نافرمان اللہ عزَّوَجَلَّ کاولی بن گیا:
حضرت سیِّدُنا مالک بن دینا ر علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں کہ میرا ایک انتہائی شریر پڑوسی تھااس کی شکایت لے کراہلِ محلہ میرے پاس آئے تاکہ میں اسے سمجھاؤں۔ جب میں اس کے پاس گیا اوراس سے کہا:” تیری نافرمانیاں زیادہ ہو گئی ہیں یا تو توبہ کر لے یا پھراس محلے سے چلا جا ۔”توا س نے جواب دیا:”میں اپنے ملک میں ہی رہوں گااور یہاں سے نہیں نکلوں گا۔”میں نے کہا: ”ہم حاکمِ وقت سے تیری شکایت کریں گے ؟”تووہ کہنے لگا: ”میری اس سے دوستی ہے ۔” تو میں نے کہا:”ہم تیرے خلاف اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا کریں گے۔”یہ سن کراس نے کہا: ”میرا رب عَزَّوَجَلَّ تم سے زیادہ مجھ پررحم فرمانے والا ہے۔” پھر وہ میرے پاس سے اُٹھ کھڑا ہوا۔میں نے رات سحری کے وقت اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیئے اور عرض گزار ہوا: اے میرے مالکِ حقیقی!فلاں شخص نے ہمیں تکلیف دی ہے لہٰذا تو اسے اس کی سزا دے۔”توہاتف ِ غیبی نے پکار کر کہا: ”اسے بد دعا نہ دے کیونکہ یہ ہمارے اولیاء میں سے ہے۔”میں اسی وقت اُٹھا اورجا کر اس کے دروازے پردستک دی۔ جب وہ شخص باہر آیا تو سمجھا کہ شاید میں اسے محلہ سے نکالنے آیا ہوں تو وہ رونے لگا اور معذرت کرتے ہوئے کہنے لگا:”اے میرے محترم! میں نے آپ کی بات مان لی ہے اور اب میں اس محلہ سے نکل جاؤں گا ۔”تومیں نے کہا: ”میں اس لئے نہیں آیا بلکہ
یہ بتانے آیاہوں کہ جب میں نے اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں تمہارے خلاف دعاکے لئے ہاتھ اٹھائے تو ایک پکارنے والے نے نِدا دی : ”اسے بد دعا نہ دے کیونکہ یہ ہمارے اولیا ء میں سے ہے۔” جب اس نے یہ سنا تو بہت رویا اور سچے دل سے تائب ہو گیا۔ لوگ اس کی زیارت کرنے اور اس سے برکت حاصل کرنے کے لئے کثرت سے جمع ہونے شروع ہوگئے۔ پھروہ پیدل مکۂ مکرمہ زادھا اللہ تعالٰی شرفًا وتکریمًاچلاگیا اور وہیں مقیم ہو گیا۔اگلے سال میں نے حج کیا۔ ظہرکے وقت مسجد ِ حرام کی دیوار کے سائے میں بیٹھا تھا کہ میں نے مسجد کے کونے میں ایک گروہ دیکھا۔ میں کھڑاہوا اور دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے گرد جمع ہیں۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو میرا وہی پڑوسی تھا۔وہ مِٹی پرلیٹا ہوالمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔ میں اس کے سر کے قریب بیٹھ کر رونے لگا۔اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اورمجھے دیکھ کر کہنے لگا:”اے مالک (علیہ رحمۃ اللہ الخالق)! دیکھو! وہ رب عَزَّوَجَلَّ برائیوں سے درگزر کرتاہے اور آنسو بہانے والوں پر رحم فرماتاہے۔میں اس محلہ سے نکلا اور تجھ سے حیاء کرتے ہوئے اپنے وطن اورگھر والوں کو چھوڑ دیاحالانکہ توبھی میری طرح مخلوق ہے،(مگرمیں نے خالق عَزَّوَجَلَّ سے حیا نہ کی تو) میں کل بروزِ قیامت اس کی بارگاہ میں کیسے کھڑا ہوں گا؟ پھر اس نے ایک آہِ سرددلِ پُردَرد سے کھینچی اوراس کے ساتھ ہی اس کا طائر ِ روح قَفَسِ عُنْصُری سے پرواز کر گیا۔
حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہیں کہ ”میں ایک سال بیت اللہ شریف کے سفر پر تھا۔ راستے میں ایک شخص کی انتہائی پُرسوز آواز سنائی دی۔میں جلدی سے اس کی طرف گیا اورجاکراسے سلام کیا۔ اس نے میرانام لے کر مجھے جواب دیاتو میں نے اس سے پوچھا:”اے میرے دوست!آپ کو میر انام کس نے بتایا؟”اس نے جواب دیا:”عالَمِ ملکوت میں میری اور آپ کی روح کی ملاقات ہوئی تھی لہٰذا مجھے آپ کا نام ہمیشہ رہنے والی اس ذات نے بتایا جس کو موت نہیں ۔”پھراس نے کہا: ”اے جنید (رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ )! جب میں مر جاؤں تو مجھے غسل دینااور انہیں کپڑوں میں کفن دے کراس ٹیلے پرچڑھ کر اعلان کرنا: ”اَلصَّلَاۃُ عَلَی الْغَرِیْبِ یَرْحَمُکُمُ اللہ یعنی اے لوگو!اللہ عزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرمائے، اس اجنبی اور غریب الدیار کی نماز جنازہ پڑھ لو۔” اس کے بعد اس نوجوان کی پیشانی پر پسینہ آگیا،وہ زار وقطار روکرکہنے لگا:”آپ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! جب حج کرکے واپس پلٹو تو بغداد ضرور جانااور زعفرانی کے گھر کے متعلق دریافت کرکے میری ماں اور میرے بیٹے کے متعلق پوچھنا اور پھر انہیں کہناکہ ”تمہیں ایک ایسے مسافر نے سلام بھیجاہے جس کو نہ تواس کے گھر پہنچایا گیا اور نہ ہی تمہارے پاس چھوڑا گیا۔” اس کے بعدوہ نوجوان اس دنیا سے کوچ کر گیا۔
حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہیں کہ” میں نے اس کو غسل و کفن دے کر ا س ٹیلے پر چڑھ کر جب یہ اعلان کیا: ”اَلصَّلَاۃُ عَلَی الْغَرِیْبِ یَرْحَمُکُمُ اللہ” تو میں نے دیکھا کہ ایک جماعت پہاڑوں سے آرہی ہے، ہم سب نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھ کر اسے دفن کر دیا۔ میں نے حج ادا کرنے کے بعدبغداد جاکرجب زعفرانی کے گھر سے متعلق دریافت کیا تومجھے
جو راستہ بتایا گیا تھامیں نے اس پر چند بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا، اُن میں سے ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اے میرے بزرگ! شاید آپ ہمارے والد کی موت کی خبر دینے آئے ہیں۔”حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہیں: مجھے اس بچے کے کلام سے بڑا تعجب ہوا، اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر جاکر دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک بوڑھی عورت باہر آئی اور کہنے لگی: ”اے جنید (ر حمۃاللہ تعالیٰ علیہ )! میرے بیٹے کا انتقال کہاں ہوا؟ شاید عرفہ میں۔”تومیں نے کہا : ”نہیں۔”یہ سن کر کہنے لگی : ”تو پھرشایدکسی وادی میں درخت کے نیچے یاکسی جنگل میں۔” تومیں نے کہا: ”جی ہاں ۔”تو بولی: ”ہائے افسوس اس لڑکے پر! جسے نہ تو اس کے گھر پہنچایا گیا اور نہ ہمارے پاس چھوڑا گیا۔”پھر اس کے منہ سے ایک آہ نکلی اور اس نے چنداشعار پڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے:
”کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ زمانے نے مجھ پر کیسے کیسے ستم ڈھائے اورجدائی کے تیر مارے اور میرے دوست، احباب کو مجھ سے دور کر دیا۔وہ سب میرے دل میں معزز مقام و مرتبہ رکھتے تھے ۔اُن کی جدائی کے بعد میں نے خود کو بڑا مجبور وبیکس پایا کہ میرے دل کے راز چھپانے کے سارے اصول بھی ختم ہو گئے۔جس دن وہ مجھ سے جدا ہوئے تھے اس دن میری آنکھ نے خون کے آنسوبہائے اور ان کی جدائی نے مجھے سخت دل نہ بنایا تو لوگوں نے گہراسانس لے کر کہا: ”اے نوجوان!تو اپنی آنکھوں کی پَلکوں کو رورو کر وَرَم آلود بنا رہا ہے۔ تو پہلا انسان نہیں کہ جس کے احباب اس سے بچھڑ گئے اور جو حوادثاتِ زمانہ کا شکار ہوا۔ زمانہ ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا بلکہ اس میں خوشی، غمی آتی رہتی ہے۔”
پھراس نے ایک زور دار چیخ ماری اوراپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔