علما کا حق نہ پہچاننے والا میری امت سے نہیں
علما کا حق نہ پہچاننے والا میری امت سے نہیں
رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ و سلَّم کا فرمان ہے: لَیْسَ مِنْ اُ مَّتِیْ مَنْ لَمْ یُجِلَّ کَبِیْرَنَا وَیَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّہیعنی جو ہمارے بڑوں کا حق نہ پہچا نے ، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کر ے اورہمارے علما کا حق نہ پہچانے(یعنی ان کا احترام نہ کرے)وہ میری امت سے نہیں۔ (مسند احمد،مسند الانصار،۸/۴۱۲،حدیث:۲۲۸۱۹)
تین شخص ایسے ہیں جن کے حقوق کومنافق ہی ہلکا جانے گا
مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ و سلَّم نے
ارشاد فرمایا :تین شخص ایسے ہیں جن کے حقوق کومنافق ہی ہلکا جانے گا:(۱)جسے اسلام میں بڑھاپا آیا (۲)عالمِ دین اور (۳)انصاف پسند بادشاہ۔(المعجم الکبیر،۸/۲۰۲،حدیث:۷۸۱۹)
بادشاہی تو اِسے کہتے ہیں (حکایت)
خلیفہ ہارون رشید اپنے لشکر کے ساتھ شہر رِقَّہ میں پڑاؤ کئے ہوئے تھا، حضرت سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ بن مبارک رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کا وہاں سے گزر ہوا تو اس قدر ہجوم ہوا کہ لوگوں کی جوتیاں ٹوٹنے لگیں اور اُفق غبار آلود ہو گیا، خلیفہ کی ایک کنیز محل کے بُرج سے یہ عظیم الشان منظر دیکھ رہی تھی ، حیرانی کے عالم میں پوچھنے لگی: یہ کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ خراسان شہر کے عالم حضرت سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ بن مبارک رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ رِقَّہ تشریف لائے ہیں اوریہ تمام افراد ا ُن کے استقبال کے لئے جمع ہوئے ہیں ، یہ سن کر وہ کنیز بے ساختہ پکار اٹھی: اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی قسم! بادشاہی تواسے کہتے ہیں ، ہارون کی حکومت کیا ہے اس کے لئے تو لوگ حکومتی کارندوں کے دباؤ میں آ کر جمع ہوتے ہیں۔(تاریخ بغداد،۱۰/۱۵۵)
شُرَفا کی عزت اوراہلِ علم کی تعظیم وتوقیر کرنا
کروڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا، سِراجُ الْاُمّۃ،کاشِفُ الغُمَّۃ،امامِ اعظم،فَقیہِ اَفْخَم حضرت سیِّدُنا امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اپنے شاگردِ رشید امام ابو یوسف رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہ کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے
ہیں:تم ہر شخص کو اس کے مرتبے کے لحاظ سے عزت دینا، شُرَفاء کی عزت اوراہلِ علم کی تعظیم وتوقیر کرنا ، بڑوں کاادب واحترام اور چھوٹوں سے پیارومحبت کرنا، عام لوگو ں سے تعلق قائم کرنا،فاسق وفاجر کو ذلیل ورُسوا نہ کرنا، اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا، سلطان کی اِہانت کرنے سے بچنا، کسی کوبھی حقیر نہ سمجھنا، اپنے اخلاق و عادات میں کوتاہی نہ کرنا، کسی پر اپنا راز ظاہر نہ کرنا، بغیر آزمائے کسی کی صحبت پر بھروسہ نہ کرنا، کسی ذلیل وگھٹیاشخص کی تعریف نہ کرنااورکسی ایسی چیزسے محبت نہ کرنا جوتمہارے ظاہری حال کے خلاف ہو۔( امام اعظم کی وصیتیں،ص۲۷(
عالم کی عزت(حکایت)
خلیفۂ بغداد ہارون رشید نے ایک مرتبہ مشہورعالم حدیث حضرت سیِّدُنا ابو معاویہ محمد ضریر علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہ القدیر کی دعوت کی۔ وہ آنکھوں سے معذور تھے جب لوٹا اور چلمچی ہاتھ دھلانے کے لیے لائی گئی تو خلیفہ نے چلمچی تو خدمت گار کو دی اور خود لوٹا ہاتھ میں لے کرحضرت سیِّدُنا ابو معاویہ محمد ضریر علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہ القدیر کا ہاتھ دھلانے لگا اور کہا کہ اے ابو معاویہ ! آپ نے پہچانا کہ کون آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا ہے ؟ آپ نے فرمایا :نہیں، خلیفہ نے کہا: ہارون ! یہ سن کر ابو معاویہ کے دل سے یہ دعا نکلی کہ جیسی آپ نے علم کی عزت کی ایسی ہی اللّٰہ تعالٰی آپ کی عزت فرمائے، ہارون رشید نے کہا : ابو معاویہ ! بس آپ کی اسی دعا کو حاصل کرنے کے لئے میں نے یہ کیا تھا۔(ملفوظاتِ اعلی حضرت، ص۱۴۵)