَ ( تَتَظَاھَرُوْنَ)

صیغہ جمع مذکر حاضر فعل مضارع مثبت معروف صحیح از باب تَفَاعُلٌ ہے ۔
ایک تاء گرادی گئی؛ کیونکہ دو تاء جمع ہونے کی وجہ سے ایک تاء کو گرادیتے ہیں۔
صیغہ نمبر(۷): لِتُکْمِلُوْا
صیغہ جمع مذکر حاضر فعل مضارع مثبت معروف صحیح از باب اِفْعَالٌ ہے۔ شروع میں لامِ کَیْ کے بعداَنْ مقدر ہے جس کی وجہ سے آخر سے نون اعرابی گرگیا ۔ یہ صیغہ اس لیے مشکل ہوجاتاہے کہ طالب علم سمجھتا ہے شاید یہ لام امر ہے اور لام امر حاضر کے صیغوں پر نہیں آتا حالانکہ یہ لام کَیْ ہے۔
صیغہ نمبر(۸): وَلْتَأْتِ (لِتَأْتِ)

صیغہ واحد مؤنث امر غائب معروف ناقص یائی از باب ضرب یضرب ہے۔ شروع میں واو آنے کی وجہ سے لام امر ساکن ہوگیا ۔وَلْتَأْتِ کو تَأْتِیْ مضارع سے بناتے ہیں، شروع میں لام امر لگانے کی وجہ سے آخر سے یاء گرگئی۔
قاعدہ:
واو کے بعد لام امر کو گرانا(ساکن کرنا) واجب ہے اور فاء کے بعد جائز۔ اس کی وجہ یہ ہے ؛کہ جہاں فعل کا وزن ہو چاہے اصلی ہو یا عارضی وہاں اہل عرب درمیان والے حرف کو ساکن کردیتے ہیں۔ جیسے: کَتِفٌ سےکَتْفٌ۔ چونکہ امر میں لام کے بعد حرف متحرک ہوتاہے اس لیے واو یا فاء کے داخل ہونے کی صورت میں فعل کا وزن پیدا ہوجاتاہے اس لیے لام کو ساکن کردیتے ہیں۔ واو کی صورت میں لام کو گرانا اس لیے واجب ہے کہ اس کا استعمال زیادہ ہے۔
صیغہ نمبر(۹): وَیَتَّقْہِ
یہ صیغہ واحد مذکر غائب اثبات مضارع معروف لفیف مفروق از باب افتعال ہے۔ اصل میں  یَتَّقِیْ تھا۔ قرآن پاک کی آیت:  (وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ، وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ)(الآیۃ) یہاں مَنْ کی وجہ سےیُطِیْعُ کے آخر میں جزم آگئی تولام کلمہ ساکن ہوگیا اور اس سے پہلے جو یاء تھی وہ اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگئی ،جبکہ یَخْشٰی سے الف اور یَتَّقِیْ سے یاء کرگئی۔ یَتَّقْہِ میں یاء کے گرنے کے بعد ضمیرِ مفعول کی وجہ سے فَعِلٌ کی صورت پیدا ہوگئی۔ مثلاً: تَقِہٌ لہذا قاف کو ساکن کردیا تو یَتَّقْہِ ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۱۰): اَرْجِہْ
اَرْجِ صیغہ واحد مذکر امر حاضر معروف ناقص از باب اِفْعَالٌ ہے ۔اس کے بعد واحد مذکر غائب کی ضمیرِمفعول آنے کی وجہ سے اَرْجِہْ ہوگیا۔ قرآن پاک میں اس کے بعد وَاَخَاہ، کا لفظ ہے لہذا”جِہِ وَ”(فِعِلٌ)کی صورت پیدا ہوگئی جیسے:اِبِلٌ ہے؛ اہل عرب کا قاعدہ ہے کہ اس وزن میں بھی درمیان والے حرف کو ساکن کردیتے ہیں، لہذا ہاء کو ساکن کیا تو اَرْجِہْ وَاَخَاہ، ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۱۱): عَصَوَّ (عَصَوْا وَ)
عَصَوْا جمع مذکر غائب ماضی معروف ناقص واوی از باب نَصَرَ یَنْصُرُ سے (جیسے:رَمَوْا ہے)اس کے بعد واو عطف آگیا ۔ قرآن پاک میں بِمَا عَصَوْا وَکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ۔ قاعدہ یہ ہے کہ واو غیر مدہ کا واو عطف میں ادغام کرتے ہیں، اس لیے عَصَوا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۱۲): اَنَّمُنَّ (اَنْ نَمُنَّ)
نَمُنَّ صیغہ جمع متکلم مع الغیر مضارع معروف از باب نصر ینصرہے ۔ اَنْ ناصبہ مصدریہ کی وجہ سے منصوب ہے ۔اَنْ کے نون کا متکلم کے نون میں ادغام ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۱۳): لُمْتُنَّنِیْ
لُمْتُنَّ صیغہ جمع مؤنث حاضر اثبات فعل ماضی معروف اجوف واوی ازباب نَصَرَ یَنْصُرُ، قُلْتُنَّ کی طرح ہے۔اس کے آخر میں یاء متکلم اور نون وقایہ آجانے کی وجہ سے لُمْتُنَّنِیْ ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۱۴):اِمَّا تَرَیِنَّ
صیغہ واحد مونث حاضر اثبات مضارع معروف بانون ثقیلہ مہموز العین وناقص از باب

فَتَحَ یَفْتَحُ ، اصل میں یہ تَرَیْنَ تھا؛ نون ثقیلہ کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا، یائے غیر مدہ نون ثقیلہ کے ساتھ جمع ہوئی اجتماع ساکنین کی وجہ سے یاء کو کسرہ دیا تَرَیِنَّ ہوگیا اور تَرَیْنَ اصل میں تَرْئَیِیْنَ تھا، ہمزہ یَسَلُ کے قاعدہ سے حذف ہوگیا، اورر ؤیت کے افعال میں اس کو حذف کرنا واجب ہے ۔اور یاء تَرَیِیْنَ والے قاعدے کے تحت حذف ہوگئی۔ نون تاکید جس طرح مضارع میں لام تاکید کے بعد آتاہے اسی طرح اِمّا شرطیہ کے بعد بھی آتاہے ۔
صیغہ نمبر(۱۵): اَلَمْ تَرَ
صیغہ واحد مذکر حاضر نفی جحد بلم اور فعل مستقبل معروف مہموز العین وناقص یائی ازباب فتح یفتح اس کی تعلیلات آپ نے پڑھ لی ہیں شروع میں ہمزہ استفہام ہے۔  صیغہ نمبر(۱۶): قَالِیْنَ
صیغہ جمع مذکر اسم فاعل ناقص از باب ضرب یضرب (دشمن رکھنے والے) راعین والے قاعدے کے تحت تعلیل ہوئی قرآن پاک میں ہے: (اِنِّیْ لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ )۔ قرآن پاک میں تو یہ اسم فاعل ہی استعمال ہوا کیونکہ اس پر الف لام داخل ہے ،لیکن قَالِیْن میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہ باب مفاعَلۃ سے امر حاضر مونث کا صیغہ ہے: قَالٰی یُقَالِیْ مُقَالَاۃً۔ امرقَالِ قَالِیَا قَالُوْا قَالِیْ قَالِیَا قَالِیْنَ۔ اس کا معنی دشمنی رکھنا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ یہ اس باب سے واحد مونث امر حاضر معروف ہو یعنی: قَالِیْنِیْ۔ آخر میں نون وقایہ اور یائے متکلم ہو۔ وقف کی حالت میں یائے متکلم کے گرنے اور نون وقایہ کے ساکن ہونے کی وجہ سے قَالِیْن پڑھیں گے۔
نوٹ:
اس قسم کے صیغوں میں اس وجہ سے اشکال ہوتاہے کہ یہ دوسری زبان میں کسی چیز کا نام ہو سکتاہے۔ جیسے: ”قالین ”ایک بچھونے کو کہتے ہیں۔
اسی طرح آسْمَانْ۔ آسمان کا نام بھی ہے لیکن عربی میں اَفْعَلَانِ صیغہ تثنیہ مذکر اسم تفضیل کے آخر کو بوجہ وقف ساکن کیا جائے تو یہی وزن بنتاہے ۔نیز یہ باب افعال سے ماضی معروف کا صیغہ تثنیہ مذکر غائب بھی ہو سکتاہے کہ آخر میں نون وقایۃ اوریائے متکلم ہو (اَفْعَلَانِیْ)یائے متکلم حذف ہوگئی اور وقف کی وجہ سے نون کا کسرہ گر گیاتواَفْعَلَانْ(آسمان) ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۱۷):اَشُدَّ
بَلَغَ اَشُدَّہ، میں یہ صیغہ شِدَّۃٌ کی جمع ہے یعنی قوت ۔جیسا کہ اَنْعُمٌ نِعْمَتٌ کی جمع ہے، تفسیر بیضاوی شریف میں اسی طرح ہے۔ قاموس (لغت کی ایک کتاب) میں اسے اَشَدُّ کی جمع بھی لکھا ہے اس کا معنی بھی قوت ہے ۔
صیغہ نمبر(۱۸): لَمْ یَکُ
اصل میں لَمْ یَکُنْ تھا اس قاعدہ کے تحت کہ فعل ناقص پر جوازم کے داخل ہونے سے نون گرانا جائز ہے نون کو گرادیا، قرآن پاک میں لَمْ اَکُ، لَمْ نَکُ اور اِنْ یَکُ بھی آیا ہے۔
صیغہ نمبر(۱۹): یَھِدِّیْ
صیغہ واحد مذکر غائب اثبات فعل مضارع معروف ناقص یائی از باب افتعال ہے ۔اصل میں یَھْتَدِیْ تھا۔ باب افتعال کا عین کلمہ حرف دال (د) ہونے کی وجہ سے تاء کو دال سے بد ل کر ادغام کیا ، اور فاء کلمہ (ہاء) کو کسرہ دیا اس طرح یَھِدِّیْ ہوگیا ۔یہاں فاء کلمہ پر فتحہ بھی جائز ہے یعنی: یَھَدِّیْ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
صیغہ نمبر(۲۰): یَخِصِّمُوْنَ
صیغہ جمع مذکرغائب اثبات فعل مضارع معروف صحیح ازباب اِفْتِعَالٌ ہے۔ اصل میں یَخْتَصِمُوْنَ تھا۔ عین کلمہ کی جگہ حرف صاد واقع ہوا تو یَھِدِّیْ کی طرح یہاں بھی تعلیل ہوگی۔
صیغہ نمبر(۲۱): وَدَّکَرَ (وَاِدَّکَرَ)

صیغہ واحد مذکر غائب فعل ماضی معروف از باب افتعال ہے اصل میں اِذْتَکَرَ تھا باب افتعال کا فاء کلمہ ذال ہونے کی وجہ سے تائے افتعال کو دال سے بدلا اور ذال کو بھی دال سے بدل کر ادغام کیاتواِدَّکَرَ ہوگیا۔ شروع میں واو آنے کی وجہ سے ہمزہ وصل گرگیا تو وَادَّکَرَ پڑھاگیا۔
صیغہ نمبر(۲۲): مُدَّکِرٌ
صیغہ واحد مذکر اسم فاعل از باب افتعال ہے۔ اصل میں مُذْتَکِرٌتھا ، ذال اور تاء دونوں کو دال سے بدلا، شروع میں میم اسم فاعل کی علامت ہے۔
صیغہ نمبر(۲۳): تَدَّعُوْنَ
صیغہ جمع مذکر حاضر اثبات فعل مضارع معروف ناقص واوی از باب افتعال ہے۔ اصل میں تَدْتَعِیُوْنَ تھا؛تاء کو دال سے بدل کر ادغام کیا، پھر تَرْمُوْنَ کے قاعدہ کے تحت یاء حذف ہوگئی، تَدَّعُوْنَبن گیا۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!