Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کبيرہ نمبر135: صدقہ دے کراحسان جتانا

   اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿262﴾قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُہَاۤ اَذًی ؕ وَاللہُ غَنِیٌّ حَلِیۡمٌ ﴿263﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبْطِلُوۡا
ترجمۂ کنز الايمان:وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ ميں خرچ کرتے ہيں پھر دیے پيچھے نہ احسان رکھيں نہ تکليف ديں ان کا نيگ(انعام)ان کے رب کے پاس ہے اورانہيں نہ کچھ انديشہ ہو نہ کچھ غم اچھی بات کہنا اوردرگزر کرنا اس خيرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو اور اللہ بے پرواہ حلم والا ہے اے ايمان والو صَدَقٰتِکُمۡ بِالْمَنِّ وَالۡاَذٰی ۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیۡہِ تُرَابٌ
اپنے صدقے باطل نہ کر دواحسان رکھ کر اور ايذا دے کر اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور اللہ اور قيامت پر ايمان نہ لائے تو اس کی کہاوت ايسی ہے جيسے ايک چٹان کہ اس پر مٹی ہے۔(پ3، البقرۃ:262تا264)
(1)۔۔۔۔۔۔سرکار ابدِ قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”اچھائی جتلانے سے بچتے رہو کيونکہ يہ شکر کو باطل کر ديتا ہے اور اجر کو مٹا ديتا ہے۔” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے سورهٔ بقرہ کی یہ آيت مبارکہ تلاوت فرمائی: ” یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبْطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالْمَنِّ وَالۡاَذٰی ۙ ”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(تفسیرقرطبی،سورۃ البقرۃ، تحت الآیۃ:264،ج2،ص236)
    پہلی آيت مبارکہ ميں اللہ عزوجل نے يہ بات بيان فرمائی :”جو شخص کسی نيک کام ميں کچھ خرچ کرتا ہے وہ اپنی جان اور اہل وعيال پر خرچ کرنے والے کی طرح ہے۔” اور دوسری آيت کریمہ ميں يہ بيان فرمايا :”جو شخص کسی قسم کا کوئی صدقہ کرے تو اللہ عزوجل نے صدقہ کرنے والوں کے لئے جو عظيم ثواب تیار کر رکھا ہے اس کو پانے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنے صدقہ کو مذکورہ آیاتِ کریمہ کے مطابق اللہ عزوجل، اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور مؤمنين پر احسان جتلانے سے سلامت رکھے۔
    سیدنا قفال رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا :” احسان نہ جتانا کبھی شرط ہوتا ہے اور يہ بات خود پر خرچ کرنے والے ميں بھی معتبر ہے جيسے کوئی شخص اللہ عزوجل کی رضاکے لئے نبئ کریم ، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی معيت ميں جہاد کے دوران خود پر خرچ کرے اور اس کی وجہ سے نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور مؤمنين پر احسان نہ جتائے اور نہ ہی اس قسم کی باتوں سے کسی مؤمن کو ايذاء دے کہ اگر ميں حاضر نہ ہوتا تو يہ کام پورا نہ ہوتا يا کسی سے يہ نہ کہے کہ تم توکمزور ہو جہاد ميں تمہاری وجہ سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔”
    اِحسان جتانے سے مراد یہ ہے :”لينے والے کو اپنے احسان گنوانا يا ايسے شخص کے سامنے اس احسان کا تذکرہ کرنا جس کا آگاہ ہونا صدقہ لينے والے کو ناپسند ہو۔” ايک قول يہ ہے :”انسان احسان کی وجہ سے خود کو اس شخص سے افضل سمجھے جس پر صدقہ کيا جا رہا ہے۔” اس لئے اسے چاہے کہ نہ تو ا سے دعا کے لئے کہے اور نہ اس کی طمع رکھے، کيونکہ يہ بعض اوقات اس کے احسان کا عوض ہو جاتی ہے اس طرح اس کا اَجرسا قط ہو جاتا ہے۔
    من ّ يعنی احسان جتانے کی اصل قطع کرنا(یعنی جڑکاٹنا)ہے،اسی لئے اس کا اطلاق نعمت پر ہوتا ہے کيونکہ دينے والا اپنے مال ميں اس کے لئے حصہ کاٹتا ہے جس کو مال دياجارہاہے اور ”المنَّۃُ” نعمت یابڑی نعمت کوکہتے ہيں،اسی لئے اللہ عزوجل نے اسے”مَنَّان”يعنی”مُنْعِم ”کے لفظ سے متصف فرماياہے اورمندرجہ ذیل آیتِ مبارکہ،


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وَ اِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیۡرَ مَمْنُوۡنٍ ۚ﴿3﴾
ترجمہ کنزالايمان:اور ضرور تمہارے لئے بے انتہا ثواب ہے۔(پ29،القلم:3)
بھی اسی سے ہے۔”مَمْنُوْن ” کامعنی ہے نہ ختم ہونے والااور موت کو”منون”اس لئے کہتے ہيں کہ يہ زندگی کو کاٹ ديتی ہے جبکہ اَذٰی سے مراد کسی کو جھڑکنا،عار دلانا يا گالی ديناہے، يہ بھی احسان جتانے کی طرح اجر و ثواب کو ساقط کر ديتا ہے جيساکہ اللہ عزوجل نے ان آيات ميں بيان فرماياہے۔
    احسان جتانااللہ عزوجل کی اعلیٰ صفات جبکہ ہماری مذموم صفات ميں سے ہے کيونکہ اللہ عزوجل کااحسان جتانامہربانی ہے اور مخلوق کو اس کا واجب کردہ شکر ادا کرنے کی ياد دہانی ہے جبکہ ہمارا احسان جتانا عار دلاناہوتا ہے کيونکہ صدقہ لينے والا مثال کے طور پر غير کا محتاج ہونے کی وجہ سے شِکستہ دل ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ کے اوپر ہونے کا اعتراف کرتا ہے، لہٰذا جب دينے والا اپنی نعمت کا اظہار کرے يا برتری جتائے يا اس احسان کے عوض کوئی خدمت ياشکر کا مطالبہ کرے تو يہ چيز لينے والے کے نقصان، شِکستہ دلی، عار محسوس کرنے اور دل کے ٹوٹنے ميں اضافہ کرتی ہے جو کہ عظيم قباحتيں ہيں کیونکہ اس میں احسان جتانے والے کے لئے ملکیت، فضل اور اس مالکِ حقیقی عزوجل سے غفلت پائی جاتی ہے جو کہ عطا فرما کر خوش ہوتا ہے اور اس عطا وبخشش پر سب سے بڑھ کرقادر ہے۔
    لہٰذا اللہ عزوجل کی بارگاہ کو پیشِ نظر رکھنا اور اس کا شکر ادا کرتے رہنا واجب ہے نیز اللہ عزوجل کے فضل و جود ميں اس سے جھگڑنے کی طرف لے جانے والی چيزوں سے بچنا بھی واجب ہے کيونکہ احسان وہی جتاتا ہے جو اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل ہی عطا کرنے والا اور فضل فرمانے والا ہے۔
    حضرت عبد الرحمٰن بن زيد بن اسلم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں کہ ميرے والد گرامی فرمايا کرتے تھے :”جب تم کسی شخص کو کوئی چيز دو اور ديکھو کہ تمہارا سلام کرنا اس پر گراں گزرتا ہے مثلاً وہ تمہارے احسان کی وجہ سے تمہارے لئے کھڑا ہونے کا تکلُّف کرتا ہے تو اسے سلام کرنے سے رُک جاؤ۔”
    سیدناامام ابن سيرين علیہ رحمۃاللہ المبین نے ايک شخص کو سنا کہ وہ دوسرے سے کہہ رہا تھا :”ميں نے تيرے ساتھ بھلائی کی اور يہ کيا، وہ کيا۔” تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس شخص سے فرمايا:”خاموش ہو جاؤ، جب نيکی کو شمار کیا جائے تو اس ميں کوئی بھلائی نہيں رہتی۔”  (تفسیرقرطبی،سورۃ البقرۃ تحت الآیۃ:۲۶۴،ج۲،ص۲۳۶)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل قيامت کے دن تين شخصوں سے نہ کلام فرمائے گا، نہ ان پر نظرِ رحمت فرمائے گا اور نہ ہی انہيں پاک کریگا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا۔” راوی کہتے ہيں کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے يہ بات 3مرتبہ ارشادفرمائی تو ميں نے عرض کی،”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ذليل و رسوا ہونے والے وہ لوگ کون ہيں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”(۱)کپڑا لٹکانے والا (۲)احسان جتانے والا اور (۳)جھوٹی قسم اٹھا کر مال بيچنے والا۔”
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۹۳،ص۶۹۶)
(3)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے :”وہ احسان جتانے والا جو احسان جتائے بغير کچھ نہيں ديتا۔”
(المرجع السابق،الحدیث:۲۹۴،ص۶۹۶)
(4)۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسری روايت ميں ہے”اپنا تہبند لٹکانے والا۔”
  (المرجع السابق،الحدیث:۲۹۴،ص۶۹۶)
(5)۔۔۔۔۔۔نبئ کريم،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اللہ عزوجل قيامت کے دن 4افراد پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا: (۱)اپنے والدين کا نافرمان(۲)مردوں سے مشابہت اختيار کرنے والی مردانی عورت (۳) شراب کا عا دی اور (۴)تقدير کا منکر۔”
      (المعجم الکبیر، الحدیث: ۷۹۳۸،ج۸،ص۲۴۰)
(6)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شفيعِ معظم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”احسان جتانے والا، والدين کا نافرمان اور شراب کا عادی جنت ميں داخل نہيں ہو گا۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(سنن النسائی ، کتاب الاشربۃ، باب الروایۃ فی المدمنین فی الخمر،الحدیث: ۵۶۷۵،ص۲۴۴۹)
(7)۔۔۔۔۔۔حضور نبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اللہ عزوجل قيامت کے دن 3افراد پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا: (۱)احسان جتلانے والا (۲)اپنا تہبند لٹکانے والا اور (۳) شراب کا عادی ۔”
(المعجم الکبیر، الحدیث: ۱۳۴۴۲،ج۱۲،ص۲۹۸)
(8)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل قيامت کے دن3افراد پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا: (۱)اپنے والدين کا نافرمان (۲) مردوں سے مشابہت اختيار کرنے والی مردانی عورت اور (۳)ديوث۔اور تين افراد جنت ميں داخل نہ ہوں گے: (۱)والدين کا نافرمان (۲) شراب کا عا دی اور (۳)دے کر احسان جتانے والا۔”
   (سنن النسائی،کتاب الزکاۃ،باب المنان بمااعطیٰ،الحدیث:۲۵۶۳،ص۲۲۵۳)
(9)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل قيامت کے دن 3افراد سے نہ کلام فرمائے گا، نہ ان پر نظرِ رحمت فرمائے گا اور نہ ہی انہيں پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا: (۱)تہبند لٹکانے والا(۲)احسان جتانے والا وہ شخص جو احسان جتائے بغير کچھ نہيں ديتا اور (۳)جھوٹی قسم اٹھا کر اپنا سودا بيچنے والا۔”
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۹۴۔۲۹۳،ص۶۹۶)
(10)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل قيامت کے دن 3افراد کی نہ فرض عبادت قبول فرمائے گا اور نہ ہی نفل: (۱)والدين کا نافرمان، (۲)احسان جتانے والا اور (۳)تقدير کا منکر۔”
(المعجم الکبیر، الحدیث: ۷۵۴۷،ج۸،ص۱۱۹)
(11)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے کہ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”3افراد کو جہنم سے نہ بچايا جائے گا: (۱)احسان جتانے والا (۲)والدين کا نافرمان اور (۳) شراب کا عا دی ۔” (کنزالعمال،کتاب المواعظ والرقائق،الحدیث:۴۳۷۹۸،ج۱۶،ص۱۴)
(12)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مکَّار، فريبی، بخيل اور احسان جتانے والا جنت ميں داخل نہ ہو گا۔”
    (المسندللامام احمد بن حنبل،مسند ابی بکر الصدیق، الحدیث: ۳۲،ج۱،ص۲۷)
(13)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المُبلِّغین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”5افراد جنت ميں داخل نہ ہوں گے: (۱) شراب کا عادی (۲)جادو کرنے والا (۳)قطع رحمی کرنے والا (۴)کاہن اور (۵)احسان جتلانے والا۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند ابی سعید الخدری، الحدیث:۱۱۱۰۷،ج۴،ص۳۰)

تنبیہ:

    مذکورہ گناہ کو کبائر ميں شمار کرنے کی ايک جماعت نے تصريح کی ہے اور يہ ان احادیثِ پاک ميں وارد سخت وعيد کی بناء پر بالکل ظاہر ہے۔
اشعار
    سیدناامام شافعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے چند اشعار:
لَاتَحْمِلَنَّ مِنَ الْاَنَامِ
عَلَيک اِحْسَانًاوَّ مَنًّا
وَاخْتَرْلِنَفْسِکَ حَظَّھَا
وَاصْبِرْ فَاِنَّ الصَّبْرَ جُنَّۃ
مِنَنُ الرِّجَالِ عَلَی الْقُلُوْبِ
اَشَدُّ مِنْ وَّقْعِ الْاَسِنَّۃ
    ترجمہ:(۱)لوگوں ميں سے کسی کااپنے اوپر احسان مت اُٹھا۔
        (۲)اور اپنے نفس کا حصہ اختيار کر اور صبر کرکيونکہ صبر ڈھال ہے۔
        (۳)لوگوں کے احسانات دلوں پرنيزے لگنے سے زيادہ سخت ہيں۔
    ايک دوسرا شاعر کہتا ہے :
وَصَاحِبٌ   سَلَفَتْ   مِنْہ،    اِلَیَّ   يد
اَبْطَاَ  عَلَيہ  مُکَافَاتِی فَعَادَانِی
لَمَّا     تَيَقَّنَ     اَنَّ    الدَّھْرَ    حَاوَلَنِی
اَبْدَی النَّدَامَۃَ مِمَّا کَانَ اَوْلَانِی
اَفْسَدْتَ بِالْمَنِّ مَا قَدَّمْتَ مِنْ حُسْن
لَيس الْکَرِيم اِذَآ اَعْطٰی بِمَنَّانِ
    ترجمہ:(ا)وہ ايسا شخص ہے کہ جس کا احسان مجھ تک پہنچنے میں سبقت لے گیا لیکن ميری طرف سے بدلہ اسے دير سے پہنچا تو اس نے وہ مجھے واپس کرديا۔
(۲)لیکن جب اسے يہ يقين ہوگياکہ زمانے نے میراارادہ کر لیا ہے تواسے اس احسان سے شرمندگی ہونے لگی جو اس نے مجھ پر کیا تھا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(۳)جتانے سے تم نے پچھلی نيکی برباد کر دی، کیونکہ سخی جب کچھ ديتا ہے تو جتاتا نہيں۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!