Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

حضرت شیخ الاسلام ایک تاثرــــــ

محقق مسائل جدیدہ محمد نظام الدین رضوی مصباحی

صدر شعبۂ افتا و صدر المدرسین الجامعۃ الاشرفیہ ، مبارک پور ، اعظم گڑھ 

(مفتی صاحب کایہ مقالہ ’’حضرت شیخ الاسلام :حیات و خدمات سیمینار‘‘ منعقدہ مدنی فائونڈیشن ہبلی میں پڑھاگیانیز ماہنامہ جام نور نےشمارہ ستمبر 2015 کوشائع کیا۔ افادۂ عامہ کے لیے پیش ہے)

حضرت شیخ الاسلام ایک تاثرــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــنائب سیدِ ابرار ہیں شیخ الاسلام
صالح و صاحبِ کردار ہیں شیخ الاسلام
رب نے بخشا ہے انھیں علمِ کتاب و سنت
فقہ میں واقفِ اسرار ہیں شیخ الاسلام
نئے درپیش مسائل میں کی بحث و تحقیق
واقفِ عرف و ادوار ہیں شیخ الاسلام
زہد و تقویٰ و قناعت و تفقہ کے سبب
شامل زمرۂ اَخیار ہیں شیخ الاسلام
شیخ الاسلام حضرت علامہ و مولانا الحاج سیدمحمد مدنی میاں اشرفی جیلانی ہندوستان کی عظیم خانقاہ ’’خانقاہ عالیہ اشرفیہ ‘‘ کے گل سرسبد اور محدث اعظم ہند سید محمد میاں اشرفی جیلانی رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ آپ ملک کی عظیم علمی دانش گاہ ازہر ہند دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم کے تربیت یافتہ اور بافیض عالم دین ہیں۔ اس وقت آپ کا شمار صفِ اول کے اکابر علما میں ہوتا ہے۔ آپ بیک وقت مفسر، محقق، مفتی ، شاعر، بلند پایہ خطیب ، مصنف اور صاحب طرز انشاپرداز ہیں۔ طہارت و پاکیزگی ، تقوی و پرہیزگاری ، شرافت و سادگی ، بے تکلفی آپ کے اوصاف ہیں۔ میں آپ کے اوصاف و خصائل ، قابلیت و لیاقت اور دینی خدمات و کارناموں سے متاثر ہوں۔
ایک مفسر کی حیثیت سے میدان تفسیر میں قدم رکھا تو ’’تفسیر اشرفی‘‘ کی مکمل چھ جلدیں منصۂ شہود پر آگئیں۔ تفسیر اشرفی تفاسیر کی معتمد کتابوں سے ماخوذ ایک مختصر و جامع تفسیر ہے۔ اس میں قرآنی احکام و مسائل کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بہترین انداز میں سپرد قلم کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر عام اردو داں طبقہ اور مصروف ترین لوگوں کے لیے بہت مفید ہے کہ مختصر وقت میں وہ قرآن حکیم کے معانی و مفاہیم سے آگاہ ہو ں گے اور اس سے ان کے اندر قرآن فہمی کا شعور بیدار ہوگا۔
علم و تحقیق میں آپ اپنے اَقران میں نمایاں اور منفرد نظر آتے ہیں۔ تحقیق کے آئینے میں آپ مسائل کو منقح کرتے ہیں۔ آپ کے علمی و تحقیقی مقالات اس پر شاہد ہیں اور آپ کی تحقیقی کتابوں کا آئینۂ جمال اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔
فقہ اور فتوی نویسی بھی آپ کا مخصوص فن ہے۔ آپ کے فتاوی سے آپ کی فقہی بصیرت اجاگر ہوکر سامنے آتی ہے۔ آپ کو فقہی ممارست اور فقہی ژرف نگاہی حاصل ہے اور یہ سب رب قدیر کا فضل و احسان ہے۔ صادق و مصدوق رسول گرامی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’من یرد اللہ بہ خیرًا یفقہہ في الدین‘‘ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بناتا ہے۔(صحیح البخاری ، کتاب الایمان)فقہ کا علم کسبی سے زیادہ وہبی ہے۔ بندہ اتباع سنت اور اخلاص و للّٰہیت کے ساتھ جب جد و جہد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے فقہ کی نعمت سے سرفراز کرتا ہے۔ 
ایک مفتی کو جن اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے ، مثلاً: 
1)  مذہب کے متون ، شروح و فتاوی پر اس کی گہری نظر ہو، ساتھ ہی استحضار ہو۔
2) عرفِ ناس و حالات زمانہ سے باخبر ہو۔
3)  سوال فہم ہو، سائل کے خلجان اور اس کی الجھن کو سمجھ سکے۔
4)  جواب تحقیق کے ساتھ لکھے اور مذہب کے جزئیات مفتیٰ بہا سے استناد کرے۔
5  )  جواب، مسئلہ کے تمام ضروری گوشوں کو محیط ہو۔
ان اوصاف کے حضرت شیخ الاسلام جامع نظر آتے ہیں۔ کتابت نسواں اور عصری تقاضے ، ویڈیو ٹی وی کا شرعی استعمال، جدید ذرائع ابلاغ سے چاند کا ثبوت اور نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال وغیرہ جدید مسائل پر قلم اٹھایا تو دلائل کی روشنی میں سیر حاصل بحث فرمائی۔ ایک جانب آپ کے قلم زرنگار سے نکلے ہوئے یہ فتاوے آپ کی فقہی بصیرت کی شہادت دے رہے ہیں تو  دوسری جانب آپ کے محققانہ مزاج سے روشناس کرا رہے ہیں۔ 
شیخ الاسلام کے وعظ و خطاب کا ایک زریں دور تھا، میدان خطابت کے شہ سوار کے طور پر جانے جاتے تھے ’’خطیب ایشا و یورپ‘‘ کے لقب سے ملقب کیے جاتے تھے، صحیح معنوں میں آپ اس لقب کے بجا طور پر مستحق تھے۔ آپ کے خطاب علمی و فنی محاسن پر مشتمل ہوتے تھے۔ تقریر کی اثرانگیزی کا یہ عالم تھا کہ سامعین پر عجیب رقت اور وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ آپ کے سنجیدہ، مدلّل اور اثر انگیز خطابات سے دین و سنیت کا عظیم کام ہوا۔ اور یہ تقریریں اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں معاون ثابت ہوئیں۔ ’’خطبات برطانیہ‘‘ کے نام سے آپ کے خطبات کا ایک مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے جو ان امور کا شاہد ہے۔ 
جب آپ اپنے اشہب قلم کو تیز گام کرتے ہیں تو مقالات و مضامین اور تصنیفات و تالیفات شائع ہو کر داد و تحسین وصول کرتی ہیں۔ آپ کی تحریریں ایک صاحب طرز ادیب و انشا پرداز ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ کی تحریروں میں مضامین کی عمدگی ، زبان و بیان کی دل کشی کے ساتھ ادب عالیہ کے بہترین نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں آپ کی تصنیفات و تالیفات کی ایک فہرست پیش کر دیں تا کہ آپ کی قلمی خدمات کی ایک جھلک قلب و ذہن میں منتقش ہو جائے۔ آپ کی کتابوں کے نام اس طرح ہیں:
(۱) سید التفاسیر معروف بہ تفسیر اشرفی (چھ جلدیں) (۲) امام احمد رضا اور اردو تراجم کا تقابلی مطالعہ 
(۳)تعلیم دین و تصدیق جبرئیل امین (حدیث جبرئیل کی فاضلانہ تشریح) (۴) انما الاعمال بالنیات (۵) الاربعین الاشرفی(۶) محبت رسول روح ایمان   (۷) دین اور اقامت دین(۸) مقالات شیخ الاسلام(۹) خطبات برطانیہ(۱۰) اسلام کا تصورِ الٰہ اور مودودی صاحب (۱۱) اسلام کا نظریۂ عبادت اور مودودی صاحب (۱۲) ویڈیو ٹی وی کا شرعی استعمال(۱۳) فریضۂ دعوت و تبلیغ (۱۴) مسلم پرسنل لا یا اسلامک لا(۱۵) نظریۂ ختم نبوت اور تحذیر الناس (۱۶) دین کامل(۱۷) کتابتِ نسواں اور عصری تقاضے(۱۸)تجلیات سخن (حمد و نعت کا مجموعہ)
یہ تمام کتابیں آپ کی جلالت علمی سے روشناس کرانے کے لیے کافی ہیں۔ آپ کے علمی استعداد کا غلغلہ پورے ہندوستان میں جب پھیلا تو آپ کی شخصیت سے مجھے غائبانہ تعارف  حاصل ہوا۔ اس وقت افق ہند پر آپ کے علمی رعب و دبدبہ کا بول بالا اور شہرہ ہو چکا تھا۔ لیکن آپ سے کوئی قریبی تعارف نہیں تھا۔ ’’کل ہند شرعی بورڈ‘‘ اور راقم السطور کی کتاب ’’لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم‘‘ قریبی تعارف کا سبب بنے۔
آپ نے مذکورہ بورڈ اور کتاب کے لیے اپنی تحقیقات کا جو تعاون دیا اسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ہم ذیل کے سطور میں آپ کی ان تحقیقات کو پیش کرتے ہیں تا کہ آپ کو حضرت شیخ الاسلام کی فقہی بصیرت کا اندازہ ہو سکے۔ 
۳؍ ذی قعدہ ۱۴۰۵ھ مطابق ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۵ء کو جدید مسائل کے حل کے لیے ’’کل ہند شرعی بورڈ‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جو تیس ارکان پر مشتمل تھا۔ ارکان میں شیخ الاسلام علامہ سید شاہ محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کا نامِ نامی اسم گرامی بھی شامل تھا۔ بحث کے لیے دو موضوعات منتخب ہوئے تھے۔ رویت ہلال اور لاؤڈ اسپیکر پر نماز۔ نو سوالات پر مشتمل سوال نامہ رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مرتب فرمایا تھا، جسے آپ نے علماے کرام و مفتیان عظام کی خدمات میں ارسال کیا۔ کل پندرہ مقالات فتاوی بورڈ کو موصول ہوئے اور بحث و تمحیص کے لیے مختلف اوقات میں چار نشستیں ہوئیں۔ بلفظ دیگر چار فقہی سیمینار ہوئے۔ 
پہلی نشست: ۱۵؍ صفر ۱۴۰۶ھ مطابق ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۸۵ء بمقام جامعہ حمیدیہ ،بنارس۔
دوسری نشست : ۳؍ ۴؍ ذو قعدہ ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۱؍ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۶ء بمقام جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور
تیسری نشست: ۲۶؍ ۲۲۷؍ ۲۸؍ ۲۹؍ جمادی الاولی ۱۴۰۷ھ مطابق ۲۷؍ ۲۸؍ ۲۹؍ ۳۰؍ جنوری ۱۹۸۷ء۔ بمقام جامعہ اشرفیہ مبارک پور
چوتھی نشست: اوائل ذو قعدہ ۱۴۰۷ھ بمقام جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور۔
شرعی بورڈ کے اجلاس میں شیخ الاسلام اپنے دینی و تبلیغی دوروں کے سبب شرکت تو نہیں فرما سکے لیکن تحریری شکل میں اپنا علمی و تحقیقی تعاون دیا۔ شرعی بورڈ کے لیے حضرت علامہ ارشد القادری کے نو سوالات پر مشتمل سوال نامے کا آپ نے جو تحقیقی جواب تحریر فرمایا وہ آپ کے فقہی کمال و بصیرت کا منہ بولتا نمونہ ہے۔ ہم یہاں سوال نامہ اور ’’فتوی بشکل مکتوب‘‘ مِن و عَن پیش   کرتے ہیں۔
سوال نامہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسائل میں : 
۱) چاند کی شہادت گزر جانے کے بعد فیصلے کے اعلان و خبر کے لیے شامی ج ۲ ص ۱۰۶ کے ذکرکردہ جزئیہ ’’روشنی اور گولے کی آواز‘‘ پر قیاس کرتے ہوئے موجودہ ذرائع ابلاغ میں سے ریڈیو اور ٹیلیفون کو خبر رسانی کے لیے کسی شرط کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
۲)غیر مسلم اناؤنسر کے بجائے ٹیپ کے ذریعہ مسلمانوں کا مقرر کردہ قاضی یا اس کے نائب کے فیصلے کا اعلان اگر خود اس کی آواز میں نشر کرایا جائے اور اس بات کی نگرانی کے لیے کہ وہی ٹیپ ریڈیو اسٹیشن سے نشر کیا جا رہا ہے ، قاضی یا نائب قاضی کے دو معتمد اشخاص بھی اسٹیشن پر موجود رہیں تو اس قید کے ساتھ وہ اعلان اُتنے خطے کے لیے قابل عمل ہو گا یا نہیں جتنے خطے کے لیے مسلمانوں نے اُسے قاضی مقرر کیا ہے؟
۳)کسی ایک شخص کو پورے ملک کے لیے یا کسی ایک صوبے کے لیے اگر مسلمانوں نے قاضی نامزد کر دیا تو اس قاضی کو شرعًا یہ اختیار ہوگا یا نہیں کہ وہ ہر صوبے اور ہر صوبے کے ہر ضلع اور ضلع کے ہر شہر اور قصبہ میں اپنے نائبین مقرر کر دے اور وہ چاند کی شہادت لے کر سوال نمبر ۲ میں ذکر کیے گئے قیود کے ساتھ ٹیلیفون کے ذریعہ ملکی یا ریاستی قاضی یا اس کے نائبین کو اپنے فیصلے کی خبر دے تو کیا شرعًا قاضی اور اس کے نائبین کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اس فیصلے کی بنیاد پر سوال نمبر ۲ میں ذکر کئے گئے قیود کے ساتھ ریڈیو کے ذریعہ ملک یا ریاست کے عوام کو رویت کے فیصلے سے باخبر کریں اور کیا ریڈیو کے اس اعلان پر ملک اور ریاست کے عوام کو صوم و افطارِ صوم کے لیے عمل کرنا جائز ہوگا؟
۴)قاضی یا اس کے نائبین کے مخصوص ٹیلیفون نمبر اگر مقررہ خطہ کے رہنے  والے نائبین خود رنگ کرکے قاضی یا اس کے کسی نائب کا فیصلہ معلوم کریں اور ٹیلیفون کے سلسلے میں قاضی اور اس کے سارے نائبین کے درمیان پہلے سے کوئی ایسا مخصوص علامتی نشان مقرر کر دیا جائے جو دوسروں سے مخفی ہو، تاکہ غیر کی مداخلت کا سدّ باب ہو جائے تو ان شرائط و قیود کے ساتھ اُس ٹیلیفون کے ذریعہ قاضی یا اس کے نائبین کے فیصلے کی اطلاع اُس خطے کے مسلمانوں کے لیے قابل عمل ہو سکتی ہے یا نہیں؟ دلائل کے ساتھ واضح فرمائیں۔ اثبات میں بھی اور نفی میں بھی۔ 
۵)رویت کی شہادت گزر جانے کے بعد فیصلے کے اعلان و خبر پر عمل کرنے کے لیے یقین کی ضرورت ہے یا غلبۂ ظن کافی ہے؟
۶)چاند کی شہادت گزر جانے کے بعد فیصلے کا اعلان کرنے والے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کیوں اور اگر نہیں ہے تو ریڈیو سے غیر مسلم اناؤنسر ان الفاظ میں چاند کے فیصلے کا جو اعلان کرتے ہیں کہ’’ فلاں ادارے کے امیر یا فلاں شہر کے مفتی یا فلاں مسجد کے امام کے پاس چاند کی شہادت گزری اور انھوں نے چاند ہونے کا فیصلہ کر دیا‘‘۔ تو وہ اعلان شرعاً قابل اعتبار کیوں نہیں ہے؟
۷)لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ جو آواز نکلتی ہے وہ متکلم کی اصل آواز ہے یا صداے باز گشت کے حکم میں ہے۔ اور اگر وہ متکلم کی اصل آواز ہے تو اس پر انتقال ارکان شرعاً درست ہے یا نہیں؟
۸)اگر لاؤڈ اسپیکر سے نکلنے والی آواز متکلم کی اصل آواز نہیں ہے تو مکبرین کی آواز پر انتقال ارکان کی اگر شرط لگا دی جائے تو اس صورت میں نماز کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز ہوگا یا نہیں؟
اگر نہیں ہے تو عدم جواز کی شرعی وجہ کیا ہے؟ دلائل شرعیہ سے واضح فرمائیں۔
۹)کیا آلۂ لہو و لعب کہہ کر نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو مسترد کیا جا سکتا ہے؟ جب کہ اس کا استعمال اب اذان ، تلاوت، قرآن اور خطبے کے لیے بلا نکیر شائع و ذائع ہے۔ بینوا توجروا
المستفتی
ارشد القادری
       کنوینر شرعی بورڈ ۹؍ ذی قعدہ ۱۴۰۵ھ مطابق ۲۸؍ جولائی ۱۹۸۵ء
حضرت شیخ الاسلام نے ان سوالات کے جوابات بہت بسط و تحقیق کے ساتھ دیے، بلکہ رویت ہلال کے مسئلے میں آپ کا مقالہ سب سے مبسوط تھا، ساتھ ہی بحثوں کے دوران مرکز توجہ بھی رہا۔ ہم یہاں اسی کا ایک حصّہ نذر قارئین کرتے ہیں، آپ اپنا مقالہ بشکل مکتوب تحریر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
گرامی قدر و منزلت! دامت عنایاتکم ــــــــــــــــ۔۔۔۔ و علیکم السلام و رحمتہ و برکاتہ
ثم السلام علیکم و رحمتہ و برکاتہ
مزاج ہمایوں ؟
حضرت مولانا خادم رسول صاحب قبلہ مد ظلہ العالی کے بدست آپ کا روانہ کردہ گرامی نامہ موصول ہو چکا تھا اس کے بعد دوسرا صحیفۂ کرم بھی باصرہ فروز ہوا آپ نے اپنے مکتوب میں جن بزرگانہ نوازشات کا اظہار فرمایا ہے گو میں ان کے لائق نہیں مگر جب انھیں کلمات طیبات کو دعائیہ سانچے میں ڈھال کر سوچتا ہوں تو دل و دماغ پر ایک سرور کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ــــــــــیہ ناچیز اپنے لیے آپ کی خیرطلبی کی اس خصوصی مخلصانہ روش پر بے حد شکر گزار ہے ـــــــــــمیں قطعی اس قابل نہیں ہوں کہ اہلِ علم و فضل میں میرا شمار ہو چہ جائیکہ شرعی بورڈ کا رکن ہونا۔ مجھ پر میری علمی بےبضاعتی اور کوتاہ فکری بالکل واضح ہے مجھے زیب نہیں دیتا کہ ارباب علم و فضل کے سامنے لب کشائی کی جرأت کروں۔ بایں ہمہ اگر ۲۷؍ اکتوبر کو میرا برطانیہ جانے کا پروگرام نہ ہوتا تو ۳۰؍ اکتوبر کو ہونے والی نشست میں حاضر ہو کر اکابرِ ملت کی زیارت اور ان کے ارشادات کی سماعت کی سعادت ضرور حاصل کرتا۔ اب آپ سے گزارش یہ ہے کہ اکابرِ ملت کا جو متفقہ فیصلہ ہو اس سے آپ مجھے ضرورباخبر فرمائیں ، بڑی ہی نوازش ہوگی۔
آپ نے جو سوالات پیش فرمائے ہیں میں اس قابل نہیں ہوں کہ ان کے جوابات کے لیے مجھے مخاطب بنایا جائے مگر امتثالاً لامر السامی ما حضر عرض کرنے پر مجبور ہوں۔ میں نے اپنے ’’ معروضاتِ اصلاح طلب‘‘  کی ترتیب، سوالات کی ترتیب کے مطابق رکھی ہے۔ 
اس ناچیز حقیر الفہم کی تحقیق یہ ہے کہ اگر ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر اعلان بایں الفاظ ہو کہ 
۱)’’فلاں رویت ہلال کمیٹی چاند کا شرعی ثبوت مل جانے کے بعد یہ اعلان کر رہی ہے یا اپنے انتظام سے اعلان کرا رہی ہے کہ رویت ہلال شرعاً ثابت ہو چکی ہے مثلاً صبح سے روزہ رکھا جائے یا صبح کو نماز عید ادا کی جائے‘‘اور یہ کمیٹی جانی پہچانی اور معتبر ہواور اس کے سب ارکان مشرع ہوں 
تو یہ اعلان مقبول ہوگا اور اس پر عمل کرنا واجب ہو جائے گا۔ رویت ہلال کمیٹی نہ ہونے کی صورت میں قاضی القضاۃ کے اعلان کی یہی حیثیت ہوگی۔ اب وہ قاضی اگر پورے ملک کے لیے ہے تو اس کا اعلان پورے ملک کے لیے مقبول ہوگا اور اگر وہ پورے صوبہ کے لیے ہے تو اس کے اعلان پر پورے صوبہ میں عمل کیا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ 
المختصر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اعلان کو روشنی اور گولے کی آواز کے ذریعہ اعلان پر قیاس کرنا بالکل صحیح ہے۔ رہ گئی ٹیلیفون کی اطلاع چوں کہ بہت سے لوگ بیک وقت نہیں سن سکتے اس لیے ایسی اطلاع میں اعلان کی شان نہ ہوگی خواہ ڈائریکٹ ڈائلنگ سسٹم سے ہو یا کسی اور طریقے سے۔ لہٰذا ٹیلیفونی اطلاع کو روشنی اور گولے کی آواز کے ذریعہ اعلان پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔ ہاں اگر یکے بعد دیگرے متعدد افراد کو ٹیلیفون سے اطلاع دی جائے تو بلاشبہہ اعلان کی شان پائی جائے گی اور اس کو روشنی اور گولے کی آواز پر قیاس کیا جا سکے گا۔ 
۲) اگر قاضی یا نائب قاضی کے فیصلے کا اعلان یوں کرایا جائے کہ دو معتبر و معتمد اور لائق شہادت افراد کی موجودگی میں قاضی یا نائب قاضی اپنے  اعلان کے مضمون کو ٹیپ کرائے اور پھر یہ دو معتبر اشخاص اس ٹیپ کے ساتھ خود ریڈیو اسٹیشن جائیں اور پھر اپنی موجودگی میں ریڈیو اسٹیشن سے نشر کرائیں تو وہ اعلان اتنے خطے کے لیے معتبر ہوگا جتنے خطے کے لیے مسلمانوں نے اسے قاضی مقرر کیا ہے۔ 
۳) ملکی یا ریاستی قاضی القضاۃ کے مقرر کردہ ملک کے یا ریاست کے مختلف شہروں اور قصبوں کے ہرنائب کو یہ اختیار تو ہے کہ وہ چاند کی شہادت پا لینے کی صورت میں اپنے متعینہ حلقے میں اعلان کرادے۔ اس اعلان پر اس حلقے کے لوگوں پر افطار و صوم واجب ہو جائے گا۔ مگر اس نائب کی ٹیلیفونی خبر خود ملکی یا ریاستی قاضی القارۃ کے لیے ثبوت ہلال کے لیے کافی نہیں لہٰذا اس خبر کی بنیاد پر قاضی کا اعلان ناقابل قبول ہوگا۔ 
ہاں اگر ایسا ہوا کہ مختلف شہروں اور قصبوں کے اتنے نائبین جن کا کذب پر اتفاق عادتًا ممکن نہ ہو چاند کی شہادت پا لینے کے بعد اپنے ملکی یا ریاستی قاضی کو ٹیلیفون کے ذریعہ خبر دیں اس حال میں کہ قاضی ان کی آواز کو خوب پہچانتا ہو یا کسی علامتی نشان کے سبب نائب ہی کے بولنے کا غلبۂ ظن حاصل ہوتا ہو تو ایسی صورت میں خود قاضی کے لیے بوجہ ’’استفاضۂ خبر‘‘  شرعًا ثبوت ہلال ہو جائے گا اور پھر اس کا اعلان پورے ملک کے لیے واجب العمل ہوگا۔ 
اب رہ گیا یہ سوال کہ : کتنے نائبین کی خبر پر قاضی القضاۃ اعلان کرا سکتا ہے اس کے جواب کے لیے اوّلاً یہ وضاحت ضروری ہے کہ جماعت کا اطلاق کم از کم کتنے افراد پر ہو سکتا ہے؟
اگر جماعت کا اطلاق ما فوق الواحد پر صحیح ہو تو پھر چار افراد کی خبر کو متعدد جماعت کی خبر کہا جا سکتا ہے اور اگر جماعت کا اطلاق ما فوق الاثنین پر صحیح ہو تو پھر چھ افراد کی خبر کو متعدد جماعت کی خبر کہا جا سکتا ہے۔ مذکورہ بالا ان دونوں صورتوں میں احتیاطی شکل یہ ہے کہ پہلی صورت میں چھ افراد کی خبر اور دوسری صورت میں نو افراد کی خبر کو متعدد جماعت کی خبر قرار دی جائے۔  اور ان دونوں سے بھی احوط یہ ہے کہ حنفی نقطۂ نظر سے جمعہ کی جماعت کے لیے جتنے افراد ضروری ہیں (یعنی تین مقتدی ایک امام) ان کو ایک جماعت قرار دیا جائے اور پھر آٹھ یا بارہ افراد کی خبر کو متعدد جماعت کی خبر قرار دے دی جائے۔ 
یہ تو رہی گفتگو ’’ خبر دینے والوں کی کم سے کم تعداد سے متعلق‘‘۔ آگے کے لیے خود قاضی القُضاۃ کے صواب دید پر چھوڑ دیا جائے اگر اس کو غلبۂ ظن حاصل ہونے میں اس تعداد سے بھی زیادہ افراد کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو تو وہ اس پر عمل کرے ۔ بالفرض اگر ریاستی یا ملکی قاضی القضاۃ مختلف مقامات پر اپنے نائبین مقرر نہ کرے یا ملکی یا صوبائی یا ضلعی طور پر کسی کو قاضی مقرر نہ کیا جا سکے بلکہ ہر ہر شہر کا قاضی الگ الگ ہو تو ہر ہر قاضی کے لیے مختلف مقامات کے یا ایک ہی مقام کے جانے پہچانے بارہ افراد (مثلاً) کی ٹیلیفونی خبر کلمات متون ’’لو استفاض الخبر‘‘ہی کے دائرہ میں آتی ہے۔ لہٰذا اس خبر مستفیض سے بھی ثبوت ہلال ہو جاتا ہے اور قاضی کو اعلان کے لیے اسی قدر ثبوت ہلال کافی ہے۔ 
خبر مستفیض کی جو تفصیل علامہ رحمتی علیہ الرحمہ سے منقول ہے اس کی حیثیت صرف ایک فقیہ کی راے کی ہے وہ اصل مذہب نہیں اور وہ راے خود ان کے عہد کے مطابق تھی لہٰذا وہ عہد حاضر کے مناسب خبر مستفیض کی تفصیل و تشریح سے متعارض و متصادم نہیں۔ ذخیرہ میں ’’لو استفاض الخبر‘‘ پر ’’و تحقَّق‘‘کا اضافہ فرمایا ہے، لہٰذا قاضی پر لازم ہے کہ اشتباہ کی صورت میں وہ ہر ٹیلی فون کرنے والے کے ٹیلی فون نمبر کو معلوم کر لے اور پھر ان نمبروں  پر خود ڈائل کرکے ان سے بات کرے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی شہر میں رویت ہلال کی خبر ملنے پر کسی جانے پہچانے معتبر شخص سے بارہ معتبر افراد (مثلاً) کے ٹیلیفون نمبر معلوم کرکے ہر ایک سے بذات خود ڈائل کرکے تحقیق کرلے ــــــــ جامع الرموز کی اس عبارت: ’’وفی الزاد : الصحیحُ أن یکون من أطراف شتّی حتی لا یتوھم تواطوھم علی  الکذب‘‘سے ظاہر ہوتا ہے کہ ثبوت ہلال کے لیے صرف غلبۂ ظن کافی ہے جو مذکورہ بالا ذکر کردہ جملہ صورتوں میں قطعی طور پر حاصل ہے۔
بعض علماے کرام کی تحریر کی روشنی میں جامع الرموز کتب معتبرہ سے نہیں ہے اور وہ رطب و یابس سے خالی نہیں باوجود اس کے کسی خاص تحریر کو غیر صحیح ثابت کرنے کے لیے نصّ معتبر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ فمن ادّعی علی بطلان ما فہم من ہذہ العبارۃ المذکورۃ في جامع الرموز فعلیہ البیان.
ویسے غور کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ثبوت رویت کے لیے دو شاہدان عدل کی گواہی مفید غلبۂ ظن ہی ہے اس لیے کہ اگر اسے مفید یقین قرار دیا جائے تو پھر حدزنا جاری کرنے کے لیے چار شاہدوں کی شہادت کو ضروری قرار نہ دیا جاتا اس لیے کہ جب دو شاہدوں کی شہادت سے وہی یقین حاصل ہو جائے جو چار شاہدوں کی شہادت سے حاصل ہوتا ہے تو پھر چار کی قید غیر ضروری ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں دو شاہدوں کی شہادت ہی سے حد کا جاری کر دینا معقول ہو جاتا ہے۔ 
6قاضی یا نائب قاضی کا فیصلہ معلوم کرنے کے لیے اگر ان کے دوسرے شہروں اور قصبوں کے نائبین خود قاضی یا اس کے نائب کے مخصوص ٹیلیفون نمبر پر رنگ کرکے اس کا فیصلہ معلوم کر لیں اور وہ بھی مخفی علامتی نشان کے ساتھ اس کے باوجود قاضی یا نائب قاضی کی جانب سے اس کے فیصلے کی جو اطلاع آئے گی اس کو ایک خبر ہی کی حیثیت حاصل ہوگی لہٰذا اس سے ان نائبین کے لیے شرعاً ثبوت ہلال نہ ہوگا اور نہ اس خبر کی بنیاد پر ان نائبین کا اعلان واجب العمل ہوگا۔ ہاں اگر خود قاضی یا نائب قاضی ثبوت ہلال کے بعد اپنے جملہ نائبین کو بذریعہ ٹیلی فون مخصوص و مخفی علامتی نشان کے ساتھ خود اپنی طرف سے اعلان کا اذن دے دے تو اس اعلان کے اذن کی بنیاد پر وہ جملہ نائبین قاضی یا نائب قاضی کی طرف سے جو اعلان کرائیں گے وہ ضرور قابل قبول ہوگا اور اس پر عمل کرنا واجب ہوگا۔
جب ثبوت ہلال کے لیے وہ غلبۂ ظن کافی ہے جو کسی طریق موجب سے حاصل ہو تو پھر اعلان و خبر پر عمل کرنے کے لیے بھی اسی طرح کا غلبۂ ظن کافی ہوگا۔ 
۶)اعلان کرنے والے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط نہیں۔ با ایں ہمہ ریڈیو سے غیر مسلم اناؤنسر چاند کے فیصلے کا جو اعلان کرتے ہیں وہ کسی قاضی القضاۃ کی طرف سے اس کے زیر اہتمام نہیں ہوتا لہٰذا اس کو صرف ایک خبر کی حیثیت حاصل ہوگی لہٰذا یہ اعلان شرعاً ناقابل اعتماد ہی رہے گا۔  ( ابتداءً حضرت شیخ الاسلام کی راے ایک دلیل کی بنا پر یہی تھی بعد میں دوسری دلیل شرعی کی بنا پر اس سے رجوع فرما کر اعلان کرنے والے کے لیے بھی مسلم ہونا لازمی قرار دیا جیسا کہ آگے اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ آ رہا ہے۔)
حضرت شیخ الاسلام دام ظلہ العالی کا یہ مکتوب آج سے کوئی ۳۱؍ سال پہلے کا ہے جو بجاے خود بڑی اہمیت کا حامل ہے اس سے حضرت والا کے کئی ایک اوصاف نمایاں ہوکر سامنے آئے :
[۱]تواضع: مکتوب کا ابتدائیہ آپ کے تواضع و انکساری کی واضح دلیل ہے جو عظمت و بزرگی کی نشانی ہے بڑے اپنا علوِ مرتبت خود نہیں بیان فرماتے اِلاّ یہ کہ کوئی ضرورت شرعی پائی جائے، درخت جس قدر پھلدار ہوتا ہے اسی قدر جھکا ہوتا ہے ، اس کے بر خلاف: ؎
بے مایہ کمال اپنا جتا دیتا ہے اکثر
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے اکثر
تواضع حضور سید الانبیا، افضل المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت کریمہ ہے تو نائب رسول کو سنت نبوی کا پیروکار ہونا ہی چاہیے۔
[۲]بڑوں کی تعظیم : جب دل میں سنت رسول کی پیروی کا جذبہ موج زن ہوتا ہے تو آدمی اپنے بڑوں کی عظمت کا معترف ہوتا ہے اور ان کی تعظیم و توقیر کو اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتا ہے حضرت کے مکتوب کو غور سے پڑھ لیجیے، اس سے آپ کا یہ وصف کمال بھی نمایاں ہوتا ہے اور یہ فی الواقع حدیث نبوی: ’’من لم یرحم صغیرنا و لم یُوَقِّر کبیرنا‘‘ کی اطاعت ہے۔
[۳، ۴، ۵ ]وسعتِ مطالعہ، دقتِ نظر،شستہ بیانی : مشہور یہ ہے کہ خبر مستفیض کے لیے خبر دینے والوں کی تعداد معین نہیں ، اصول فقہ و حدیث کی کتابوں میں اس کی صراحت ہے کہ استفاضہ کے لیے اتنے کثیر لوگوں کی خبر درکار ہے جن کا جھوٹ پر اتفاق ناممکن ہو اور قاضی کو ظن غالب حاصل ہو جائے کہ وہ ضرور سچے ہیں۔ قول راجح بھی یہی ہے لیکن اسی کے ساتھ کچھ اقوال ایسے بھی ہیں جن میں خبر دینے والوں کی تعداد کچھ شرعی دلائل کی روشنی میں متعین  کی گئی ہے اس کی تفصیل مسلم الثبوت اور اس کی شرح فواتح الرحموت میں یہ ہے:
(مسألة : للتواتر شروط) ینتفي بانتفاء واحد منها … (فمنها تعدد المخبرین تعدّدًا يمنع التواطؤ على الكذب) … (عادة) و في تعیین هذا العدد خلاف. … (والمراد بمنع العقل) التواطؤ على الكذب (و منعه بعد وجود سائر الشرائط) يعني أن المراد منه اجتماع العدد من جهة الكثرة، و لو كان يحصل هذا المنع بعد تحقق شرائط أخرى، حتى لا يحتاج منع التواطؤ إلى عدد أزيد منه، و ليس المراد امتناع التواطؤ في الحال حتى يردَ عليه أن ذلك متضمن لسائر الشرائط، فهو ملزوم لها. … (ثم اختلف في أقل العدد) المشروط في التواتر (فقيل: أربعة قياسًا على شهود الزنا) فإنه أمر عظيم، و قد أمرنا بالدرء بالشبهات ، ولا شك أن غير المتواتر مما فيه شبهة، فعلم أن الأربعة مفيدة للقطع. (و قيل) ذلك العدد (خمسة قياسًا على اللعان ) فإنه خمس شهادات ، و إذا قبل إخبار رجل خمس مرات و أفاد اليقين فأخبار خمسة رجال بالطريق الأولى. … (وقيل) أقل العدد المعتبر (سبعة قياسًا على غسل الإناء من ولوغ الكلب سبع مرّات) … (و قيل) أقل العدد المشروط في التواتر (عشرة لقوله) تعالى: (تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ) [البقرة:196] حيث وصف العشرة بالكمال فيكون مفيدًا للعلم (و قيل) أقلّه (اثنا عشر عدد نقباء بني إسرائيل) حيث جعلهم موسى على نبينا و عليه الصلاة و السلام أمناء و أرسلهم ليعرفوا من أخبار الجبابرة، و لولا أن خبرهم مفيد للعلم لما بعثهم لذلك.  … (وقيل) الأقل (ما لا يحصرهم عدد) لكثرتهم، إذ الكثرة مانعة من التواطؤ على الكذب،  … (و المختار عدم تعيين) العدد (الأقل للقطع بالعلم) بأخبار الجماعة (من غير علم بعدد مخصوص لا متقدمًا) عليه (و لا متأخّرا) عنه. 
(مسلم الثبوت مع شرحِه فواتح الرحموت ، الجزء الثاني، ص : 145، 146، 147، 148، ملتقطًا، الأصل الثاني: السنة/ مسألة: للتواتر شروط)
حضرت شیخ الاسلام کے مکتوب کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ یہ تمام تصریحات ان کے پیش نظر ہیں یوں ہی لفظ جماعۃ کے اطلاقات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرکے واضح فرما دیا ہے کہ ان کا مطالعہ ان تمام امور کا احاطہ کرتا ہے۔ پھر آپ نے ان اقوال کو یہ فرماکر قول راجح سے بہت ہی قریب فرما دیا ہے کہ: 
’’قاضی کو غلبۂ ظن حاصل ہونے میں اس تعداد سے بھی زیادہ افراد کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو تو وہ اس پر عمل کرے اس طرح دیکھا جائے تو علامہ مصطفیٰ رحمتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جماعات متعددون فرماکر تعداد مخبرین کی طرف جو اشارہ فرمایا تھا اس میں اور قول راجح میں یگانگت کا مظاہرہ فرمایا گیا ہے۔‘‘
شیخ الاسلام دام ظلہ العالی اپنے دوسرے مکتوب میں علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے نام یہ وضاحتی تحریر فرماتے ہیں:
[ چاند کا شرعی ثبوت حاصل ہو جانے کے بعد قاضی اپنے دائرۂ قضا میں اس کا اعلان ٹیلی فون وغیرہ جدید ذرائع سے کر سکتا ہے۔]
اس پر اعتراض یہ ہے کہ یہ فتاوی رضویہ کے خلاف ہے کیوں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے متعدد فتاوی میں صراحت فرمائی ہے کہ ’’دربارۂ  ہلال ٹیلی فون کی خبر محض نامعتبر‘‘۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ حق ہے اور سو فیصد حق ہے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیلی فون کی خبر سے چاند کا ثبوتِ شرعی نہ ہوگا اور یہاں گفتگو اس بارے میں ہے کہ چاند کا ثبوت شرعی ہو چکا ہے، صرف اعلان کا معاملہ ہے لہٰذا اسے توپ اور گولے وغیرہ کی آواز کی طرح معتبر قرار دیا جائے گا۔ اس سے حضرت شیخ الاسلام کی دقت نظر کا پتا چلتا ہے۔ 
مفتی یا محقق کبھی اپنے فتوے یا تحقیق میں کسی خطا پہ آگاہ ہو جائے تو اس پر لازم ہوتا ہے کہ فوراًاس سے رجوع کرکے حق کو قبول کر لے یہ خوبی بھی حضرت شیخ الاسلام کو خداے عزیز و جلیل نے عطا فرمائی ہے، آپ حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے نام اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں:
گرامی قدر و منزلت! سلام و رحمت
۱۔بہ عجلت ممکنہ میں نے اپنے معروضات آپ کی خدمت میں روانہ کر دیے تھے، امید ہے کہ موصول ہو گئے ہوں گے، ابھی تک وصول یابی کی رسید نہیں مل سکی ہے۔ اس خط کے ذریعہ میں اپنی اس واضح خطا کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں جس کی طرف ذہن اس وقت گیا جب کہ میں آپ کے نام مکتوب روانہ کر چکا تھا۔ میں نے اپنے مکتوب کے جواب نمبر ۶ میں لکھا ہے کہ ’’اعلان کرنے والے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط نہیں‘‘ ــــــــحالاں کہ یہ صحیح نہیں، اس لیے کہ یہ اعلان اگر چہ قاضی ہی کی طرف سے ہو لیکن خود اعلان کرنے والا تو دوسرا ہے اور اعلان بھی کچھ اہم ہے کہ اس سے صوم و افطار صوم کا وجوب وابستہ ہے۔ اس صورت حال میں معلن کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ضروری ہونی چاہیے ویسے بھی یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ دیانات میں کافر کی خبر کا اعتبار نہیں اور یہ اعلان بھی قاضی کے فیصلہ و حکم کی خبر ہی تو ہے۔ اور ظاہر ہے کہ وہ اعلان رویت جو موجب صوم و افطار ہو قطعی طور پر اس کا شمار دیانات ہی میں ہے۔ امید ہے کہ آپ میرے روانہ کردہ جوابات میں سے جواب نمبر ۶ کو قلم زد فرما کر کالعدم قرار دیں گے۔ دعا فرمائیں کہ مولیٰ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے اور  زلت فکر و نظر سے میری حفاظت فرمائے۔ 
۲۔در اصل میرے فہم ناقص میں اس وقت یہ بات آ گئی تھی کہ گولے کی آواز یا مینارے کی روشنی کے ذریعہ جو اعلان ہوتا ہے وہ حقیقتاً قاضی ہی کی طرف سے قاضی ہی کا اعلان ہوتا ہے لہٰذا حقیقی معلن خود قاضی ہی رہا۔ نہ تو یہ گولے یا نقارے کی آواز کا اعلان ہےـــــاور نقارے پر چوب لگانے والے کا اعلان۔ یوں ہی نہ تو مینارے کی روشنی کا اعلان ہے اور نہ ہی روشنی کرنے والے یا سوئچ دبانے والے کا اعلان۔ یہ سب صرف اعلان کے ذرائع ہیں بذات خود معلن نہیں اب اگر کافر بھی ذریعہ اعلان بن جائے تو یہ اعلان خود اس کا نہیں قرار دیا جانا چاہیے بلکہ یہ حقیقی طور پر قاضی ہی کا اعلان رویت ہے اور اسی پر صوم و افطار صوم کا دار و مدار ہے۔ بالفرض اگر کوئی مسلمان قاضی کی طرف سے ذریعہ اعلان بننے کے بجائے اپنی ہی طرف سے اعلان کردے تو اس کا بھی اعلان غیر معتبر ہوگا چہ جائیکہ کافر کا اعلان اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوم و افطار کے وجوب کا دار و مدار قاضی کے اعلان پر ہے۔ اور قاضی خواہ کسی سے بھی اعلان کرائے اور کسی کے بھی قول و فعل کو ذریعہ اعلان قرار دے مگر وہ ’’ اعلان رویت‘‘ قاضی ہی کا قرار دیا جائے گا ــــــــ میرے مذکورہ بالا ان معروضات کا منشا اپنے جواب نمبر ۶ کی توجیہ و تاویل نہیں بلکہ اپنی فکر و نظر میں قلّت تامل کے سبب جو لغزش واقع ہو گئی ہے اس کی بنیادی وجہ کی طرف اشارہ کرنا ہے سچ ہے جب کسی بات کے لیے فقہا کا ارشاد موجود ہو تو اس کے خلاف عقلی تگ و دو ہلاکت ہی کی طرف لے جاتی ہے۔ فنعوذ باللہ من شرور أنفسنا و من سیئات أعمالنا۔ 
۳۔اپنے مکتوب میں زلت قلم کی دو مثالیں اور بھی نظر آئیں۔ صفحہ نمبر ۱۰ کی آخری سطر میں ’’عدم وجوب ‘‘ کی جگہ عدم وجود لکھ رکھا ہے۔ یوں ہی صفحہ ۱۱  کی سطر۱۱ میں ’’ان علماے کرام‘‘ کے بجاے ’’اس علماے کرام‘‘ کا لفظ آ گیا ہے ممکن ہے کہ اس طرح کی اور بھی بھول چوک ہوئی ہو جو بداہت نظر ہی سے سمجھ میں آجاتی ہے ایسے تمام مقامات کی اصلاح فرماکر  اس ناچیز پر کرم فرمائیں۔ 
۴۔گزارش ہے کہ اپنی جن فروگذاشتوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ان کے سوا بھی کہیں اگر فکر و نظر کی کجی نظر آئے تو آپ ضرور باخبر فرمائیں۔ بڑی ہی نوازش ہوگی۔ اس مکتوب اور اس سے پہلے والے مکتوب دونوں کی وصول یابی کی اطلاع کا شدت کے ساتھ انتظار ہے ۔ فقط والسلام۔
خیر اندیش : سید محمد مدنی اشرفی جیلانی غفر لہ
ہم انسان ہیں، ہم سے سہو و نسیان ہو سکتا ہے بلکہ ہوتاہے مگر اپنے سہو و نسیان کی اصلاح کے لیے ہمیں ایسی ہی فراخ دلی کے ساتھ ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے جس کا مظاہرہ حضرت شیخ الاسلام نے اپنے مکتوب میں فرمایا ہے۔
ابھی میں حضرت شیخ الاسلام کے تواضع و انکساری کی بات کر رہا تھا اور اس کے ثبوت میں ایک مکتوب پیش کیا تھا جو آپ نے اپنے ایک سینیر عالم کے نام لکھا تھا مگر ہمارا یہ مطلب نہیں کہ آپ صرف اپنے بڑوں کے ساتھ تواضع کا اظہار فرماتے ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ آپ اپنے چھوٹوں کے ساتھ بھی از راہ شفقت اسی طرح کے تواضع کا اظہار فرماتے ہیں چناں چہ آپ نے راقم الحروف کے نام اپنے ایک مکتوب میں اسی طرح کی تواضع سے کام لیا ہے آپ رقم طراز ہیں:
’’ سرچشمۂ اخلاص، پیکر علم، گرامی قدر و منزلت!
وعلیکم السلام  ، ثم السَّلام علیکم و رحمتہ و برکاتہ
صحیفہ ٔکرم باصرہ فروز ہوا۔ یقین جانیے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر اقتدا کے تعلق سے آپ کی تحقیقاتِ انیقہ اور افکار عالیہ کو اپنی بہشت فکر و نظر بنانے کا اشتیاق صرف کچھ حاصل کرنے کے لیے تھا، اور پھر یہ آپ کی کرم نوازی رہی کہ آپ نے اس سلسلے کا ’’خلاصۂ مباحث‘‘ اور اس سے پہلے کی اپنی جملہ نگارشات مجھ تک پہنچانے کی زحمت گوارہ فرمائی اور اسی پر بس نہیں فرمایا، بلکہ اپنی تحریروں پر نقد و نظر کرنے والے دانشور کے جملہ ناقدانہ مضامین کو بھی اپنے مضامین کے ساتھ ہم رشتہ کرکے روانہ کر دیا۔ اور اس طرح کمالِ وسعتِ نظری اور غایتِ کشادہ خاطری کا مظاہرہ فرمایا۔ اپنے اس طرزِ عمل سے آپ نے اس مسئلہ میں مجھے بھی علی وجہ البصیرۃ کسی  نتیجے پر پہنچنے میں بھرپور مدد فرمائی۔ ویسے آپ کا یہ طرزِ عمل اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کو اپنی تحقیق کی صحت پر پورا اعتماد ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ اعتماد بے پناہ قوتِ فیصلہ، استقامتِ راے اور اصابتِ فکر و نظر ہی کا ثمرہ ہو سکتا ہے۔ 
المختصر میں تو صرف کچھ حاصل کرنے کا حریص تھا، مگر آپ نے مجھ جیسے بے بضاعت کی ذات سے اپنے حسنِ ظن کے بل بوتے پر اصلاح یا بصورت دیگر تصدیق و تصویب کی جو توقع وابستہ کر رکھی ہے اس کا میں بھلا کیسے اہل ہو سکتا ہوں۔ اس حقیقت کو آپ قطعًا رسمی تواضع و انکسار پر محمول نہ فرمائیں کہ آپ کے قلم حقیقت رقم سے جتنے احکام و مسائل صفحاتِ قرطاس پر منتقل ہو چکے ہیں اس کا دسواں حصہ میرے ذہن میں بھی نہیں پھر قلم سے نکلنے کا کیا سوال؟ آپ ملک کی ایک عظیم مرکزی درسگاہ کے ایک عظیم شعبے سے متعلق ہوکر دن و رات فقہ شریف کی خدمت میں گزار رہے ہیں اور میرا حال خانہ بدوشوں سے ملتا جلتا ہے۔ حکمت و دانش کی صہبا پلانے کے لیے اور علم کے دریا بہانے کے لیے آپ کو بحمدہ تعالیٰ کتابوں سے کامل مُمارست بھی حاصل ہے اور علم و فضل والوں کی صحبت و قربت بھی۔ ان حقائق کے باوجود آپ میری تصدیق و تصویب کے خواہش مند ہیں اب اس کے سوا کیا عرض کیا جائے وَکَانَ أَمْرُ اللہِ قَدْرًا مَقْدُوْرًا۔ چناں چہ صرف امتثالِ امر کی سعادت حاصل کرنے کا جذبۂ فراواں لے کر یہ دُعا کرتے ہوئے قلم اٹھا لیا ہے۔ اللّٰہُمّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَ أَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ.‘‘
اس تواضع سے کبھی کوئی بڑا ہرگز چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ حق یہ ہے کہ اس سے اس کی عظمتِ شان میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ، اس لیے ہم سب کو تواضع کا خوگر بننا چاہیے۔
درج بالا شواہد اور تصانیف سے شیخ الاسلام کی فن فقہ میں مہارت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ پُرپیچ وادیوں اور صحراؤں کو طے کرکے حقائق و معارف کے موتی نکالنے کا ہنر آپ کو رب قدیر کی جانب سے عطا ہوا۔ 
امر بالمعروف و نہی عن المنکر:  بھلی بات کا حکم دینا اور بُری بات سے منع کرنا علماے کرام کی اہم ذمہ داری ہے، ہمارے اسلاف بلا خوف لومۃ لائم اپنی یہ ذمہ داری برابر ادا کرتے رہے وہ ہر چھوٹے ، بڑے یہاں تک کہ سلاطین زمانہ کو بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرماتے ، ہم  آج اپنے اس فریضے کو فراموش کرتے جا رہے ہیں تا ہم اللہ عزّ و جل کے کچھ نیک بندے آج بھی ایسے ہیں جو اس زمین پر اللہ عزّ و جل اور اس کے رسول سید عالم ﷺکا فرمان نافذ کرتے اور ہمارے معاشرے کو صالح اور مثالی معاشرہ بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، انھیں نیک بندوں میں حضرت شیخ الاسلام کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ ۱۵؍ ۱۶؍ رجب کو حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کا عرس کچھوچھہ شریف میں ہر سال منعقد ہوتا ہے، کئی بار اس میں حاضری کی سعادت ملی مگر زائرات کی شرکت سے دلی تکلیف ہوتی، اِدھر رجب ۱۴۳۵ھ پھر رجب ۱۴۳۶ھ میں پھر شریک ہوا مگر حیرت زدہ رہ گیا کہ زائرات عرس کے ہجوم اور اجلاس وغیرہ میں کہیں نظر نہ آئیں، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت شیخ الاسلام نے عورتوں کو سختی کے ساتھ شرکت کرنے سے منع فرما دیا ہے۔
گجرات فساد کے بعد وہاں یگانگت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے فیورک کے نام سے ایک تنظیم وجود میں آئی جس میں رواداری کی حدود کو پار کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی، اور اس کے کچھ ضوابط – جو مجھے بتائے گئے حدود اللہ سے متجاوز تھے اس کے خلاف حضرت شیخ الاسلام نے مؤثّر آواز اٹھائی جس سے قوم اس کے منکرات سے آگاہ ہوکر اس سے کنارہ کش ہو گئی، اس سلسلے میں حضرت کی مساعی قابل صد ستائش ہیں۔
یہ دو نمونے حدیث نبوی:’’مَن رأی منکم مُنکراً فلیغیّرہ بیدہ ، فإن لم یستطع فبلسانہ‘‘[رواہ مسلم في صحیحہ] پر عمل کی واضح نظیر ہیں اور فی الواقع ہم سب کے لیے قابل تقلید نمونے ہیں۔
تاریخ اشرفیہ میں آپ کی ذات والا صفات کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ آپ ہی کی ذات سے دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم کی نسبت سے ’’مصباحی‘‘ لکھنے کا رواج ہوا۔ اپنے دوران تعلیم میں ہی آپ نے اپنے نام کے ساتھ اس کا الحاق کیاپھر دوسرے فارغین اشرفیہ آہستہ آہستہ یہ نسبت اختیار کرتے رہے۔ اور آج ہر چہار جانب ’’مصباحی علما‘‘ کی ایک الگ شناخت ہے۔ 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!