islam
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی اور دائرۃ المعارف العثمانیہ
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
اور دائرۃ المعارف العثمانیہ
از : پروفیسرڈاکٹر مولانا محمد عبدالمجید نظامی
‘ سابق ناظم دائرۃ المعارف العثمانیہ و صدر شعبۂ عربی جامعہ عثمانیہ‘ حیدرآباد
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دائرۃ المعارف العثمانیہ کے عمومی حالات و واقعات سے ہر کسی کو آگہی حاصل ہے۔ گذشتہ دو دہوں کے دوران مختلف ذرائع ابلاغ کے واسطے سے دائرہ اور اس کے کارناموں کی کافی تشہیر ہوچکی ہے۔ لہٰذا ان کو دہرائے بغیر میں براہ راست آج کچھ خاص خاص سخن ہائے گفتنی آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
اس بات سے تقریباً سب ہی واقف ہیں کہ دائرۃ المعارف کی تاریخ تاسیس 1888ء ہے، لیکن اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اس مخصوص سال کی کیا خصوصیات ہیں اور اس سے دائرہ کو کیا مناسبت حاصل ہے، جی ہاں! بغور سنیں کہ 1888ء امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا سال پیدائش ہے جو جب بولتے تو منہ سے موتی جھڑتے اور جب لکھتے تو موتی رولتے۔ آج بھی ان کی نگارشات بآسانی دستیاب ہیں جو لفظی ہیرے جواہرات کا مرقع ہیں ان کے انداز نگارش کا ایک جملہ پیش خدمت ہے۔
’’مرور ایام کی صاعقہ ریزیوں نے خرمنِ گیتی پر پھیلی ہوئی کتنی تہذیبوں کے دامن چاک چاک کردیئے‘‘ تعبیری قوت کے ساتھ ساتھ اس جملہ کا ایک لفظ ہیرے جواہرات کی طرح مرصع ہے۔ اب اس طرح کی اردو تو خواب کی بات بھی نہیں رہی۔
اسی طرح اسی 1888ء میں ہیرے جواہرات کی مشہور کمپنی DE Beers کی بنیاد پڑی جواب بھی وابستۂ میدان عمل ہے ‘ 1888ء میں پیدا ہونے والے مولانا ابوالکلام آزاد کلامی ہیرے جواہرات کے بادشاہ تھے اوراسی 1888ء میں شروع ہونے والی کمپنی آج تک ہیرے جواہرات کی تجارت میں مشغول ہے۔ بالکل اسی طرح اسی سال 1888ء میں قائم شدہ دائرۃ المعارف کا کام بھی ہیرے جواہرات کی نکاسی سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ دائرہ کی طبعیت عملی یعنی Nature Of Work میں ہیرے جواہرات کا تصور بڑے چابک دستانہ انداز میں پیوست ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ دائرہ کی کتابوں کے عنوانات میں ہیرے جواہر اور اس سے متعلق دیگر قیمتی اشیاء کا نام منفرد انداز میں جگمگارہا ہے، بطور مثال دائرہ کی مشہور کتاب نظم الدرر جو تفسیر کے باب میں ایک انسائیکلو پیڈیا ہے اس کا اردو نام ’’موتیوں کی لڑی‘‘ اور انگریزی نام Pearls String ہے اور اسی طرح ابن الترکمانی کی مشہور کتاب الجوہر النقی ہے جو دائرہ نے اپنے ابتدائی ایام میں چھپائی ہے اور اس کا اردو نام ’’خالص جوہر‘‘ اور انگریزی نام Pure Gem ہے۔ دیگر بہت سی کتابیں بھی ہیرے جواہرات کی کہانی سناتی ہیں۔ جیسے الدرر الکامنۃ یعنی پوشیدہ موتی یا Undisloved Pearl، الجواہر المضیۃ یعنی روشن جواہر Lucent Gems الجوہرۃ المنیفۃ یعنی چمکدار گوہر یا Lustrens Gems احسن السبک سونے کا بہترین کام یا Best Caoling کتاب الفصوص یعنی نگینوں کی کتاب Book Of Precious Stones بلکہ دائرۃ المعارف نے خود ہیرے جواہرات کے بارے میں ایک کتاب چھاپی ہے جس کا نام الجماہر فی معرفۃ الجواہر یعنی جواہرات کی شناخت کے اصول Principles of Jewel Identification ہے، یہ کتاب انتہائی نادر ہے اور اس کے مولف ابوریحان بیرونی ہیں جن کی ایک اور کتاب ’’ہندوستان کے بارے میں‘‘ بڑی مشہور کتاب ہے جسے دائرہ نے کئی بار چھاپا ہے، بغداد کے ایک مشہور تاجر عدنان جوہر جی نے صرف جواہرات کی کتاب کے حصول کے لیے حیدرآباد کا سفر کیا تھا۔ ہیرے جواہرات سے دائرہ کی گہری وابستگی کا احساس ایجاد بندہ نہیں بلکہ جامعہ عثمانیہ کے وائس چانسلر جناب ڈی یس ریڈی نے دائرہ میں ایک استقبالیہ نشست کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
”Dairatul Maarif is pickingout the pearls from the Depth of oceans” یعنی دائرۃ المعارف علم و معرفت کے بحرنا پیدا کنار سے موتیاں نکال رہا ہے۔ قارئین! ہیرے جواہرات کے اس کاروبار میں دائرۃ المعارف نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور اسی محنت شاقہ کا پھل ہے کہ عرب، عربی زبان میں اپنی برتری کے شدید احساس کے باوجود، دائرہ کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ مصر کے مشہور عربی رسالہ ’’صوت الشرق‘‘ کے ایڈیٹر جرجیس خلیل جرجیس جب دائرہ تشریف فرما ہوئے اور انہوں نے ابن قتیبہ کی‘ بلحاظ لفظیات مشکل ترین کتاب ’’کتاب المعانی الکبیر‘‘ کا مشاہدہ کیا اور علمائے دائرہ کی تحقیق دیکھی تو بے ساختہ اُن کے منہ سے نکل گیا ’’نحن نحنی رؤسنا امام ھؤلاء الأعاجم‘‘ یعنی ہم ان غیر عرب محققین کے آگے اپنے سر جھکاتے ہیں۔
We low our heads before these non Arab Scholors عرب مالی داد و دہش کے بارے میں بہت فیاض واقع ہوئے ہیں لیکن الفاظ کے استعمال میں بہت محتاط ہیں۔ ان کے منہ سے اس طرح کے جملہ کی ادائیگی صرف بے ساختگی کی دین ہے جو آج بھی دائرۃ المعارف کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ تحقیقی اور ثقافتی میدان میں دائرۃ المعارف نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ہندوستان کی پہچان بن گیا ہے، اب بھی عربی جامعات سے جو بھی تحقیقی مقالے یا کتابیں شائع ہوتی ہیں ان کی فہرست کتابیات میں دائرہ کی کئی مطبوعات شامل رہتی ہیں اور وہ لوگ کتاب کے بالمقابل دائرۃ المعارف کی جگہ حیدرآباد یا الہند لکھنے ہی پر اکتفاء کرتے ہیں، گویا وہ لوگ دائرۃ المعارف کو بلکہ صرف دائرۃ المعارف کو علمی حیدرآباد یا علمی ہندوستان کا ترجمان سمجھتے ہیں۔
دائرۃ المعارف کی بنیاد دراصل تین مشہور شخصیتوں کی مرہون منت ہے جنہیں اس زمانہ میں ’’سرکردہ تکون‘‘ Elite Trio کا نام دیا جاتا تھا اور وہ ہیں مولانا محمد انوار اللہ فاروقیؒ، نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی اور ملا عبدالقیوم جو جمال الدین افغانی کے اسلامی فلسفہ سے متاثر تھے۔ اس باب میں خاص بات یہ ہے کہ دائرہ کی تاسیس کے لیے اس وقت کے نظام دکن نے ایک خاص شاہی فرمان جاری کیا تھا جو آج بھی اسٹیٹ سنٹرل ارکائیوز میں محفوظ ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حدیث شریف کی مشہور کتاب کنزالعمال کے مخطوطہ کی بے حرمتی دائرۃ المعارف کی بنیاد کا پتھر بنی اور جب دائرہ عالم وجود میں آیا تو اسی کتاب کو انتخاب اول کا شرف حاصل ہوا اور اس کتاب کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اسے بار بار طباعت کے مراحل سے گذارا گیا اور دائرہ کے ایک سو تیرہ سالہ سفر میں شاید ہی کوئی سال ایسا گذرا ہو جس میں یہ کتاب طباعت یا مکرر طباعت کے پروگرام میں شامل نہ ہوئی ہو، سال گذشتہ میں بھی ہم نے کنزالعمال کی آٹھویں جلد کی مکرر طباعت کا کام سر انجام دیا ہے۔
دائرۃ المعارف عربی کتب کی تحقیق و طباعت کا مرکز ہے۔ یہ سنتے ہی ذہن میں عام طور پر یہ خیال گذرتا ہے کہ دائرہ کی ساری کتابیں عرب مصنفین کی ہیں‘ مگر دائرہ کے طباعتی پروگرام میں نہ صرف عرب مصنفین بلکہ ہندوستانی مصنفین کی بھی بہت سی کتابیں ہیں اور کتاب کنزالعمال خود علی متقی م 975ھ کی ہے جن کے نام کے ساتھ الہندی کا شہرہ جڑا ہوا ہے، دیگر ہندوستانی مصنفین میں ان کے نام اور ان کی تصانیف یہ ہیں:
1۔ شاہ ولی اللہ دہلوی ’’شرح تراجم ابواب صحیح البخاری‘‘
2۔ محمد یار جنگ ’’احسن السبک فی شرح قفانبک‘‘
3۔ عبدالحی لکھنوی ’’نزہۃ الخواطر‘‘ ہندوستانی علماء کے حالات پر اس سے مبسوط اور کوئی کتاب نہیں۔
4۔ محمد ارتضاعلی خاں مدراسی ’’المنحۃ السراء‘‘ اور ’’النفائس الارتضیۃ‘‘
5۔ عبدالنبی احمد نگری ’’دستور العلماء ‘‘
6۔ معین الدین الندوی ’’معجم الامکنۃ‘‘
7۔ شہاب الدین دولت آبادی ’’مصدق الفضل‘‘
دستور العلماء کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ یہ کتاب علمی اصطلاحات کی انسائیکلو پیڈیا ہے اور سارے علوم و فنون کا احاطہ کرتی ہے، کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے اور کتاب المنحۃ السراء کا ترجمہ خود حیدرآباد میں ہوا ہے جس کا نام ’’سوغات مسرت‘‘ ہے اور جو عاملین کے لیے ایک نسخۂ کیمیا ہے، اس کی طباعت کا سارا بار مرحوم فیاض الدین نظامی صاحب ماہر تعمیرات نے اٹھایا تھا۔ دائرہ کی موجودہ عمارت انہیں فیاض الدین صاحب کے فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ اللہم اغفرلہ و ارحمہ۔ دائرۃ المعارف نے قرآن و حدیث، رجال و اسانید اور اسلامی تاریخ پر مشتمل کتابوں کی تحقیق و طباعت کے شانہ بہ شانہ جدید علوم کی بھی کافی خدمت کی ہے اور جس میں بطور خاص قابل ذکر یہ علوم ہیں۔
ریاضیات Mathamatics
فلسفہ Philosophy
فقہ اللغۃ Philology
کلام منطق Dialect
علم المیاہ Hydrology
علم الکون Cosmology
فلکیات Astronomy
عوارض چشم Opthalmology
علم الاوزان Metrology
احجار کریمہ (انمول پتھر) Precious Stones
جراحت Surgery
طب Medicine۔
اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ دائرہ نے بین الاقوامی تعلقات پر بھی ایک کتاب چھاپی ہے جس کا نام ’’شرح السیر الکبیر‘‘ ہے اور جس کے مصنف امام سرخسی ہیں۔ یہ کتاب امام محمد بن الحسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ تالیف ’’السیر الکبیر‘‘ کی شرح ہے۔
دائرہ نے علوم قدیمہ و جدیدہ کے ساتھ ساتھ موسیقی پر بھی ایک کتاب چھاپی ہے اور گیت کا عربی ترجمہ بھی چھاپا ہے،
فلکیات پر دائرہ کی کتاب کا نام ’’صور الکواکب‘‘ یعنی Figures of Stam ہے، انگریزی زبان میں اس کتاب پر ایک مبسوط جائزہ بھی کتاب میں شامل ہے جو دائرہ کے سابق ناظم مرحوم سید نظام الدین صاحب کے زور قلم کا نتیجہ ہے اور اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس دور میں بھی جب کہ طباعت کی ٹکنالوجی نہ ہونے کے برابر تھی، یہ کتاب Illustrated یعنی پوری فلکیاتی تصویروں اور نقشوں کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔ بصریات اور رویت Opthalmology, Dculogy اور Optics کے بارے میں دائرہ نے علامہ ابوالحسن فارسی کی ایک کتاب ’’تنقیح المناظر لذوی الابصار والبصائر‘‘ طبع کی ہے جو دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ کتاب بصری معلومات کا خزانہ ہے اور آج کے اس دور میں بھی جدید بصری معلومات پر ایک چیالنج ہے۔ انکسار بصر Refraction کے متعدد توضیحی رسوم Illustrative Figures اس کتاب میں موجود ہیں۔ ان توضیحی رسوم و اشکال کی تعداد (216) ہے اور اسی سے کتاب کی جامعیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
طب پر دائرہ کی مایۂ ناز کتاب ’’الحاوی‘‘ کے تذکرہ کے بغیر دائرہ کے بارے میں کوئی بھی مضمون ناقص اور تشنہ سمجھا جائے گا۔ اس کتاب کو طبی انجیل بھی کہا جاتا ہے Materin Medica یا طبی مواد پر اس سے جامع اور کوئی کتاب نہیں، اس کتاب کے مختلف ابواب کا انگریزی ترجمہ پوری جامعات میں پڑھایا جاتا تھا، حال ہی میں ہالینڈ سے ایک ریسرچ اسکالر دائرۃ المعارف آئے تھے جو کینسر جیسے موذی مرض پر تحقیق کررہے ہیں، جب انہیں بتایا گیا کہ الحاوی کی 12 ویں جلد کینسر اور اورامِ خبیثہ کے بارے میں ہے تو انہوں نے فی الفور وہ جلد خریدلی، پاکستان میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ چل رہا ہے۔
تفسیری مطبوعات میں برہان الدین بقاعی کی تالیف ’’نظم الدرر فی تناسب الاٰیات والسور‘‘ دائرہ کی مطبوعات میں ایک شاندار اضافہ ہے، کتاب صرف آیات و سور کے باہمی ربط و تعلق ہی کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ بے شمار قرآنی دقائق و نکات سے پردہ اٹھاتی ہے اور قرآنیات سے متعلق ہر If and But کا جواب فراہم کرتی ہے، کتاب کے مؤلف، حافظ ابن حجر عسقلانی کے خاص شاگردوں میں تھے، عربی زبان و ادب پر بڑا عبور حاصل تھا اور خاص بات یہ ہے کہ ان کے استاد نے اپنی کتاب ’’انباء الغمر‘‘ میں اپنی شاگرد کی تحریر کو بڑے فخر کے ساتھ پیش کیا ہے جو قبرص پر مسلمانوں کی فوج کشی کے بارے میں ہے، رابطۂ عالم اسلامی کے آفس سکریٹری جناب محمد الطراوری نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے کے لیے اسی کتاب کو بنیاد بنایا ہے، پی ایچ ڈی کی بات جب آہی گئی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ ملک و بیرون ملک کی بیشتر جامعات میں عربی علوم و فنون کے محققین نے اپنی تحقیقات کی طباعت کے لیے دائرۃ المعارف ہی کو منتخب کیا ہے اور اس کی وجہ ان کے بیان کے مطابق دائرۃ المعارف کا معیار تصحیح ہے، ان محققین میں ڈاکٹر عزیز سوریال عطیہ، (امریکہ)، ڈاکٹر قیص فرح اور ڈاکٹر حافظ عبدالعلیم (علی گڑھ) کا نام بطور مثال پیش ہے۔ حیدرآباد کے ایک ہونہار نوجوان (جمیل الکاتب) نے ایک پی ایچ ڈی مقالے کے لیے خود دائرۃ المعارف کو عنوان بنایا ہے اور شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر نگرانی اس کی تکمیل ہوئی۔
ان خاص خاص سخن ہائے گفتنی کو ہم دائرۃ المعارف کی کتاب خاص الخاص للثعالبی کے ذکر پر ختم کرتے ہیں، یہ کتاب عربی ادبیات میں ایک شاندار اضافہ ہے، خاص الخاص کی خاص بات یہ ہے کہ حال ہی میں الجزائر کی جامعات کے کچھ اساتذہ دائرۃ المعارف تشریف لائے تھے، مذکورہ کتاب کا ایک ایک نسخہ جب انہیں ہدیۃً پیش کیا گیا تو انہوں نے بے پناہ مسرت کا اظہار کیا اور یہ انکشاف کیا کہ الجزائر میں کسی ایک شیخ کے پاس خاص الخاص کا نسخہ ہے لیکن وہ نہ تو کسی کو عاریۃً دیتے ہیں اور نہ یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ کتاب ان سے ایک لمحہ بھی دور رہے، یہ بخیلانہ طرز عمل کتاب کے تئیں ان کی بیکراں عقیدت کا غماز ہے۔
اور آخر میں عرض ہے کہ دائرۃ المعارف جس نے اب تک بڑے سرد و گرم حالات جھیلے ہیں اور کئی بار اپنے وجود و بقا کی جنگ بھی لڑی ہے آج بحمداللہ اکتفاء ذاتی Self Relations کی منزل سے بس چند قدم دور ہے، دعا فرمائیے کہ دائرہ کا یہ علمی کارواں آگے ہی آگے بڑھتا رہے۔
جنوں سلامت تو اپنی ٹھوکر میں یہ زمیں بھی یہ آسماں بھی
ہمارے عزم سفر کی زد میں ہیں ماہ وانجم بھی کہکشاں بھی
٭٭٭