بناتِ حوّاکے اوصاف کیاہوناچاہئے؟؟؟؟ غلام ربانی فداؔمدیرجہان نعت ہیرورکرناٹک(, email: [email protected]ایک صالح معاشرے کی تشکیل اور ملک و ملت کی تذہیب و تزئین کا انحصار مَردوں کے مقابلے صنفِ نازک پرزیادہ ہے۔ اگر خواتین میں تعلیم، تہذیب و تمدن، شائستگی، عمدہ ذوق، اچھے اخلاق و کردار،صوم و صلوٰۃ کی پابندی اور شریعت بیضا کی حفاظت و پاسبانی کے اوصاف بدرجہ تمام موجود ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ معاشرہ اور ملک مہذب و شائستہ نہ ہو۔ اور اس معاشرے میں خوش اخلاقی، تہذیب و تمدن، عمدہ نظامہائے حیات اور محبت و آشتی کے دریا رواں نہ ہوں۔ اس سوسائٹی اور ماحول میں کھلنے والے پھول اپنی اچھی اور پاکیزہ خوشبوؤں سے ایک عالم کو معطر نہ کرتے ہوں۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس خطے سے علم وہنر کے آبشار جاری نہ ہوتے ہوں، جہاں مہذب خواتین ایک پرامن اور بامقصد سوسائٹی کی تشکیل میں کوشاں ہوں۔ برخلاف اس کے اگر خواتین کے اوصاف صلاح و خیر سے برگشتہ اور درستگی سے دور رفتہ تو پھر کوئی بھی ذی ہوش اس معاشرے کو اچھا نہیں کہہ سکتا ہے۔بچہ جب آنکھ کھولتا او ردارِ فانی میں قدم رکھتا ہے تو وہ سب سے پہلے ماں ہی کو دیکھتا ہے۔ اس کی ابتدائی تعلیم و تربیت گاہ ماں کا گہوارہ ہی ہوتا ہے۔ اگر ماں اس کے سادہ دل پر اچھے اور عمدہ نقوش ثبت کرتی ہے تو وہی اس کی آنے والی زندگی میں اس کے لیے مشعلِ راہ ہوتی ہیں۔ اور اگر خود ماں ہی کے اوصاف درست و حَسن نہ ہوں تو پھر بچے کے سادہ ذہن پر چھپنے والی غلط تحریریں اس کی غلط روی کا باعث ہوں گی۔ اور اس طرح معاشرہ خیر کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔عورتوں سے متعلق اُمور میں ضروری ہے کہ جہاں ہم ان کو باادب اور صوم و صلوٰۃ کی پابند بنائیں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ان کو لباس، پردہ، حجاب، سترپوشی اور زیب و زینت کے اسلامی طریقے بھی سکھائیں اور ساتھ ہی انہیں بے پردگی، بے جا زیب و زینت، تصنع و دکھاوا او ربداخلاقی سے بھی بچائیں۔ ایک مہذب مسلم خاتون میں درج ذیل اُمور ملحوظ ہونے چاہئیں۔تکبر و تعلّی: موجودہ زمانے میں خواتینِ اسلام کے اندر ایک عام وبا غرور و تکبر کی شکل میں پھیل رہی ہے۔ اسلامی تعلیم اور اسلامی ماحول کی کمی کے باعث وہ خود کو اپنے شوہر اور ان کے خاندان سے اعلیٰ اور ممتاز سمجھتی ہیں۔ وقت بے وقت سسرال والوں کو اپنے میکے والوں کی دولت کی دھاک جماکر نیچا دکھانا کچھ خواتین کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ باپ اور بھائی کی دولت کے نشے میں مخمور خواتین اپنے متوسط شوہر کوا پنا غلام اور خادم سمجھ کر اُس پر اپنا حکم چلانا چاہتی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس طرح کا رویہ ایک اچھے خاصے گھرانے کو جہنم بنادیتا ہے۔اللہ رب العزت قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے ’’الرجال قوامون علی النساء‘‘ (ترجمہ: مرد عورتوں پر حاکم ہیں) یہ آیت مبارکہ واضح طور پر دلالت کررہی ہے کہ مرد ہی عورت پہ حاکم ہوں گے۔ باپ کی دولت کا خمار اپنے میکے ہی چھوڑ کر آئیں ورنہ ان کی زندگی تاریکیوں میں گم ہوجائے گی۔ مغرب و امریکہ کی وہ خواتین جو فطرت سے انحراف کرتے ہوئے مَردوں کے شانہ بشانہ چلنے اور ان سے مقابلہ آرائی کی کوشش کررہی ہیں۔ ان کی ازدواجی زندگی ناکامیوں سے عبارت ہے۔ناشکری: بعض خواتین میں ناشکری کا جذبہ عام ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں بلکہ اپنے والدین اور شوہر کی بھی شکر گزار نہیں ہوتیں۔ رسولِ اعظم ﷺ نے خواتین کو بار بار شکر گزاری کی تلقین کی اور فرمایا کہ میں تمہاری اکثریت دوزخ میں دیکھتا ہوں۔ اُن سے معلوم کیا گیا اس کا کیا سبب ہے؟ تو فرمایا تم کثر ت سے لعنت کرتی ہو اور اپنے والدین، بھائیوں اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ (روایات بخاری و مسلم)ہماری خواتین کو اللہ پاک کا شکرادا کرنا چاہیے کہ ہمیں ایسا دین ملا جس میں عورتوں کی بہت عزت، و قار ہے اور ان کے حقوق بھی وضع کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنے والدین، شوہروں اور پرورش کرنے والوں کی بھی مشکور ہوں۔ شکر گزاری سے نعمتیں بڑھتی ہیں اور ناشکری سے کم ہوتی ہیں۔ شکر گزاری کا مطلب یہ نہیں کہ زبان سے کہہ دیا مولیٰ تیرا شکر ہے اور ہر گناہ اور نافرمانی کو روارکھا جائے۔ بلکہ شکر گزاری تو یہ ہے کہ مکمل طو رسے نافرمانی سے بچاجائے اور احکامِ خداوندی کو بجالایا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری بہنوں اور ماؤں کو ہر گناہ اور شر سے بچائے اور نیکی کی توفیق بخشے ۔( آمین)زینت میں غلو اور اسراف: خواتین کو زینت وبناؤ سنگھارکی اجازت دی گئی ہے، البتہ زینت اختیار کرنے اور بظاہر خوب صورت بننے کے لیے حد سے بڑھنا کہ اللہ پاک کی دی ہوئی ساخت یا بناوٹ میں تبدیلی اور مال کا اسراف ہو۔ اسے اسلام نے مذموم فعل قراردیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک عورت گدنا گدواتی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوںکہ گدنے گدوانے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کسی نے سنا ہے تواُٹھ کر بیان کرے۔ میں کھڑا ہوا اور کہا: اے امیرالمؤمنین! میں نے سنا ہے ۔ فرمایا: تم نے کیا سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: نہ خود گودیں اور نہ دوسروں سے۔‘‘ (بحوالہ: نزھۃ القاری)اسی طرح دانتوں کو نوکدار بنانے والے اور بنانے والیوں پر لعنت ہے۔ دِکھا وے کے لیے دانتوں کے درمیان درزیں نہ بنائی جائیں۔ امام بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بظاہر خوب صورتی یا فیشن کے لیے دانتوں کے درمیان درزیں بنانے والوں پر لعنت کی۔ مذکورہ بالا صحیح احادیث پاک کی روشنی میں دکھاوے کے لیے بناوٹی خوب صورتی یا قدرتی وضع میں تبدیلی کی غر ض سے کیے جانے والے عملِ جراحی یا پلاسٹک جراحی کی ممانعت بھی واضح ہوتی ہے۔ البتہ کسی شخص کے جسم میں کوئی عیب ہے۔ اعضا کی کمی یا خرابی ہے تو اسے علاج کرانا اور اعضا کو فطری انداز پر لانے کے لیے عملِ جراحی وغیرہ کرانا منع نہیں ہے۔ستر و حجاب: خواتین کے ستر و حجاب کے احکام خاص ہیں جو ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے۔ بے علمی اور غفلت کے باعث عورتوں کے لیے بے پردگی، عریانیت اورنا محرموں کے سامنے اور بازاروں میں کھلے عام گھومنا عام ہوتا جارہا ہے۔ یہ ایک طرف گناہ اور دوسری طرف بے راہ روی اور فساد کا باعث ہورہا ہے۔ جسے دورِ جدید کے تقاضے اور فیشن سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یہ سراسر گمراہی اور دین سے بغاوت کے مترادف ہے۔ عورت کا ستر اجنبی مرد اور غیر مسلم عورتوں کے تعلق سے اس کا پورا جسم ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ معاملات، لین دین کی ضرورتوں کے پیشِ نظر چہرے اور ہاتھوں کا کھولنا جائز ہے۔ لیکن اس فتنے کے دور میںا س کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جیسا کہ قرآن کی یہ آیت اس کی دلیل ہے۔ ترجمہ: اے نبی! اپنی بی بیوں، صاحب زادیوں اور مسلم عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادر کاایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔ یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (کنز الایمان، سورۂ احزاب)یہاں حکم ظاہر ہے کہ عورتیں نامحرموں کے سامنے آنے سے قبل اچھی طرح چادر اوڑھ یا لپیٹ لیا کریں اور ان کا ایک حصہ یا پلّو اپنے چہرے کے اوپر لٹکالیا کریں۔ یہ ہی اکثر مفسرین نے لکھا ہے۔ عہدِ صحابہ و تابعین اوران کے بعد جتنے مفسرین تاریخِ اسلام میں گزرے انہوںنے بالاتفاق اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے ۔لہٰذا ایک خاتون جس کا نام عائشہ یا فاطمہ ہو اور بے پردہ نامحرموں سے ملے جلے تو وہ دین کا مذاق اُڑارہی ہے۔جن پاک ہستیوں کے ناموں سے ان کی نسبت ہے ان کا بھی احترام نہ رہا، البتہ گھر کے اندر محرموں کے سامنے چہرہ ہاتھ اور پاؤں کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔ ٭٭آسمان سے نورحضرت امام عبد اللہ بن مبارک کا ایک مکاتب غلام روزانہ ایک درہم ادا کیا کرتا تھا۔ اسی دوران میں کسی شخص نے حضرت امام عبداللہ بن مبارک سے شکایت کی کہ ’’آپ کا غلام رات کو کوئی قبر کھود لیتا اور مُردوں کا کفن اُتارکر فروخت کرکے روزانہ ایک درہم آپ کو ادا کرتا ہے۔‘‘ یہ بات سُن کر حضرت امام عبد اللہ بن مبارک بہت رنجیدہ ہوئے اور اپنے دل میں یہ طے کیا کہ ’’آج رات کو اس بات کی تصدیق کروں گا۔‘‘ جب رات کا اکثر حصہ گزرگیا اور غلام حسبِ معمول گھر سے روانہ ہوا تو اس کے پیچھے پیچھے حضرت امام عبد اللہ بن مبارک بھی روانہ ہوگئے۔ کچھ دیر بعد وہ غلام ایک قبرستان میں داخل ہوکر ایک قبر کھود نے لگا۔ جب قبر تیار ہوگئی تو وہ غلام اس قبر میں پوشیدہ ہوگیا، حضرت امام عبد اللہ بن مبارک نے قبر کے اوپر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس نے قبر میں ایک محراب بنا رکھی ہے اور وہ اون کا جبہ پہنے ہوئے نماز میں مشغول ہے، جب صبح صادق ہوگئی تو غلام نے قبر سے باہر آکر قبر کو برابر کیا اور آسمان کی طرف نگاہ اُٹھاکر دعا مانگنے لگا۔’’ یا علام الغیوب والخفیات انت اعلم بحالی یامن لایخفی علیہ خانیۃ یامسبب الاسباب ، یا کنز المقلین قداصبح الصبح و مولائی یرید منی الدرھم یا ذخرمن الاذخر‘‘ حضرت امام عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ ابھی اس کی دعا ختم نہ ہوئی تھی کہ آسمان سے ایک نور اُترا اور اس غلام کے ہاتھ میں ایک درہم آگیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر مجھ سے رہانہ گیا۔ میں نے اس غلام کو اپنے سینے سے لگایااور اس کے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا ۔ غلام یہ کیفیت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوا ۔ آسمان کی طرف منہ اُٹھاکر کہنے لگا یا اللہ! آج میرا پردہ فاش ہوگیا ہے، بس مجھے اپنے پاس بلالے۔ اب مجھے دنیا میں اور رہنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ غلام کی یہ دعا ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ اس واقعے کا حضرت امام عبد اللہ بن مبارک کے دل پر بڑا اثر ہوا۔ کفن و دفن سے فارغ ہوئے۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ ایک براق پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور حضرت رسول اللہ ﷺ سوار ہیں اور مجھ سے فرمارہے ہیں تم نے اللہ تعالیٰ کے ایک ولی کو ایسی عبا کا کفن کیوں دیا۔ (مفہوم)
Post Views: 714