islam
کبيرہ نمبر69 : قرآن کریم يا کسی دينی معاملے ميں جھگڑنا اور غلبہ يا بلندی چاہنا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :” قرآنِ پاک ميں جھگڑا نہ کيا کرو کيونکہ اس ميں جھگڑنا کفر ہے۔”
(مسند ابی داؤدالطیالسی،الجزء التاسع،الحدیث:۲۲۸۶،ص۳۰۲)
(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو ہريرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : ”قرآن ميں جھگڑنا کفر ہے۔”
(المستدرک،کتاب التفسیر،باب الجدال فی القرآن کفر،الحدیث:۲۹۳۸،ج۲،ص۵۹۶)
(3)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قرآنِ پاک ميں بيجا بحث کرنا کفر ہے۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب السنۃ،باب النھی عن الجدال فی القرآن،الحدیث:۴۶۰۳،ص۱۵۶۱)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(4)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :”قرآن ميں جھگڑنے سے منع کيا گيا ہے۔”
(5)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قرآنِ پاک ميں جھگڑنا چھوڑ دو کيونکہ تم سے پہلی اُمتوں پر اسی وقت لعنت کی گئی جب انہوں نے قرآنِ پاک ميں اختلاف کيا، بے شک قرآنِ پاک ميں جھگڑنا کفر ہے۔”
(مصنف لابن ابی شیبۃ،کتاب فضائل القرآن ، باب من نھی عن التماری ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲،ج۷،ص۱۸۸،راویہ:”ابن عمرو”)
(6)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قرآن ميں نہ جھگڑو کيونکہ اس ميں جھگڑنا کفر ہے۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۴۹۱۶،ج۵،ص۱۵۲)
(7)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قرآنِ پاک کے معاملے میں آپس میں نہ جھگڑو اور اللہ عزوجل کی کتاب کی بعض آيتوں سے ديگر آيتوں کو نہ جھٹلاؤ، اللہ عزوجل کی قسم! مؤمن قرآنِ پاک کے ذريعے جھگڑے گا تو غالب آجائے گا اور منافق قرآنِ پاک کے ذريعے جھگڑے گا تو مغلوب ہو جائے گا۔”
(کنز العمال،کتاب الاذکار،الحدیث:۲۸۵۶،ج۱،ص۳۰۷”تکذِّبوا”بدلہ” تبدِّلوا” ”فیغالب”بدلہ” فیطلب”)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(8)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ايک ايسی قوم کے پاس تشريف لائے جو قرآنِ کریم ميں جھگڑ رہی تھی، تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اے لوگو! تم سے صديوں پہلے کی اُمتيں اسی وجہ سے ہلاک ہوئی تھيں، بے شک قرآنِ کریم کی بعض آيتيں ديگر بعض آيتوں کی تصديق کرتی ہيں لہٰذا بعض آيتوں کی وجہ سے ديگر بعض کو نہ جھٹلايا کرو۔”
(المعجم الاوسط،الحدیث:۵۳۷۸،ج۴،ص۱۰۹)
(9)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشادفرماتے ہيں کہ ہم نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے درِاقدس پر بيٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ ايک شخص ايک آيت کریمہ کے ذريعے نزاع کرتا تو دوسرا شخص دوسری آيت کے ذريعے۔ اتنے ميں دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہمارے پاس تشريف لائے گويا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا چہرۂ مبارک انار کے دانوں کی طرح سرخ تھا، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”اے لوگو! کيا تمہيں اسی لئے بھيجا گيا ہے ؟کيا تمہيں اسی کا حکم ديا گيا ہے؟ ميرے بعد کافر ہو کر ايک دوسرے کی گردنيں مارنے نہ لگ جانا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المعجم الاوسط،الحدیث:۸۴۷۰،ج۶،ص۱۹۲)
(10)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس قوم کو ہدايت دی گئی وہ اس وقت تک ہدايت کے راستے سے نہيں بھٹکی جب تک جھگڑنے نہ لگی پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے يہ آيت مبارکہ تلاوت فرمائی:
مَا ضَرَبُوۡہُ لَکَ اِلَّا جَدَلًا ؕ
ترجمۂ کنز الایمان:انہوں نے تم سے يہ نہ کہی مگر ناحق جھگڑے کو۔( پ25،الزخرف:58)
(صحیح البخاری، کتاب التفسیر،باب سھو ألدالخصام،الحدیث: ۴۵۲۳،ص۳۷۱،بدون”الذی یحج فی صحۃ”)
(11)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردْگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”بے شک اللہ عزوجل کو لوگوں ميں سب سے ناپسند وہ لوگ ہيں جو شديد جھگڑالو ہيں۔”
(12)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم فرماتے ہیں کہ حضرت عيسٰی(عليہ السلام) نے ارشاد فرمايا:”بے شک اُمور تين قسم کے ہيں: (۱)وہ جس کا صحيح ہونا تجھ پر ظاہر ہو گيا پس اس کی اِتباع کر (۲)وہ جس کاغلط ہونا تجھ پر ظاہر ہو گيا پس اس سے بچ اور (۳)وہ جس ميں اختلاف ہو جائے پس اسے اس کے عالم کی طرف لوٹا دے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(مجمع الزوائد،کتاب العلم، باب الامور ثلاثۃ ، الحدیث: ۷۱۲،ج۱،ص۳۹۰)
(13)۔۔۔۔۔۔حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی ايک جماعت سے مروی ہے کہ اللہ کے محبوب ،دانائے غیوب ،منزہ عن العیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ايک دن ہمارے پاس تشريف لائے اس وقت ہم دين کے کسی معاملے ميں جھگڑ رہے تھے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم شديد غضبناک ہو گئے اس کی مثل پہلے کبھی غضب ناک نہ ہوئے تھے، پھر ہميں جھڑکا اور ارشاد فرمايا: ”اے اُمتِ محمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)! صبر سے کام لو، بے شک تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہو گئے، جھگڑنا چھوڑ دو کیونکہ اس میں خیر کی کمی ہے، جھگڑنا چھوڑ دو کيونکہ مؤمن جھگڑتانہیں، جھگڑنا چھوڑ دو کيونکہ جھگڑنے والے کا خسارہ مکمل ہو چکا ہے، جھگڑنا چھوڑ دو کيونکہ گناہ ہونے کے لئے کافی ہے کہ تم ہميشہ جھگڑتے رہے، جھگڑنا چھوڑدو کيونکہ ميں بروزِ قيامت جھگڑنے والے کی شفاعت نہيں کروں گا، جھگڑنا چھوڑ دو تو ميں جنت ميں تين گھروں کا ضامن ہوں گا: ايک نيچے، دوسرادرميان ميں اور تيسرا سب سے اوپر والا، جس نے جھگڑنا چھوڑ ديا وہ سچا ہے، جھگڑنا چھوڑ دو کيونکہ بتوں کی عبادت سے بچتے رہنے کے بعد مجھے میرے رب عزوجل نے جس چيز سے سب سے پہلے بچنے کاحکم فرمایا وہ جھگڑنا ہے۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۷۶۵۹،ج۸،ص۱۵۲)
ضروری وضاحت:
آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مذکورہ فرمانِ عالیشان سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بتوں کی عبادت کی ہوکیونکہ علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا اس پر اجماع ہے کہ انبياء کرام علیہم السلام کفر سے معصوم ہيں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تنبیہ:
اسے کبيرہ گناہ شمار کيا گيا ہے لیکن ميں نے کسی کو نہيں ديکھا کہ جس نے اسے کبيرہ کہا ہو اور يہ احاديثِ مبارکہ اس ميں ظاہر ہيں اور آخری حدیثِ پاک اگرچہ ضعيف ہے مگر بخاری شریف کی مذکورہ حدیثِ پاک اسے قوت ديتی ہے: ”اللہ عزوجل کے نزديک ناپسندیدہ ترين شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہے۔”اور اپنی بيوی کی دُبُر(یعنی پچھلے مقام) ميں وطی کرنے کو بھی کبيرہ گناہ شمار کئے جانے کی مثال اسی طرح ہے کہ آنے والی بعض احاديثِ مبارکہ ميں اس پر بھی کفر ہونے کا حکم ہے۔
لہذا اسی طرح يہاں کہا جائے گا کہ اس گناہ کو کفر کہنا اس کے کبيرہ ہونے ميں ظاہر ہے بلکہ يہ اس وطی سے بدرجہ اَوْلیٰ حقيقی کفر کے قريب ہے کيونکہ قرآن ميں جھگڑنا اگر حقيقی تناقض کے وقوع کے اعتقاد کی طرف لے جائے يا اس کی نظم ميں شبہ کی طرف لے جائے تو کفر حقیقی ہو جائے گا اگرچہ قائل کفر کے الفاظ ادا نہ کرے، لیکن اس سے اگر لوگوں کو تناقض يا خلل کا وہم ہو يا قرآنِ پاک کے بارے کلام کرنے سے ان کومحض شبہ وغيرہ ہو تو يہ اگرچہ حقيقی کفر نہيں مگر دين ميں عظيم نقصان اور ملحدين کے راستے پر چلنے کی وجہ سے اس کا گناہِ کبيرہ ہوناکچھ بعيد نہيں۔
اورامیرالمومنین حضرت سيدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو سزا دی تھی جس نے قرآن کریم کی بعض آیات کے بارے ميں پوچھ کر لوگوں کے دلوں ميں ادنیٰ سا شبہ داخل کرنے کا ارادہ کيا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو مدينہ شریف (زَادَھَااللہُ شَرْفًاوَتَعْظِیْمًا)سے نکال ديا کيونکہ آپ کو اس بات کا ڈر تھا کہ ہر عيب سے پاک قرآنِ کریم کے بارے ميں لوگوں کے اعتقاد ميں دراڑ نہ پڑے، وہ بعض آیات کریمہ یہ ہیں:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(1) فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوۡنَ ﴿50﴾
ترجمۂ کنز الایمان :تو ان ميں ايک نے دوسرے کی طرف منہ کيا پوچھتے ہوئے۔(پ23، الصفّٰت:50)
(2) فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ ﴿101﴾
ترجمۂ کنز الایمان : تو نہ ان ميں رشتے رہيں گے اور نہ ايک دوسرے کی بات پوچھے۔(پ18، المؤمنون:101)
(3) اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤی اَفْوَاہِہِمْ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمْ وَ تَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿65﴾
(پ23،یٰسۤ:65)
ترجمۂ کنز الایمان :آج ہم ان کے مونھوں پر مہر کر ديں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کريں گے اور ان کے پاؤں ان کے کئے کی گواہی ديں گے۔
(4) یَّوْمَ تَشْہَدُ عَلَیۡہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَ اَیۡدِیۡہِمْ وَ اَرْجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ﴿24﴾
ترجمۂ کنز الایمان:جس دن ان پر گواہی ديں گی ان کی زبانيں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے۔(پ18، النور:24)
(5) ہٰذَا یَوْمُ لَا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿ۙ35﴾
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ترجمۂ کنز الایمان :يہ دن ہے کہ وہ بول نہ سکيں گے۔ (پ29،ا لمرسلات،35)
حاصل کلام يہ ہے کہ اس ميں جھگڑنا يا تو کفر ہے يا دين ميں بہت بڑا نقصان ہے لہذا اس برے عمل کاارتکاب کرنايا تو کفر ہو گا اور يا پھر کبيرہ گناہ، اس لئے جو ميں نے بیان کيا و ہ صحيح اور جو ميں نے لکھا وہ واضح ہے، اللہ عزوجل ہی توفيق دينے والا ہے، پھر ميں نے بعض کو ديکھا جنہوں نے قرآن پاک اوردین کے کسی معاملے میں جھگڑنے کو کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا اور یہ ميرے بیان کردہ کی تائيد ہے۔