islam
حضور شیخ الاسلام کے جد امجد حضرت علامہ حکیم سید نذر اشرف اشرفی جیلانی فاضلؔ کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے مختصر احوال و کوائف
بشارت علی صدیقی اشرفی
اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن،حیدرآباد۔ دکن
حضور شیخ الاسلام کے جد امجد
حضرت علامہ حکیم سید نذر اشرف اشرفی جیلانی فاضلؔ کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے مختصر احوال و کوائف
حضرت سید نذر اشرف اشرفی جیلانی بن سید فضل حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی کی پیدائش اپنے آبائی وطن کچھوچھہ میں ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ نسب 34؍ واسطوں سے حضور پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، 23؍واسطوں سے حضرت سیدنا غوث اعظم سید محی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ سے اور 12؍ واسطوں سے حضرت سید عبدالرزاق نورالعین اشرفی جیلانی رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
سلسلۂ نسب:
سید نذر اشرف اشرفی جیلانی بن حضرت سید فضل حسین اشرفی ( وصال: 1338ھ/ 1919ء) بن حضرت سید منصب علی اشرفی جیلانی سجادہ نشین (وصال: 1307ھ/ 1889ء) بن حضرت سید شاہ قلندر علی اشرفی جیلانی سجادہ نشین(وصال: 1250ھ/ 1834ء) بن حضرت سید شاہ تراب اشرف اشرفی بن حضرت سید شاہ محمد نواز اشرف اشرفی (سجادہ نشین) بن حضرت سید شاہ محمد غوث اشرف اشرفی بن حضرت سید شاہ جمال الحق والدین اشرفی بن حضرت سید شاہ عزیزالرحمن اشرفی بن حضرت سید شاہ عثمان اشرفی بن حضرت سید شاہ ابوالفتح زندہ پیر اشرفی بن حضرت سید شاہ محمد اشرفی (سجادہ نشین) بن حضرت سید شاہ محمد اشرف اشرفی (سجادہ نشین)(وصال: 910ھ/ 1504ء) بن حضرت سید شاہ حسن اشرفی خلف اکبر سیدنا نورالعین (وصال: 882ھ / 1477ء) بن حضرت مخدوم الآفاق سید شاہ نورالعین اشرفی جیلانی جانشینِ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی (وصال: 872ھ/ 1467ء) بن حضرت سید عبدالغفور جیلی بغدادی بن حضرت سیدنا ابوالعباس احمد جیلی (عراق) بن حضرت سیدنا بدرالدین حسن (شام) بن حضرت سیدنا علاؤالدین علی (حامہ، شام) بن حضرت سیدنا شمس الدین جیلی (حامہ، شام) بن حضرت سیدنا سیف الدین یحییٰ عمودی (حامہ، شام) بن حضرت سیدنا ابو نصر محمد (عراق) بن سیدنا ابو صالح عمادالدین نصر (بغداد، عراق) بن سیدنا ابوبکر تاج الدین عبدالررزاق بن غوث اعظم سیدمحی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی۔
والدین کریمین:
حضرت سید نذر اشرف کے والد گرامی-رئیس الاتقیاء حضرت علامہ مولانا سید شاہ فضل حسین اشرفی جیلانی ( وصال: 1338ھ/ 1919ء) اپنے زمانے کے مشاہیر علما و فضلا میں سے تھے۔ آپ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے چچا زاد بھائی، مریدِ صادق اور خلیفہ مجاز تھے۔ فہرست خلفاے اعلی حضرت اشرفی میاں میں آپ کا اسمِ گرامی دوسرے نمبر پر اس طرح درج ہے:
’’سید شاہ فضل حسین اشرفی جیلانی، برادرِ عم زاد کو شرف بیعت سے قبول فرمایا، بیعت عثمانی میں داخلِ سلسلہ کیا۔‘‘
رئیس الاتقیاء حضرت سید شاہ فضل حسین اشرفی کا نکاح خانوادۂ اشرفیہ احمدیہ، جائس، رائے بریلی میں حضرت نورالمشائخ سید شاہ علی حسن اشرفی احسنؔ جائسی (1233- 1327 ھ /1910-1818ء) کی حقیقی بہن سے ہوا تھا۔
حضرت نورالمشائخ زبردست عالم و فاضل، بلند پایہ عربی و فارسی شاعر و ادیب، نامور صوفی اور صاحبِ جائیداد تھے لیکن کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ اپنے بھانجوں سے کافی محبت و شغف رکھتے تھے۔ حضرت سید نذر اشرف اپنے پیارے ماموں کے دولت خانہ فیض کاشانہ ہی میں رہا کرتے تھے۔
تعلیم و تربیت:
حضرت سید نذر اشرف اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ آپ کے والد گرامی فاضل درس نظامی تھے اور حقیقی ماموں نورالمشائخ حضرت علامہ مولانا سید شاہ علی حسن اشرفی جیلانی احسنؔ جائسی (وصال: 1327 ھ /1910ء)حضرت بحرالعلوم مولانا عبدالحئی فرنگی محلی(1264-1304ھ /1848 -1886 ء) کے ہم عصر و ہم درس تھے۔ زبردست عالم وفاضل اور بلند پایہ فارسی و عربی شاعر و ادیب تھے۔ حضرت سید نذر اشرف نے انہی دو بزرگوں سے پڑھا اور زیر سایہ رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کی۔
علم طِب و حکمت میں حضرت سید نذر اشرف ’’مسیح الملک‘‘ حکیم اجمل خاں (وصال: 1345ھ /1927ء) کے شاگرد تھے۔ طب و حکمت میں آپ کی مہارت کے بارے میں علامہ سید حسن مثنیٰ اشرفی جیلانی کچھوچھوی لکھتے ہیں:
’’حکیم سید نذر اشرف جیلانی ایک ماہرامراض حکیم تھے۔ ایسے اعلیٰ درجے کے حاذق حکیم کہ آپ علاج کے سلسلے میں مریض کے کچھ کہنے سے پہلے ہی صرف اس کی آواز سُن کر لاحق شدہ مرض کا نام بتا دیتے، اور اگر کوئی شدتِ مرض کے سبب مُطب نہ آپاتا تو مریض کے کپڑے کی بو سونگھ کر مرض بھی بتا دیتے بلکہ مؤثر دوا بھی عنایت کر دیتے تھے۔‘‘
حکیم الاسلام نے طب و حکمت کا تین سالہ کورس مکمل کرنے کے بعد جامعہ مرادآباد میں باقاعدہ درس نظامی کا نصاب مکمل کیا، اور معقولات و منقولات کے جید عالم و فاضل بن کر اُبھرے۔ آپ کی حیات مبارکہ کے قیمتی شب وروز خدمتِ دینِ متین بہ ذریعہ درس و تدریس، تصنیف و تالیف اورشعر گوئی میں گزرے۔
حکیم الاسلام کا شعر و ادب کی طرف خاصہ لگاؤ رہا، اس فن کے وہ مایہ ناز استاد سخن سمجھے جانے لگے، کہا جاتا کہ شاعری میں داغؔ دہلوی (وصال: 1322ھ/1905ء)سے بھی استفادہ کیا تھا۔ لیکن شاعری میں مستقل طور پر اپنے عزیز ماموں حضرت نورالمشائخ سید شاہ علی حسن احسنؔ جائسی کے شاگرد تھے۔ حکیم الاسلام ’’فاضلؔ‘‘ تخلص فرمایا کرتے تھے اور ادبی حلقوں میں ’’فاضلؔ کچھوچھوی‘‘ کے نام سے مشہور و معروف تھے،مگر بعض شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ’’ ‘اشرف‘‘ بھی تخلص کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔
بیعت و خلافت:
حضرت حکیم الاسلام سید شاہ نذر اشرف کچھوچھوی غالباً اپنے حقیقی ماموں حضرت نورالمشائخ سید شاہ علی حسن اشرفی جائسی (وصال: 1327 ھ /1910ء)یا پھر اپنے خُسر ہم شبیہ غوث اعظم محبوب ربانی مخدوم الاولیا شیخ المشائخ اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی(1266-1355ھ / 1849-1936ء) کے مرید تھے۔
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی فہرستِ خلفا بعنوان ’’سادات خلفاے کرام‘‘ میں سب سے پہلے آپ ہی کا نام اس طرح درج ہے:
’’سید شاہ مولوی حکیم سید نذر اشرف اشرفی جیلانی، داماد، برادر زادۂ اعلیٰ حضرت بعطاے تاج و و دلق و مثال خلافت چہاردہ میں مجاز و مازون کیے گئے۔ کچھوچھہ شریف، ضلع فیض آباد۔‘‘
تصنیف و تالیف:
حضرت حکیم الاسلام ایک بہترین ادیب اورصاحب تصانیف بزرگ تھے۔ آپ کے قلمی نگارشات کی مختصر فہرست حسب ذیل ہے:
کتب: (1)مجموعہ کلام… (2) شریعت و طریقت (بزبانِ فارسی، قلمی )…(3) ترجمہ لطائف اشرفی بنام ’’برکات چشتیہ‘‘ (صرف نو[9]لطائف کا ترجمہ)… (4) قصیدۂ معراجیہ۔
مقا لات :
(1) توحید ؛ (2) نبوت؛ (3) نبوت و رسالت؛ (4) خلافت و امامت؛ (5) شریعت و طریقت-
شادی /نکاح:
حکیم الاسلام رئیس الحکما کا عقد نکاح مخدوم الاولیا محبوب ربانی اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی کی شہزادی حضرت مخدومہ محترمہ سیدہ محمدی خاتون سے ہوا۔ جو انتہائی فضل و کرم کی حامل خاتون تھیں۔ ولی کی بیٹی، ولی کی بہن، خود وَلیہ اور ایک ولیِ کامل کے عقد نکاح میں آئیں تھیں۔
اَولاد و امجاد:
حکیم الاسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک شہزادہ (محدث اعظم حضرت سید محمد اشرفی جیلانی )اور دو شہزادیوں (مخدومہ سیدہ احمدی خاتون، مخدومہ سیدہ صاحبہ) سے نوازہ تھا۔
1) محدث اعظم مخدوم ملت حضرت سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی کی اولاد میں:
i) حضرت سید محامد اشرف مجذوب الٰہی۔
ii) حضرت سید حسن مثنیٰ اشرفی الجیلانی انورؔ کچھوچھوی۔
iii) حضرت سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی اختر ؔکچھوچھوی۔
iv) حضرت سید محمد ہاشمی اشرفی الجیلانی اطہر ؔکچھوچھوی۔
v) حضرت مخدومہ سیدہ اقبال بانو اشرفیہ۔
vi) حضرت مخدومہ سیدہ سلطانہ خاتون اشرفیہ۔
2) حضرت مخدومہ سیدہ احمدی خاتون کی اولاد میں:
i)حضرت سید قمرالدین اشرف اشرفی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)۔
ii)حضرت سید بدرالدین اشرف اشرفی (سرپنچ، دولہوپور)۔
3) حضرت مخدومہ سیدہ صاحبہ (زوجہ حضرت حبیب اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی) کی اولاد میں:
i) حضرت ڈاکٹر سید امین اشرف اشرفی جیلانی (سابق پروفیسر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)۔
ii) حضرت سید حمید اشرف اشرفی جیلانی (سابق پروفیسر ریاض یونیورسٹی، سعودی عرب)۔
iii) حضرت ڈاکٹر سید وحید اشرف اشرفی جیلانی (سابق ڈین و پروفیسر مدراس یونیورسٹی)۔
iv) حضرت سید احمد اشرف اشرفی جیلانی (اورسئر، پرتاب گڑھ، یوپی)۔
شعری و ادبی خدمات:
حکیم الاسلام رئیس الحکما گوں ناگوں اوصاف کے حامل بزرگ ہونے کے علاوہ میدان شعر و سخن کے بھی شہ سوار تھے، بدیہہ گوئی میں آپ کو درکِ کمال حاصل تھا۔افسوس آپ کے کلام کا مجموعہ ایک اتفاقی حادثہ میں نذر آتش ہوگیا۔ لیکن عرفا و مشائخ اشرفیہ کی کتب، مضامین اور ’’ماہنامہ اشرفی‘‘میں آپ کا کلام چیدہ چیدہ ملتا ہے۔
ایک مرتبہ آپ کے صاحب زادے محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ عرفاے خانوادۂ اشرفیہ (شیداؔ، نظرؔ اور برقؔ کچھوچھوی وغیرہ) کسی نجی ادبی محفل میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری کا ’’قصیدہ معراجیہ‘‘ اپنے خاص لہجے اور والہانہ پیراے میں سنایا۔ اس ـ’’قصیدہ معراجیہ‘‘ کو سننے اور محظوظ ہونے کے بعد اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے قصیدے کی بہت تحسین و آفرین فرمائی گئی۔ پھر حضرت حکیم الاسلام نے بھی معراج النبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے واقعات سے متعلق اشعار موزوں کیے ؎
عروج کی شب عجیب شب تھی عجب تھا جلوہ عجب سماں تھا
زمیں تھی ساکت، پہاڑ بے حِس عجیب چکر میں آسماں تھا
ستارے باہم تھے نور افشاں فلک کا ہر حصہ تھا چراغاں
جہاں میں ذرے چمک رہے تھے زمیں کا ہر گوشہ کہکشاں تھا
محب و محبوب کی تجلی سے سب حجابات اٹھ گئے تھے
عجب تماشہ تھا چار جانب عیاں نہاں تھا نہاں عیاں تھا
(بروایت: حضرت سید قطب الدین اشرف اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ)
مذکورہ اشعار سے آپ کے کمال شاعری، قادرِ کلامی اور وصف بدیہہ گوئی پر نہ صرف بھر پور روشنی پڑتی ہے بلکہ کچھوچھہ مقدسہ کی سر زمین پر ایسے با ذوق شعراء کی پیدائش سے یہاں کے شعر و حکمت، علم و عرفان کی فضاء سے بھی آشنائی حاصل ہوتی ہے۔
سیاسی و ملی خدمات:
حکیم الاسلام اپنے دور کی تمام سُنّی تحریکات سے جڑے ہوئے تھے۔ آپ اپنے خُسر، ہم شبیہِ غوثِ اعظم محبوب ربانی مخدوم الاولیاء اعلیٰ حضرت سید علی حسین اشرفی کچھوچھوی، اپنے بہنوئی عالم ربانی واعظِ لاثانی، حضرت سید احمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی، اپنے عزیز دوست وکیل اہلِ سُنّت صدرالافاضل علامہ مولانا حکیم مفتی سیدنعیم الدین اشرفی مرادآبادی اور اپنے صاحب زادے گرامی حضرت مخدوم ملت محدث اعظم سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے ساتھ ’’آل انڈیا سُنّی کانفرنس‘‘ منعقدہ 16؍ مارچ تا 19؍ مارچ 1925ء بمقام مرادآباد میں شرکت فرمائی۔اس کانفرنس میں آپ نے اپنا کلام بھی پڑھا۔ جسے تاریخ نے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔ اس نظم کو سننے کے بعد سامعین و شرکاے کانفرنس میں ایک جوش و وَلولہ پیدا ہوگیا تھا۔ اسے ہم یہاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ؎
یہ مجمع اہل سنت کا یہ منظر شان و شوکت کا
ذرا دیکھے کوئی اس وقت چہرہ میری حسرت کا
یہ جوشِ دین حق ہے یا کرشمہ حق کی رحمت کا
یہ یاد ماسبق ہے یا تماشہ اس کی قدرت کا
سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں اک وجد ہے دل کو
یہ خوش وقتی کی حالت ہے یہ عالم ہے مسرت کا
لگا لے جلد اے تائید غیبی اپنے سینے سے
کہ ہر سنی ترا بچھڑا ہوا ہے مدت کا
بڑھادے سطوت جمہوریت کو اے میرے خالق
دکھادے صورت موصود و صدقہ اپنی وحدت کا
الٰہی اتحاد باہمی کی دھاک ہو قائم
ہو شہرہ چار سو آل انڈیا سُنّی جماعت کا
یہ مجمع اہل سنت کا یہ منظر شان و شوکت کا
ذرا دیکھے کوئی اس وقت چہرہ میری حسرت کا
یہ جوشِ دین حق ہے یا کرشمہ حق کی رحمت کا
یہ یاد ماسبق ہے یا تماشہ اس کی قدرت کا
سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں اک وجد ہے دل کو
یہ خوش وقتی کی حالت ہے یہ عالم ہے مسرت کا
لگا لے جلد اے تائید غیبی اپنے سینے سے
کہ ہر سنی ترا بچھڑا ہوا ہے مدت کا
بڑھادے سطوت جمہوریت کو اے میرے خالق
دکھادے صورت موصود و صدقہ اپنی وحدت کا
الٰہی اتحاد باہمی کی دھاک ہو قائم
ہو شہرہ چار سو آل انڈیا سُنّی جماعت کا
الٰہی جوش یہ بننے نہ پائے جوش سوڈا کا
یہ دل کا ولولہ ہونے نہ پائے آلہ شہرت کا
الٰہی پاک ہو یہ انجمن اعتراض ذاتی سے
چراغ بزم قومی داغ ہو سچی محبت کا
ہمیں نے راست بازی رحمت عالم سے سیکھی ہے
ہمارا ہی لقب ہے دو جہاں میں اہل سنت کا
ابو بکر و عمر عثمان و حیدر سے سبق پایا
صداقت کا عدالت کا مروت کا سخاوت کا
درخشاں ہو گیا ہر سُو فروغِ ملت بیضا
ہوا پیش نظر نقشہ یہ کس کے فیض صحبت کا
نگاہوں میں ہوئی پیدا چمک برق تجلی کی
تصور آگیا یارب یہ کس نوری کی صورت کا
حقیقت کے رُخ زیبا سے پردہ اُٹھ گیا سارا
مزہ ملنے لگا دل کو شریعت سے طریقت کا
اٹھے مینا چلے ساغر مے وحدت پلا ساقی
کرم کی ہے گھٹا چھائی اٹھا ہے ابر رحمت کا
در پاک نبی پر آج جانبازوں کا مجمع ہے
دلوں میں موج زن ہے شوق روحانی شہادت کا
جھکا ہے سر ہمارا نام لکھ لے سرفروشوں میں
الٰہی اب اٹھے خامہ تیری دست ِ عنایت کا
خداوندا تیری درگاہ میں اسلام آیا ہے
سُنا ہے تیرے در پر فیصلہ ہے آج قسمت کا
لُٹے دولت مگر قائم رہے اسلام کی سطوت
مٹے دنیا مگر زندہ رہے اعزاز ملت کا
ہمارا حسن خدمت دیکھ کر یارب کہے دنیا
کہ یہ اک ناز پروردہ ہے آگوش کرامت کا
ہمارا شور ہو کونین کی عزت کا سرمایہ
ہمارا درد ہو یارب خزانہ مال و دولت کا
کہاں ہیں عالم و فاضل کہاں ہیں مرشد و کامل
علاج آکر کریں اسلام کے درد و مصیبت کا
جو مثل گرد اُٹھتا ہے تو اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہے
سناؤں حال کیا میں دین کی ضعف و نقاہت کا
عدو نے خانماں لوٹا، ہوا رسوا، وطن چھوٹا
دقیقہ کوئی باقی ہے نہ ذلت کا نہ غربت کا
ضرورت کے موافق دین کی کرتا ہے جو خدمت
وہی عالم ہے شیدا دِل سے تبلیغ و ہدایت کا
بتایا ہے ہمیں انداز اصحابِ پیمبر نے
سلوکِ معرفت ہے نام مذہب کی حمایت کا
کدھر ہیں مال و زر والے کدھر ہیں بال و پر والے
ذرا اخلاص دیکھیں آکے اپنے ملک و ملت کا
کوئی عریاں کوئی گریاں کوئی افتاں کوئی خیزاں
عجب عالم ہے غربت کا عجب نقشہ ہے حسرت کا
معاذ اللہ یہ ذلت یہ رسوائی کہ دنیا میں
گدائی آج پیشہ ہے حبیبِ حق کی امت کا
خیانت کے لیے دنیا میں مسلم ڈھونڈے جاتے ہیں
یہ اک ادنیٰ سا قصہ ہے مسلمانوں کی شامت کا
جہالت کی یہ حالت ہے کہ لاکھوں ایسے مسلم ہیں
جو پڑھ سکتے نہیں پوری طرح کلمہ شہادت کا
بنادے قوم کو یارب بہار حسن بیداری
اٹھادے اس کے چہرے سے الٰہی پردہ غفلت کا
خدا کے واسطے بیدار ہو جاؤ مسلمانو!
کہ ہے یہ وقت غیرت کا زمانہ ہے حمیت کا
کہیں ایسا نہ ہو کل گور کے تاریک گوشے میں
ملے موقع جناب شاہ مرسل کو شکایت کا
یہ کیا بندہ نوازی ہے خداوندا تیرے صدقے
کہ توبہ ایک تحفہ ہے تری درگاہ عظمت کا
الٰہی یہ کرم تیرا کہ جو شرمندہ ہوتا ہے
تری دلداریاں منہ چوم لیتی ہے ندامت کا
بہت بیتاب ہیں قومیں بہت اسلام مضطر ہے
الٰہی جلد دکھلادے زمانہ خیر و برکت کا
اٹھے بادل بہار آئی پھلیں شاخیں چمن پھولے
غزل یہ بلبلیں گائیں سماں رقصاں ہو نکہت کا
ستارہ قوم کا چمکے بڑھے اجماع کی سطوت
لٹے دولت بٹے باڑہ بجے نقارہ نوبت کا
رہے یہ جوش مذہب یا الٰہی حشر تک قائم
یہی دو حرف مطلب ہے خلاصہ عرض حاجت کا
مجھے کہتے ہیں سب فاضلؔ میں ایسا مدفاضل ہوں
مگر دل سے دعا گو ہو ں میں اپنے ملک و ملت کا
(خطبات آل انڈیا سُنّی کانفرنس؛ص230-228 ۔ ماہنامہ اشرفی، کچھوچھہ شریف، اپریل 1925ء؛ ص16-14)
حضرت حکیم الاسلام سید نذر اشرف اشرفی جیلانی فاضلؔ کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کے ادبی اور دینی خدمات میں مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی ( 708- 808ھ/ 1308- 1405ء) کے ملفوظات ’’لطائف اشرفی‘‘ کا پہلی بار ترجمہ بھی شامل ہے۔ حکیم الاسلام نے اس ترجمہ کا آغاز 1342ھ / 1923 ء میں کیا تھا اورجب ’’ماہنامہ اشرفی‘‘ جب کچھوچھہ شریف سے شائع ہونے لگا تو یہی ترجمہ اصل فارسی متن کے ساتھ قسط وار بنام ’’برکات چشتیہ‘‘شائع ہوا کرتا تھا۔ اس ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ مخدوم پاک کا عارفانہ فارسی کلام کا اردو ترجمہ بھی حکیم الاسلام نے اردو نظم میں فرمایا ہے۔ آپ کے اس منظوم اردو ترجمے سے ادب شناس حضرات کو یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہ ہوگا کہ حکیم الاسلام کا ادبی مقام کس قدر بلند تھا۔یہ سلسلہ ’’ماہنامہ اشرفی‘‘ کے بند ہونے یعنی1345ھ/ 1926ء تک جاری رہا اور صرف نو[9]لطائف کا ترجمہ ہے ہو پایا تھا۔ بھاگل پور کے ایک علم دوست اور باذوق صاحب نے ان تمام قسطوںکو ایک فائل میںجمع کیا تھا جو تقریباً 600؍ صفحات پر محیط ہے۔
حکیم الاسلام کی تدریسی خدمات:
خانقاہِ اشرفیہ کے ساتھ ایک مدرسہ بنام ’’اشرف المدارس‘‘ کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے۔ یہ مدرسہ 1310ھ / 1892ء یا اس سے قبل قائم کیا گیا تھا۔ بعد میں اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیا محبوب ربانی اعلیٰ حضرت علامہ مولانا سید شاہ علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی (1266-1355ھ / 1849-1936ء)سلطان الواعظین عالم ربانی علامہ سید احمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی (1286-1347ھ / 1869-1928ء) کی خصوصی توجہ سے یہ مدرسہ ایک عظیم جامعہ کی صورت اختیار کر گیا۔
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے اس جامعہ کا سنگ بنیاد 1340ھ/ 1921ء میں رکھا۔ یہی جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ کہلانے لگا۔ اس جامعہ میں تدریسی خدمات دینے والے اکابرین علماے اہلِ سُنّت کی فہرست سے ہی اس جامعہ کے علمی معیار اور مرکزی اہمیت و مقام کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ کچھ اساتذۂ جامعہ اشرفیہ کا یہاں ذکر خیر بیجا نہ ہوگا:
(1) عالم ربانی حضرت سید احمداشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی، خلف اکبر اعلیٰ حضرت اشرفی میاں…
(2) علامہ مولانا عمادالدین سنبھلی اشرفی…
(3)اشرف المفسرین حکیم الامت مفتی احمد یار خان اشرفی نعیمی بدایونی…
(4)استاد العلماء علامہ مفتی عبدالرشید خاں اشرفی نعیمی فتحپوری…
(5) علامہ شاہ سید محی الدین اشرف اشرفی جیلانی…
(6)شیخ الحدیث علامہ مولانا سید معین الدین اشرفی جیلانی کچھوچھوی…
(7) محدث اعظم مخدوم الملت سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی…
(8) استاذ العلما علامہ مولانا مفتی سلیمان اشرفی بھاگلپوری…
(9) حضرت علامہ مولانا مفتی آل حسن اشرفی سنبھلی …
(10)سرکار کلاں مخدوم المشائخ سید مختار اشرف اشرفی جیلانی …
(11) حضرت علامہ مولانامفتی افضل الدین اشرفی نعیمی بہاری …
(12) حضرت علامہ مولانامفتی باقرعلی اشرفی نعیمی گیاوی …
اسی مدرسہ’’اشرف المدارس‘‘ اور ’’جامعہ اشرفیہ ‘‘ سے حکیم الاسلام تاحیات مبارکہ وابستہ رہے اور عمر کے آخری ایام تک یہیں درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھا۔ حکیم الاسلام کے شاگردوں میں آپ کے فرزند گرامی قدر حضرت محدث اعظم کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔ آپ نے اپنے لخت جگر کو گلستاں، بوستاں، گل زار بوستاں، انوار سہیلی، قصائد عرفیؔ و انوریؔ اور دیوانِ حافظؔ وغیرہ کا درس دے کر فارسی زبان و ادب کا شناور بنادیا۔ ان کتابوں کے علاوہ درس نظامیہ کی ابتدائی کتب سے کافیہ تک بھی آپ ہی نے محدث اعظم کو بڑے ہی اہتمام سے پڑھایا۔
حکیم الاسلام اور حکیم الامت:
اشرف المفسرین حکیم الامت مفتی احمد یار خان اشرفی نعیمی کو بھی شعر و ادب کی طرف توجہ حضرت حکیم الاسلام نے ہی دلائی۔ ہو ایوں کہ جب حضرت حکیم الامت کچھوچھہ مقدسہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تو انہی دنوں میں کسی ادبی محفل میں حضرت حکیم الاسلام نے حکیم الامت کو ان کا کلام پیش کرنے کی دعوت دی۔ کیوں کہ حکیم الامت کو نہ شاعری سے کچھ خاص شغف تھا نہ آپ خود اپنا کلام موزوں فرمایا کرتے تھے، اس لیے آپ نے اپنی معذوری عرض کر دی۔ حکیم الاسلام کو شعر و ادب سے کافی لگاؤ تھا، جیسے ہی آپ نے یہ سُنا برجستہ ارشاد فرمایا:
’’وہ عالم ہی کیا جو شاعری نہیں کرتا‘‘۔ (بقول علامہ ڈاکٹر سید علیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی آپ نے ارشاد فرمایا: ’’آپ نصف عالم ہیں‘‘۔ )
حکیم الامت نے یہ سُن کر فن شاعری کی علما و مشائخ میں اہمیت کا اندازہ لگا لیا۔ آپ نے پھر اس فن پر توجہ فرمائی اور اپنی شعری زندگی کا آغاز کیا اور ’’سالکؔ‘‘ تخلص فرمانے لگے۔ لفظ ’’سالک‘‘ انہی عرفانی و صوفیانہ محافل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ گویا حکیم الاسلام کا یہ جملہ حکیم الامت کو اس راہ کا سالک بنا دیا۔ (بروایت: علامہ مولانا سیف خالد اشرفی بھاگلپوری)
وصال پر ملال:
حکیم الاسلام رئیس الحکماء حضرت علامہ مولانا سید نذر اشرف اشرفی جیلانی فاضلؔ کچھوچھوی کا وصال 1358ھ /1939ء میں کچھوچھہ مقدسہ میں ہوا۔ آپ کا مزار پاک حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے گنبد کی پائنتی میں ’’نیر شریف‘‘ (نہر) کے دامن میں ’’احاطہ اشرفی میاں‘‘ میں واقع ہے۔
(نوٹ:حکیم الاسلام رئیس الحکماء حضرت علامہ مولانا سید نذر اشرف اشرفی جیلانی فاضلؔ کچھوچھوی کے مکمل سوانح حیات، مقالات اوران کا کلام جواب تک حاصل ہوا ہے بہت جلد شائع ہونے جارہا ہے۔)