Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ”حواری”جو آپ پر ایمان لا کر اور اپنے اپنے اسلام کا اعلان کر کے اپنے تن من دھن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نصرت و حمایت کے لئے ہر وقت اور ہر دم کمربستہ رہے، یہ کون لوگ تھے؟ اور ان لوگوں کو ”حواری” کا لقب کیوں اور کس معنی کے لحاظ سے دیا گیا؟
تو اس بارے میں صاحب تفسیر جمل نے فرمایا کہ ”حواری”کا لفظ ”حور” سے مشتق ہے جس کے معنی سفیدی کے ہیں چونکہ ان لوگوں کے کپڑے نہایت سفید اور صاف تھے اور ان کے قلوب اور نیتیں بھی صفائی ستھرائی میں بہت بلند مقام رکھتی تھیں اس بناء پر ان لوگوں کو ”حواری” کہنے لگے اور بعض مفسرین کا قول ہے کہ چونکہ یہ لوگ رزق حلال طلب کرنے کے لئے دھوبی کا پیشہ اختیار کر کے کپڑوں کی دھلائی کرتے تھے اس لئے یہ لوگ ”حواری” کہلائے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سب لوگ شاہی خاندان سے تھے اور بہت ہی صاف اور سفید کپڑے پہنتے تھے اس لئے لوگ ان کو حواری کہنے لگے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں آپ کھانا کھایا کرتے تھے اور وہ پیالہ کبھی کھانے سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ کسی نے بادشاہ کو اس کی اطلاع دے دی تو اس نے آپ کو دربار میں طلب کر کے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں عیسیٰ بن مریم خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ وہ بادشاہ آپ کی ذات اور آپ کے معجزات سے متاثر ہو کر آپ پر ایمان لایا اور سلطنت کا تخت و تاج چھوڑ کر اپنے تمام اقارب کے ساتھ آپ کی خدمت میں رہنے لگا۔ چونکہ یہ شاہی خاندان بہت ہی سفید پوش تھا۔ اس لئے یہ سب ”حواری”کے لقب سے مشہور ہو گئے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سفید پوش مچھیروں کی ایک جماعت تھی جو مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تم لوگ مچھلیوں کا شکار کرتے ہو اگر تم لوگ میری پیروی کرنے پر کمربستہ ہوجاؤ تو تم لوگ آدمیوں کا شکار کر کے ان کو حیات جاودانی سے سرفراز کرنے لگو گے۔ ان لوگوں نے آپ سے معجزہ طلب کیا تو اس وقت ”شمعون”نامی مچھلی کے شکاری نے دریا میں جال ڈال رکھا تھا مگر ساری رات گزر جانے کے باوجود ایک مچھلی بھی جال میں نہیں آئی تو آپ نے فرمایا کہ اب تم جال دریا میں ڈالو۔ چنانچہ جیسے ہی اس نے جال کو دریا میں ڈالا لمحہ بھر میں اتنی مچھلیاں جال میں پھنس گئیں کہ جال کو کشتی والے نہیں اٹھا سکے۔ چنانچہ دو کشتیوں کی مدد سے جال اٹھایا گیا اور دونوں کشتیاں مچھلیوں سے بھر گئیں۔ یہ معجزہ دیکھ کر دونوں کشتی والے جن کی تعداد بارہ تھی سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ ان ہی لوگوں کا لقب ”حواری” ہے۔
اور بعض علماء کا قول ہے کہ بارہ آدمی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان لوگوں کے ایمان کامل اور حسن نیت کی بناء پر ان لوگوں کو یہ کرامت مل گئی کہ جب بھی ان لوگوں کو بھوک لگتی تو یہ لوگ کہتے کہ یا روح اللہ! ہم کو بھوک لگی ہے، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر ہاتھ ماردیتے تو زمین سے دو روٹیاں نکل کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جایا کرتی تھیں اورجب یہ لوگ پیاس سے فریاد کیا کرتے تھے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام زمین پر ہاتھ مار دیا کرتے اور نہایت شیریں اور ٹھنڈا پانی ان لوگوں کو مل جایا کرتا تھا اسی طرح یہ لوگ کھاتے پیتے تھے۔ ایک دن ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ اے روح اللہ ! ہم مومنوں میں سب سے افضل کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے روزی حاصل کرکے دکھائے۔ یہ سن کر ان بارہ حضرات نے رزقِ حلال کے لئے دھوبی کا پیشہ اختیار کرلیا چونکہ یہ لوگ کپڑوں کو دھو کر سفید کرتے تھے اس لئے ”حواری”کے لقب سے پکارے جانے لگے۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے ایک رنگریز کے ہاں ملازم رکھوا دیا تھا۔ ایک دن رنگریز مختلف کپڑوں کو نشان لگا کر چند رنگوں کو رنگنے کے لئے آپ کے سپرد کر کے کہیں باہر چلا گیا۔ آپ نے ان سب کپڑوں کو ایک ہی رنگ کے برتن میں ڈال دیا۔ رنگریز نے گھبرا کر کہا کہ آپ نے سب کپڑوں کو ایک ہی رنگ کا کردیا۔ حالانکہ میں نے نشان لگا کر مختلف رنگوں کا رنگنے کے لئے کہہ دیا تھا ۔آپ نے فرمایا کہ اے کپڑو!تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہی رنگوں کے ہوجاؤ، جن رنگوں کا یہ چاہتا تھا۔ چنانچہ ایک ہی برتن میں سے لال، سبز، پیلا، جن جن کپڑوں کو رنگریز جس جس رنگ کا چاہتا تھا وہ کپڑا اسی رنگ کا ہو کر نکلنے لگا۔ آپ کا یہ معجزہ دیکھ کر تمام حاضرین جو سفید پوش تھے اور جن کی تعداد بارہ تھی، سب ایمان لائے یہی لوگ ”حواری”کہلانے لگے۔
حضرت امام قفال علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ ان بارہ حواریوں میں کچھ لوگ بادشاہ ہوں اور کچھ مچھیرے ہوں اور کچھ دھوبی ہوں اور کچھ رنگریز ہوں۔ چونکہ یہ سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص جاں نثار تھے اور ان لوگوں کے قلوب اور نیتیں صاف تھیں اس بناء پر ان بارہ پاکبازوں اور نیک نفسوں کو ”حواری” کا لقب معزز عطا کیا گیا۔ کیونکہ ”حواری”کے معنی مخلص دوست کے ہیں۔
    (تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱، ص ۲۴۔۴۲۳،پ۳، آل عمران:۵۲)
بہرحال قرآن مجید میں حواریوں کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوۡنَ نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوۡنَ ﴿52﴾ (پ3،آل عمران:52)
ترجمہ کنزالایمان:۔ پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف حواریوں نے کہا ہم دین خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔
دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:
وَ اِذْ اَوْحَیۡتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوۡا بِیۡ وَ بِرَسُوۡلِیۡ ۚ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَاشْہَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوۡنَ ﴿111﴾ (پ7،المائدۃ:111)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور جب میں نے حواریوں کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ بولے ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں۔
درسِ ہدایت:۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری اگرچہ تعداد میں صرف بارہ تھے مگر یہودیوں کے مقابلہ میں آپ کی نصرت و حمایت میں جس پامردی اور عزم و استقلال کے ساتھ ڈٹے رہے اس سے ہر مسلمان کو دین کے معاملہ میں ثابت قدمی کا سبق ملتا ہے۔
اس قسم کے مخلص احباب اور مخصوص جاں نثار اصحاب اللہ تعالیٰ ہر نبی کو عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ جنگ خندق کے دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہر نبی کے ”حواری” ہوئے ہیں اور میرے حواری ”زبیر” ہیں۔
 (مشکوٰۃالمصابیح،کتاب الفتن،باب مناقب العشرۃرضی اللہ عنہم،الفصل الاول،ص۵۶۵)
اور حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ قریش میں بارہ صحابہ کرام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ”حواری” ہیں جن کے نام نامی یہ ہیں۔
(۱)حضرت ابوبکر (۲)حضرت عمر (۳)حضرت عثمان (۴)حضرت علی (۵)حضرت حمزہ (۶)حضرت جعفر (۷) حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (۸)حضرت عثمان بن مظعون (۹)حضرت عبدالرحمن بن عوف (۱۰)حضرت سعد بن ابی وقاص (۱۱)حضرت طلحہ بن عبیداللہ (۱۲)حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ کہ ان مخلص جاں نثاروں نے ہر موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و حمایت کا بے مثال ریکارڈ قائم کردیا۔
     (تفسیر معالم التنزیل للبغوی،ج۱، ص ۲۳۶،پ۳، آل عمران:۵۲)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!