قتل کی دھمکی
قتل کی دھمکی
حضرت سیدنا علی بن الحسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں :” عبدالملک بن مروان نے ایک شخص کو حاکم بنا کر مدینہ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرْفاً وَّتَعْظِیْمًابھیجاتا کہ وہ بیعت وغیرہ کا سلسلہ کر ے اورانتظامات سنبھالے ۔” چنانچہ میں حضرت سیدنا سالم بن عبداللہ، حضرت سیدنا قاسم بن محمد اور حضرت سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پا س گیا او ران سے کہا :”آؤ ہم سب اپنے شہر کے نئے حاکم کے پاس چلتے ہیں تا کہ اس سے ملاقات کریں اور اسے اِعتماد میں لیں۔”
چنانچہ ہم اس حاکم کے پاس گئے او راسے سلام کیا ، اس نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور کہا:” تم میں(حضرت سیدنا) سعید بن مسیّب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کون ہے ؟” حضرت سیدنا قاسم بن محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا:” حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُمراء سے تعلق نہیں رکھتے انہوں نے مسجد میں رہنے کو لازم کر لیا ہے ، وہ ہر وقت دربار الٰہی عزوجل میں مشغولِ عبادت رہتے ہیں ،دنیا دارو ں سے انہیں کوئی غرض نہیں ، وہ اُمراء کے درباروں میں جانا پسندنہیں فرماتے۔”
اس حاکم نے کہا :”تم لوگ اسے میرے پاس آنے کی ترغیب دلاؤ اور اسے میرے پاس ضرور لے کر آنا، اللہ عزوجل کی قسم !اگر وہ نہ آیا تو مَیں اسے ضرور قتل کردوں گا ۔” اس حاکم نے تین مرتبہ قسم کھا کران الفاظ کے ساتھ قتل کی دھمکی دی ۔ حضرت سیدنا قاسم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس ظالم حکمران کی یہ دھمکی سن کر ہم بہت پر یشان ہوئے اور واپس چلے آئے۔ مَیں سیدھا مسجد میں گیا اور حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ستون سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔میں نے انہیں ساری صورتحال سے آگا ہ کیااور عرض کی : ”حضور!میری تو رائے یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر ہ کرنے چلے جائیں اور کچھ عرصہ مکہ مکرمہ میں گزاریں تا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شریر حاکم کی نظرو ں سے اوجھل رہیں اور معاملہ رفع دفع ہوجائے ۔ ”
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً ارشاد فرمایا:” مَیں اس عمل میں اپنی نیت حاضر نہیں پاتا اور میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو خلوص نیت سے ہو اور صرف رضائے الٰہی عزوجل کے لئے ہو۔”میں نے کہا:” پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طر ح کریں کہ چند دن کے لئے کسی دو ست کے ہاں قیام فرمائیں اس طر ح جب کسی شخص کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نظر نہیں پڑے گی اور آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں نہیں ہوں گے تو چنددنوں میں معاملہ ختم ہوجائے گاا ور حاکم یہی سمجھے گا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں چلے گئے ہیں ۔”
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اگر مَیں ایسا کروں او رکسی کے گھر میں قیام کروں، توجب مؤذِن حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃکی صدائیں بلند کر کے مجھے دربار الٰہی عزوجل کی طر ف بلائے گا تو میں اس کے حکم سے روگردانی کس طر ح کر سکوں گا، دن رات مجھے میرے پاک پروردگار عزوجل کی جانب سے مسجد میں حاضری کا حکم ملے اور میں ایک ظالم حکمران کی وجہ سے احکم الحاکمین عزوجل کے حکم سے اعراض کرو ں۔ یہ بات میں کبھی بھی گوارا نہیں کرسکتا ،چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے میں مسجد کو ہر گز ہر گز نہیں چھوڑوں گا ۔”
یہ جرأ ت مندانہ جواب سن کر میں نے عرض کی:” حضور !پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا س طر ح کریں کہ کسی او رمسجد میں نماز ادا فرمالیا کریں اور اپنی مجلسِ علم کسی او رجگہ قائم کر لیا کریں۔ اس طر ح بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حاکم کی نظرو ں سے اوجھل رہ سکتے ہیں۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میں عرصہ دراز سے اسی مسجد میں اسی ستون کے پاس اپنے پاک پر وردگار عزوجل کی عبادت کر رہا ہوں، اب کسی ظالم کے خوف سے میں اس جگہ کوچھوڑ دوں یہ مجھے ہر گز منظور نہیں ،مَیں اسی مسجد میں اسی ستون کے پاس عبادتِ الٰہی عزوجل میں مشغول رہوں گا ۔”
حضرت سیدنا قاسم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری تینوں باتوں سے اِنکار فرمادیا تو میں نے عرض کی: ”اللہ عزوجل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر رحم فرمائے ،کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی موت سے ڈر نہیں لگتا لو گ تو موت کے نام سے بھی کانپ جاتے ہیں اور آپ ہیں کہ حاکم کی شدید دھمکی کے باوجود ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہیں ہوئے۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”خدا عزوجل کی قسم! میں اپنے رب عزوجل کے علاوہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا ،مجھے صرف اسی پاک پرو ردگار عزوجل کا خوف ہے اس کے علاوہ میں مخلوق میں کسی سے نہیں ڈرتا ۔”
میں نے عرض کی:” حضور! حاکم نے شدید دھمکی دی ہے، میں تو بہت پریشان ہوگیا ہوں کہیں وہ ظالم حاکم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ؟” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:” اے قاسم(رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ )! تم بے فکر رہو،میرا پروردگار عزوجل میری حفاظت فرمائے گا اور ان شاء اللہ عزوجل بہتری ہوگی ۔میں اپنے رب عزوجل جو کہ عرش ِعظیم کا مالک ہے ،اس کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے معاملہ کو اس ظالم حاکم سے بُھلادے۔”
اے قاسم(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ! تم بے فکر رہو ، ان شاء اللہ عزوجل سب بہتر ہوگا ۔ یہ سن کر میں وہاں سے چلا آیا، مجھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طر ف سے بہت پر یشانی کا سامنا تھا ۔میں روز انہ لوگو ں سے پوچھتا کہ آج شہر میں کوئی خاص واقعہ تو پیش نہیں آیا ۔
آج حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ تو پیش نہیں آیا لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عزوجل مجھے ہر مرتبہ خیر ہی کی خبر ملتی۔اسی طرح ایک سال امن وامان سے گزر گیا وہ حاکم ایک سال وہاں رہا لیکن وہ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بال بھی بیکانہ کر سکا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعابارگاہ ِخداوندی عزوجل میں مقبول ہوئی او رآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر اس حاکم کو بُھلادیا گیا ۔ایک سال بعد وہ حاکم معزول کردیا گیا اور اسے کسی اور جگہ کا حاکم بنادیا گیا ایک دن ا س حاکم نے اپنے غلام سے کہا:”تیرا ناس ہو ! مَیں نے علی بن حسین ،قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ کے سامنے تین مرتبہ قسم کھائی تھی کہ میں سعید بن مسیب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کو قتل کرو ں گا لیکن جب تک میں مدینہ منورہ میں رہا مجھے سعید بن مسیب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کا خیال تک نہ آیا، نہ جانے مجھے کیا ہوگیا تھا ۔اب میں تو ان حضرات کے سامنے رُسوا ہو کر رہ گیا کہ میں اپنی قسم کو پورا نہ کرسکا ۔”
اس غلام نے کہا:” اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں کچھ عرض کرو ں؟ ” حاکم نے کہا:” تمہیں اجازت ہے جو کہنا چاہو بے د ھڑک کہو۔” غلام نے کہا: ”حضور ! اللہ عزوجل نے آپ سے حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر کو بھلا دیا ور آپ کو ان کے قتل کے گناہ میں ملوث نہ ہونے دیا۔ یہ تو آپ کے حق میں اللہ عزوجل نے بہت بہتر فیصلہ فرمایا ہے ،ورنہ ( قتلِ ناحق کا) جو اِرادہ آپ نے کیا تھا اس میں سر اسر آپ کا نقصان تھا ۔اللہ عزوجل کا فیصلہ آپ کے حق میں یقینا بہتر ہے ۔” غلام کی یہ بات سن کر حاکم نے کہا:” اے غلام! جاؤ تم اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر آزاد ہو ۔”