islam
کبيرہ نمبر103: جمعہ کے دن لوگوں کی گردنيں پھلانگنا
(1)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنيں پھلانگيں اس نے جہنم کے لئے پل بنا ليا۔”
( جامع الترمذی ، ابواب الجمعۃ ، باب فی کراھیۃ التخطی یوم الجمعۃ ، الحدیث ۵۱۳،ص ۱۶۹۵)
(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روايت کرتے ہيں کہ” سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے کہ ايک شخص لوگوں کی گردنيں پھلانگتا ہوا آيا اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قريب آ کر بيٹھ گيا، پھر جب نبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نماز پڑھا چکے تو ارشاد فرمايا :”اے فلاں! تجھے ہماری جماعت ميں سے ہونے سے کس چيز نے منع کيا ؟”اس نے عرض کی: ”يارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ميں نے چاہا کہ ميں اس جگہ بيٹھوں جو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نگاہ میں ہو۔” تو سرکار ابد قرار، شافع روز شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”ميں نے تمہيں لوگوں کی گردنيں پھلانگتے اور انہيں ايذاء پہنچاتے ہوئے ديکھا، جس نے کسی مسلمان کو ايذاء دی اس نے مجھے ايذاء دی اور جس نے مجھے ايذاء دی اس نے اللہ عزوجل کو ايذاء دی۔”
(المعجم الاوسط ، الحدیث:۳۶۰۷ ،ج۲،ص۳۸۷)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(3)۔۔۔۔۔۔شاہ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو شخص جمعہ کے دن لوگوں کی گردنيں پھلانگتا ہے اورامام کے (خطبہ دینے کے لئے ) نکلنے کے بعد دو افراد کو درمیان سے چیرتا (یعنی الگ کر دیتا) ہے، وہ اپنی انتڑياں آگ ميں ڈالنے والے کی طرح ہے۔”
(المسند للامام احمد بن حنبل ،الحدیث:۱۵۴۴۷ ،ج۵ ،ص۲۶۳)
محدثين کرام عليہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہيں :”اس حکم کو جمعہ کے ساتھ خاص کرنا غلبہ کے اعتبار سے ہے کيونکہ زيادہ تر يہ کام جمعہ کے دن ہوتے ہيں۔”
(4)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عبد اللہ بن بسررضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ رسول انور، صاحب کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ايک شخص لوگوں کی گردنيں پھلانگتا ہوا آيا، توحضور نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے تنبیہ فرماتے ہوئے اُسے ارشاد فرمايا :”بيٹھ جا، تو نے بہت ايذاء دی۔”
( سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب تخطی رقاب النا س۔۔۔۔۔۔ الخ ،الحدیث:۱۱۱۸،ص۱۳۰۵)
(5)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے :”تو نے ايذاء دی اور ايذاء پائی۔”
(صحیح ابن خزیمۃ ،کتاب الجمعۃ،باب النہی عن تخطی الناس،الحدیث:۱۸۱۱،ج۳،ص۱۵۶)
(6)۔۔۔۔۔۔اور ايک روايت ميں ہے کہ”بيٹھ جا ! تو دير سے آيا ہے۔”
( سنن ابن ماجۃ ،ابواب اقامۃ الصلوات،باب ماجاء فی النھی عن تخطی۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث:۱۱۱۵، ص۲۵۴۲)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تنبیہ:
اس گناہ کوکبيرہ گناہوں ميں بعض متاخرين علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی پيروی کرتے ہوئے شمار کيا گيا ہے، شايد علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کے کبيرہ ہونے کی دليل انہيں احادیثِ مبارکہ سے حاصل کی ہے، ان کا استدلال اگرچہ حقيقت سے قريب ہے مگر ہمارے نزديک صحيح قول کے مطابق يہ عمل مکروہِ تنزيہی ہے ۱؎، ہمارے مؤقف اور ان احادیثِ مبارکہ ميں تطبيق کی صورت يہ ہے کہ ان احادیثِ مبارکہ کو اس شخص پر محمول کيا جائے جو عرف کے اعتبار سے لوگوں کو سخت ايذاء ديتا ہو اور ايذاء کم ہو تو اسے کراہتِ تنزيہہ پر محمول کيا جائے اور عنقريب ايک ايسی روايت بيان کی جائے گی جس ميں حلقہ کے وسط ميں بيٹھنے کا بيان ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۱؎ :احناف کے نزدیک:”جمعہ کے دن مقتدی کا امام سے قریب ہونا افضل ہے مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے لئے لوگوں کی گردنیں پھلانگے البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جا سکتا ہے اور خطبہ شروع ہونے کے بعد آیا تو مسجد کے کنارے ہی بیٹھ جائے۔”
(بہارِ شریعت، ج۱، حصہ ۴، ص۵۵)