islam
کبيرہ نمبر149: احرام کھولنےسے پہلے اپنے اختيار سے جماع کرنا
یعنی حج يا عمرے کے دوران احرام کھولنے سے پہلے جان بوجھ کر اپنے اختيارسے جماع کرنایعنی عضوتناسل
کی سپاری يا اس کی مقدار، اگرچہ کٹے ہوئے عضو سے ہو، کسی(انسان یاچوپائے)کی فرج ميں داخل کرنا ۱؎
اگرچہ ميں نے اس کے بارے ميں نہ تو کوئی وعيد ديکھی ہے نہ ہی کسی کو اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کرتے ہوئے پایا
ہے، مگر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک جماع کے ذريعے روزہ توڑنے کو کبيرہ گناہ قرار دينے پر قياس کی وجہ سے، جماع کے ذريعے حج کے اَرکان فاسد کرنے کا حکم بھی يہی ہونا چاہے بلکہ اس کا کبيرہ ہونا اولیٰ ہے کہ روزہ دار جب جماع کے علاوہ کسی اور ذريعے سے روزہ فاسد کرے تو اس پر گناہ اور روزہ قضاء کرنے کے علاوہ کوئی اور چيزلازم نہيں ہوتی جبکہ يہاں اس پر گناہ اور فاسد کردہ عمل کی قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوتا ہے اور وہ کفارہ ایک اونٹ ذبح کرنا ہے جوکہ پورے پانچ سال کا ہوتا ہے اگر وہ اس سے عاجز ہو توثنيہ گائے ذبح کرے جو کہ پورے دوسال کی ہوتی ہے اگر اس سے بھی عاجز ہو تو سات جذعہ بکرياں ذبح کرے جذعہ ايک سالہ بکری کو کہتے ہيں، جبکہ ثنيہ دو سالہ بکری کو کہتے ہيں، اگر اس سے بھی عاجز ہو تو ايک بدنہ(يعنی قربانی کے جانور)کی قيمت سے اتنی گندم خريدے جتنی فطرے ميں کفايت کرتی ہے اور اسے صدقہ کر دے اور اگر اس سے بھی عاجزہو تو ہر مد يعنی تقريباََ2کلو 25گرام کے عوض ميں ايک روزہ رکھے اور فساد پورا کرے اور حرم ميں روزہ رکھنا زيادہ بہتر ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۱؎ :صدرالشريعہ،بدرالطريقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی” بہارشريعت” ميں اس مسئلہ کی چندجزئیات نقل فرماتے ہيں،جو یہ ہيں:”جانور یا مردہ یا بہت چھوٹی لڑکی سے جماع کیا تو حج فاسد نہ ہو گا انزال ہو یا نہیں مگرانزال ہواتودم لازم۔۔۔۔۔۔عورت نے جانور سے وطی کرائی یا کسی آدمی یا جانور کا کٹاہوا آلہ اندر رکھ لیاحج فاسد ہو گیا۔۔۔۔۔۔وقوفِ عرفہ سے پہلے جماع کیا توحج فاسدہو گیا اسے حج کی طرح پورا کر کے دم دے اور سالِ آئندہ ہی میں اس کی قضا کرلے، عورت بھی احرام حج میں تھی تو اس پر بھی یہی لازم ہے۔۔۔۔۔۔وقوف کے بعد جماع سے حج تو نہ جائے گا مگر حلق وطواف سے پہلے کیاتوبُدنہ دے اور حلق کے بعد(کیا) تودم اور بہتراب بھی بدنہ ہے اور دونوں کے بعد کیا توکچھ نہیں،طواف سے مراداکثرہے یعنی چار پھیرے ہیں۔” (بہارِشریعت،حصہ۶،ص۷۴،۷۵)