islam
تنبیہ 3:
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عبادت و ریاضت سے غضب مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے، اور کچھ کا کہنا ہے کہ” یہ علاج کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتا۔” جبکہ سیدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں :”اس کی حقیقت وہی ہے جو ہم بیان کریں گے۔”
حاصل کلام یہ ہے کہ جب تک انسان کسی چیز کو پسند یا ناپسند کرتا ہے تو وہ غضب سے بھی پاک نہیں رہ سکتا، پھر اگر وہ پسندیدہ چیز ضروری ہو مثلاً غذا،رہائش ، لباس اور جسمانی صحت وغیرہ تو اس کی تقویت کے لئے غضب کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے، اور اگر وہ پسندیدہ چیز غیر ضروری ہو مثلاً جاہ ومرتبہ، شہرت، مجالس میں صدارت، علم پر فخر اور کثیر مال وغیرہ توممکن ہے زُہد (یعنی دنیا سے بے رغبتی )وغیرہ سے اس پر غضب نہ ہو اگرچہ اس چیز کا پسندیدہ ہونا عادت اورکاموں کے انجام سے ناواقفیت کی وجہ سے ہو، لوگوں کا غضب عام طور پربلکہ اکثر اسی قسم پر ہوتا ہے، یا پھر وہ پسندیدہ چیز بعض کے نزدیک اِنتہائی ضروری ہو گی مثلا ًعلماء کرام کی کتب اور کاریگروں کے آلات وغیرہ، اس قسم میں پسندیدہ چیزکے نہ ملنے پر غضب اسے ہی آتا ہے جس کا انحصار صرف اسی چیز پر ہو دوسرے لوگوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔
جب یہ معلوم ہو گیا کہ انسان کی پسند کے اعتبار سے تین قسمیں ہو سکتی ہیں یعنی یا تو وہ ضروری ہو گی یا غیر ضروری، یا پھر وہ بعض کے نزدیک ضروری ہو گی۔ تو اب یہ بھی جان لیں کہ پہلی قسم یعنی پسندیدہ ضروریاتِ زندگی کے زوال میں عبادت و ریاضت مکمل طور پر تو مؤثر نہیں ہوتی کیونکہ یہ فطری تقاضے ہیں البتہ اس کو ایک ایسی حد پر رکھنے میں ضرور مؤثر ہوسکتی ہے کہ جس کو شرع اور عقل دونوں اچھا جانتے ہوں، جو کہ ممکن ہے، وہ اس طرح کہ ایک مدت تک مجاہدات اور بناوٹی بردباری وغیرہ سے کام لیا جائے یہاں تک کہ وہ بردباری وغیرہ اس کی فطرت میں شامل ہو جائے۔ دوسری قسم کازوال بالکلیہ مجاہدات سے ممکن ہے کیونکہ دل سے ایسی اشیاء کی محبت نکالنا ممکن ہے اس وجہ سے وہ ان کا محتاج نہیں ہوتا اور اس بات کے پیش نظر بھی کہ انسان کا حقیقی وطن قبر اور ٹھکانا آخرت ہے، دنیا تو محض بقدرِ ضرورت زادِ راہ اکٹھا کرنے کی جگہ ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ تو وطن(یعنی قبر) اور ٹھکانے(یعنی آخرت) میں اس پر وبال ہی ہو گا ،لہٰذا دنیا کی محبت کو دل سے مٹا کر اس میں زاہدوں( یعنی دنیا سے بے رغبت لوگوں) جیسی زندگی گزارنا چاہے،البتہ ایسا بہت کم ہوتاہے کہ عبادت وریاضت اس گناہِ کبیرہ کو جڑ سے اُکھاڑسکے۔ مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اس فرمانِ عالیشان میں غور کر لینابھی مناسب ہے کہ
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(100)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اے میرے پروردگار عزوجل! مَیں بھی تو لبادۂ بشری میں ہوں اور مجھے بھی اس حالت میں دوسرے انسانوں کی طرح بعض اوقات غصہ آجاتا ہے، لہٰذا ہر وہ مسلمان جسے میں نے برا بھلا کہا ہو یا اس پر کسی وجہ سے ملامت کی ہو یا اسے مارا ہو تو میرے ان افعال کو قیامت کے دن میری جانب سے اس کے حق میں رحمت، باعث طہارت اور اپنی قربت کا ذریعہ بنادے۔”
(شرح النووی علی مسلم، کتاب البر والصلۃ ، باب من لعنۃ النبی، ج۲،ص۳۲۴)
(101)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے عرض کی :”یارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کیا میں ہروہ بات تحریر کر لیاکروں جو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم غصے اور رضا کی حالت میں ارشاد فرماتے ہیں۔”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”ہاں! لکھ لیا کرو، اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اس سے کبھی حق کے علاوہ کوئی بات نہیں نکلتی۔” اور ساتھ ہی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی زبانِ حق ترجمان کی جانب اشارہ فرمایا اور یہ نہ ارشاد فرمایا :”میں تو غصے ہی نہیں ہوتا۔” بلکہ ارشاد فرمایا :” غضب مجھے حق بات کہنے سے نہیں روکتا۔”یعنی میں غضب وغصہ کے مطابق عمل نہیں کرتا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(ابوداؤد، کتاب العلم ، باب کتابۃ العلم،الحدیث:۳۶۴۶،ص۱۴۹۳،مفہوماً)
امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں :”سیِّدُ المبلِّغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دنیا کے لئے غضب نہ فرماتے تھے، اورجب کبھی حق بات کے لئے غضب فرماتے تو کوئی پہچان نہ پاتا اور اس وقت تک غضب کی وجہ سے کسی چیز کا فیصلہ نہ فرماتے جب تک کہ اس کی تائید وتوثیق نہ ہو جاتی۔”
حاصل کلام یہ کہ غصے سے چھٹکارے کا سب سے بڑا ذریعہ دنیا کی آفات اور مصیبتو ں کی پہچان حاصل ہوجانے کے بعد دل سے اس کی محبت کو مٹا دینا ہے، جبکہ اس میں وقوع کا سب سے بڑا ذریعہ غرور وتکبر، خود پسندی، مِزاح، مذاق مسخری،عار دلانا، نقصان پہنچانا، دشمنی کرنا، بددیانتی کرنا اور غیر ضروری مال وجاہ (یعنی مقام ومنصب) کا انتہائی حریص ہونا ہے، یہ سب بری اور شرعًا مذموم عادتیں ہیں اور ان اسباب کی موجودگی میں غصہ سے نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں، لہٰذا اسے ریاضت اور مجاہدے کے ذریعے زائل کرنا ضروری ہے تا کہ انسان اِن کے مخالف اچھے اوصاف سے آراستہ ہو جائے۔