islam
شیخ الا سلام کے کلام میں عشقِ رسول کی جلوہ گری
محمد شمس القمر قادری علیمی
خادم مدنی میاں عربک کالج ہبلی
شیخ الا سلام کے کلام میں عشقِ رسول کی جلوہ گری
تحریر کاروئے سخن موجودہ صدی کی عظیم علمی وروحانی شخصیت جلیل القدر پیر طریقت خانوادئہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے شیخ عظیم مفسر قرآنِ کریم شیخ الا سلام و المسلمین حضرت علامہ الشاہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی دامت برکاتہم القدسیہ کا عشق رسول ہے۔ لیکن مقررہ عنوان پر قلم و قرطاس سنبھالنے سے پہلے مدنی فائونڈیشن ہبلی کے ذمہ دار علماء خصوصاً محب گرامی عزیز القدرحضرت مولیٰنا نعیم الدین صاحب اشرفی کا میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے حضرت شیخ الاسلام کی تاریخ پیدائش کی با برکت مناسبت سے منعقد ہونے والے سیمینار میں قلمی شرکت کی دعوت مجھ حقیر کم علم کو پیش کر کے حضرت والا کی بارگاہ میں عقید توں کا خراج پیش کرنے کا حسین موقع عنایت فرمایا ، جزاھم اﷲخیرالجزاء۔
مجھ حقیر الفہم کے لئے بڑی سعادت اور باعث افتخار بات ہے کہ ان چند سطور کے ذریعہ اس عبقری بارگاہ میں محبتوں کا پاکیزہ گلدستہ لئے حاضرہو رہا ہوں جن کی ایک نگاہ کرم سے علم وآگہی شعور و ہنر مندی کا ایک جہان آباد نظر آتا ہے۔ اور نیت یہی ہے کہ اﷲتعالیٰ اپنے اس نیک بندے کے برکات و حسنات سے مجھ بے علم و بے بصیر کو علمی بصارت اور دینی فراست سے بہرور فرمائے گا اور میرے لئے دارین کی سعادتوں اور فیروز مندیوں کا سامان کرے گا۔
اُحِبُ الصَالِحِیْنَ وَ لَسْتُ مِنْہُمْ
لَعَلَّ اﷲ یَرْزُقُنِیْ صَلَاحاً
میں تو خود نیک نہیں ہوں مگر نیکوں سے اس امید پر محبت کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ان کی برکت سے مجھے بھی نیک بنادے ۔نبوی ارشاد ہے ﷺ
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق اعظم نے رسول کائنات سے عر ض کیا آپ میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر گز کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں ” یہ سن کر حضرت عمر نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب اتاری آپ میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا “اب اے عمر تمہارا ایمان مکمل ہواـ”
قرآنی ارشادات نبوی فرمودات کی روشنی میں صحابہ کے معمولات عشق مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ کے سانچے مین ڈھلے ہوئے تھے ۔ ان نفوس قدسیہ کا کوئی عمل عشق مصطفیٰ کے سرمایہ سے خالی اور منشئہ رسالت کے خلاف نہیں تھا گویا ہر صحابی کا یہی نعرہ تھا۔
میں مصطفیٰ کے جام محبت کا مست ہوں
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتاردے
عشق رسالت کی یہی رنگینیاں تھیں کہ صدیق اکبر صداقت کے امام ، عمر فاروق اعظم عدالت کے علمبردار، عثمان غنی سخاوت کے پیشوا اورمولیٰ علی شجاعت کے مقتداء بن کر چمکے۔ عشق رسالت کی یہی وہ تابانیا ں تھیں جو ا جلۂ صحابہ کرام کے سیرت وکردار میں چمکتی رہیں۔ عشق رسالت کا یہی جذبہ صادق تھا جس نے حضرت نعمان بن ثابت کو امام اعظم ، حضرت عبدالقادر جیلانی کو غوث اعظم، حضرت معین الدین چشتی کو ہند کا سلطان اعظم، حضرت مخدوم اشرف کو غوث العالم، اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو مجدد اعظم، حضرت مصطفیٰ رضا خان کو مفتی اعظم اور حضرت سید محمد کچھوچھوی کو محدث اعظم اور حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں کو خانوادئہ اشرفیہ کا شیخ اعظم شیخ الاسلام والمسلمین مفسر قرآن عظیم بنا دیا۔
حضرت شیخ الاسلام اور عشق رسول
ویسے تو نبی کریم ﷺ سے عشق و محبت کی بے شمار علامتیں ہیں ان میں سے ایک علامت حضور کا کثرت سے ذکر کرنا ہے۔ حدیث شریف میں ہے مَنْ اَحَب شیأ اکثر ذکرہ جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔ اس تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں تو حضرت شیخ الاسلام عصر حاضر کے منفرد المثال عاشق رسول نظر آتے ہیں ۔ آپ کی تصنیف و تالیف ، تفسیر و تحقیق،تقریر و تحریر میں عشق رسالت کا جلوہ نمایاں نظر آتا ہے ۔ جس کا اندازہ آپ کے نعتیہ کلمات ، خطبات و منظومات اور دوسری تصنیفات و تالیفات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ آپ کی تصنیفات میں اربعین اشرفی، تفسیر سورئہ و الضحیٰ ، تفسیر رحمتہ للعلمین (رسول اﷲ کی دعا ) دلوں کاچین، اتباع نبوی ، محبت رسول روح ایمان وغیرہ۔ یہ وہ مستقل تصنیفات ہیں جو آپ کے عشق رسالت کی شہادتیں پیش کر رہی ہیں۔اب ہم ذیل میں حضرت کے نظم و نثر کے چند اقتباسات قارئین کے نذر کرتے ہیں۔
حضرت کے منظوم کلام میںعشق رسول
حضرت شیخ الاسلام جب نعتیہ اشعار سے الفت مصطفی کا پیغام نشر فرمانا چاہتے ہیں تو پہلے خود کو انتباہ کرتے ہیں اوراحتیاط کا دامن زیردست رکھنے کی خود کو نصیحت کرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں ۔
اس دیار قدس میں لازم ہے اے دل احتیاط
بے ادب ہیں کر نہیں پاتے جو غافل احتیاط
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نعت گوئی کے لئے کوئی مستقل اصول متدین نہیں ہیں بلکہ (۱) مسدس (۲) مثنوی (۳) مخمس (۴) مستزاد (۵) غزل وغیرہ۔ عاشق جس شکل میں عقیدتوں کا نذرانہ بارگاہ خیرالوریٰ میں پیش کر سکتا ہے کرے ۔ حضرت فرماتے ہیں،
لکھ رہا ہوں میں ثنائے شئہ بطحا اخترؔ
لب جبریل نہ کیوں نوک قلم تک پہونچے
گویا منظوم نعت کا تعلق موضوعی اصناف سخن سے ہے اور اس کے عنوان حضور ﷺ ہیں۔یہاں پر ایک بات قارئین کے لئے فائدہ سے خالی نہ ہوگی کہ وہ اصناف سخن جس کا تعلق عاشق کے وضع سے ہواس کی تکمیل خلوص اور پاکیزگی کے بغیر نہیں ہو سکتی بلکہ محبت و خلوص کی شدّت جتنی تیز ہوگی کلام اتنا ہی سچا اور خالص ہو کر مقبول الخلائق ہو جائیگا ۔ نبی کے عشق کا دم سب بھرتے ہیں شجر و حجر ، شمس و قمر ، جن و ملک سب حضور کی محبت اپنے سینوں میں رکھتے ہیں حتیٰ کہ رب کریم بھی مُحبّ مصطفیٰ ہے جس پر قرآنی فرمان ان اﷲ و ملائکۃ یصلون علی النبی پوری آیت دال ہے۔
اپنے اسی خلوص اور محبت کے ساتھ حضرت اٹھتے ہیں اور میدان عشق میں استقامت کی دعا کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں۔
الٰہی مجھے عزم محکم عطاءکر
محبت کی دریا میں پہلا سفر ہے
اور پھر بارگاہ رسالت میں گویا ہوتے ہیں
تیرا کہلانے کے لائق نہیں ہوں نہ سہی
تیرا کہلانے کے لائق نہیں ہوں نہ سہی
میری نسبت تیری چوکھٹ سے پرانی ہے حضور
اپنے اختر ؔ کی سنو گے یہ سبھی کہتے ہیں
آبرو میری غلامی کی بچانی ہے حضور
عشق صادق ہو تو عاشق اپنے معشوق کی طرف عجلت کرتا ہے اسی سچے عشق کے تقاضے کے مطابق حضرت فرماتے ہیں ۔
اگر کل جان جانی ہے تو یا رب آج ہی جائے
سنا ہے قبر میں بے پردہ وہ تشریف لائیں گے
در حقیقت حضرت شیخ الاسلام نے کلام الامام اور امام الکلام کے اس پاکیزہ عقیدے کی ترجمانی فرمائی ہے۔
قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور کے
جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اﷲ کی
اور اس سے ماقبل کے اشعار میں کلام الامام کے اس محبت کا جلوئہ ہے
تجھ سے در ،در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا
حضرت شیخ الاسلام کے اسی جذبہ صادق نے آپ کو دارین کی وہ سعادتیں بخشی ہیں جو بہت کم لوگوں کو ملتی ہیں ، حضرت والا کا عشق رسول شباب پر ہے اور گویا ہیں۔
تیری چوکھٹ تک رسائی گر شہاہو جائے گی
بے وفا تقدیر بھی پیک وفا ہو جائے گی
ان کے در پر گرو فور عشق میں سر رکھ دیا
ایک سجدے میں ادا ساری قضا ہو جائے گی
خیر امت کی سند سرکار سے جب مل گئی
میری قسمت مجھ سے پھر کیسے خفا ہو جائیگی
گر کہیں جان چمن اختر چمن میں آگئے
پتی پتی اس چمن کی ہم نوا ہو جائے گی
اور جب شیخ الاسلام کو میدان محشر کی نفسی نفسی یاد آئی تورحمت رسالت کو یاد کرتے ہوئے بڑی محبت سے پکار اٹھتے ہیں ۔
پاس سجدے بھی ہیں روزے بھی زکوٰۃ و حج بھی
حشر میں کام نہ آیا کوئی رحمت کے سواء
اور جب عشق یقین کے منزل پر پہونچ گیا تو کہہ اٹھے۔
رب نے چاہا تو قیامت میں سبھی دیکھیں گے
ان کے قدموں میں پڑا اخترؔ خستہ ہوگا
حضرت کے منثور کلام میں عشق رسول
متذکرہ عبارتیں حضرت والا کے منظوم عشقیہ کلام سے متعلق ہیں ۔ اب ذیل میں کلام نثر میں عشق رسالت کا جلوہ دیکھئے ۔ آپ اپنی مائناز تفسیر ، تفسیررحمتہ للعلمین میں عشق رسالت کے حوالے سے فرماتے ہیں ۔ ــ” حضور کے دامن شفقت میں جن و انس ہی نہیں چرند و پرند بھی پناہ ڈھوندھتے تھے۔ اﷲ رب العزت کی تمام مخلوقات اپنی حاجات لے کر حضور کی قدم بوسی کا شرف حاصل کرتیں اور من کی مرادیں پاتیں۔ مصائب سے نجات ملتی اور قید سے رہائی نصیب ہوتی ۔ کبھی کوئی اونٹ چارے کی قلت کی شکایت کرتا ، کبھی ہرنی اپنے بچوں کو دودھ پلانے کی اجازت طلب کرتی اور کبھی کوئی جانور دیدار مصطفیٰ کی آرزو کی سبیل کرتا”۔
اسی تفسیر میں چند سطور پہلے فرماتے ہیں ۔
دیکھئے جس اونٹ پر حضور سواری کریں وہ بھی مستقبل کو دیکھ لیتا ہے اونٹ اس غیبی خبر کو بیا ن کرتے ہوئے اپنی آرزو کا اظہار کر رہا ہے کہ حضور کے وصال کے بعد اس پر کوئی سواری نہ کرے۔ یعنی اونٹ کو اس بات کا علم تھا کہ حضور کی ظاہری حیات میں نہ تو وہ گم ہو گا نہ ذبح کیا جائے گا اور نہ ہی اس کو موت آئے گی بلکہ وصال نبوی کے بعد مزید چند دن اس کی زندگی رہے گی ۔ حضور جس خچر پر سوار ہوتے تھے وہ بھی قبر کے عذاب و ثواب اور کیفیت کو دیکھتا تھا۔”
قارئین کرام کے لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس اونٹ کے عشق کا تذکرہ حضرت شیخ الاسلام نے اپنے الفاظ میں فرمایا ہے یہ وہی اونٹ ہے جس کو ایک دیہاتی آدمی لے کر حضور کی بارگاہ میں آیا تھا اور عرض گذار ہوا تھا یا رسول میں اسے رب کے واسطے صدقہ کرتا ہوں تمام حاضرین صحابہ اس کی طرف متوجہ ہو گئے حضور نے اسے دعاء دی اور پھر عمر فاروق اعظم سے فرمایا عمر اس اونٹ کی قیمت کا تخمینہ لگائو تاکہ اس کی قیمت اداکردیں۔پھرحضورنے اس اونٹ کوخریدکر اپنی خدمت کے لئے خاص کر لیا۔”
اسی اونٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے عاشق رسول حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں۔
حضور کے وصال شریف کے بعد وہ اونٹ غمگین اور خاموش رہنے لگا ۔اس کے حلق سے چارہ نہیں اترتاتھا۔ اونٹ کا عشق اور جدائی کا کرب دیکھ کر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اس کا سر بغل میں لے لیا اور اس پر گریہ کا عالم طاری ہو گیا ۔ اتنے میں اونٹ نے جان دے دی۔ سیدہ فاطمہ کے آنکھ سے آنسو جاری ہو گئے۔ سیدہ فاطمہ نے اونٹ کے لئے جگہ کھدوائی اور کپڑے میں لپیٹ کر دفن کروا دیا ۔
سات دن کے بعد جب اس کے جائے مدفن کو کھود کر دیکھا تو وہاں نہ اونٹ تھا نہ کپڑا ۔ وہ تو جنت الفردوس میں اپنے آقا و مولیٰ کی سواری کے لئے پہونچ گیا۔ عشق رسول نے اسے دوام بخش دیا ” (تفسیر رحمۃ للعٰلمین ص 76)
سورۂ والضحیٰ کی آیت وَلَلْاٰخِرَۃُ خِیْرٌلَکَ مِنَ الْاُوْلٰی کی تفسیر میں شیخ الاسلام بارگاہِ رسالت ماٰب میں بڑے درد کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا اظہار فرماتے ہیں۔
فقط تمہاری شفاعت کا آسرا ہے حضور
ہمارے پاس گناہوں کے ما سواء کیا ہے
کھڑا ہے اختر عاصی د ر مقدس پر
حضور آپ کی رحمت کا فیصلہ کیا ہے
اور فرماتے ہیں : “بتائو قیامت کے قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا خدا عالم الغیب والشھادہ نہیں ؟ کیا وہ تمہارے کرتوتوںسے واقف نہیں؟ کیا خدا تمہارے اعمال سے با خبر نہیں ؟ خدا جسے چاہے اپنے فضل سے جنت میں پہونچادے اور جسے چاہے اپنے عدل سے جہنم میں ڈال دے ہے کوئی دم مارنے والا؟
چند سطور کے بعد رقم فرماتے ہیں ، دوستوں، رحمت خداوندی آواز دے رہی ہے کہ اے نادان حساب کتاب کے لئے قیامت نہیں ہے۔ اے محبوب ﷺ اگر قیامت نہ ہوتی تو یہ ہو جاتا کہ ہم جنتی کو جنت میں پہونچا دیتے اور جہنمی کو جہنم میں ۔۔۔۔۔ مگر اے محبوب اگر قیامت نہ ہوگی تو مقام محمود پر آپ کو کون دیکھے گا؟لواء الحمد تمہارے ہاتھ میں کون دیکھے گا ؟ میزان پر سہارادیتا ہوا کون دیکھے گا؟ پل صراط پر بچاتا ہوا کون دیکھے گا ؟ جہنم سے امت کو نکالتا ہوا تم کو کون دیکھے گا ؟جنت کا دروازہ کھولتا ہوا تم کو کون دیکھے گا ؟ تو اے محبوب قیامت حساب و کتاب کے لئے نہیں تمہارامرتبہ دکھانے کے لئے ہے ( تفسیر سورئہ والضحیٰ ص 17)
چند صفحات کے بعد فرماتے ہیں ۔”تمام انبیاء علیہم السلام معجزات لے کر آئے مگر آپ معجزہ بن کر آئے، حضور کا سارا وجود اطہر سراپا اعجاز ہے ، حضور کا معجزہ معراج، سورج کا واپس پلٹنا ، بارش کا برسنا، تھوڑے پانی کا کثیر ہو جانا، قلیل دودھ کا کثیر ہو جانا، مُردوں کو زندہ کرنا ، آپ کی دعاء سے بیماروں کا شفا یاب ہو جانا، صفات ذمیمہ کا اوصاف حمیدہ میں بدل جانا، دعائوں کا مستحاب ہونا ، کنکریوں کا تسبیح کرنا، شیر کا فرمانبردار ہو جانا، ایک لمحہ میں کئی زبانوں کا ماہر بنا دینا الغرض بے شمار معجزات ہیں جو حضور کے نبوت کی بڑی برہان اور فضیلت ہیں ۔
دو چار معجزے ہوں تو مانے کائی بشر
پوری حیات سلسلہ معجزات ہے
جس کو بھی کمال ملا وہ حضور ہی کی نسبت سے ملا ہے۔ حسن یوسف ، دم عیسیٰ،ید بیضاء ، یہ سب کے سب معجزات و کمالات حضور ہی کی برکت سے تھے ۔ (بحوالہ سابق ص 33)
قرآن حکیم کی آیت شریفہ واﷲ و رسولہ احق کی تفسیر میں حضور کی عظمتوں کا ذکر اِن الفاظ میں کرتے ہیں۔
’’اگر اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس کے رسول کا ذکر کر دیا جائے تو شرک نہیں ہوگا بلکہ یہ تو اہل ایمان کی نشانی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کے حبیب کی خوشنودی ہر عمل میں پیش نظر رکھیں (رسول اﷲ کی دعا ء دلوں کا چین ص 15)
غیب داں نبی کے غیب دانی کا ذکر فرماتے ہوئے اہل اسلام کو ایمان کے استحکام کا پیغام دیتے ہیں اور فرماتے ہیں،
’’تار ٹیلیفون وغیرہ فرش والوں کو فرش کی خبر دیتے ہیں مگر انبیاء علیہم السلام وہاں کی خبریں لاتے ہیں جہاں سے نہ تار آتا ہے نہ ٹیلیفون۔ اب اس (نبی) کے معنی یہ ہونگے “اے غیب کی خبریں دینے والے” دوسروں کو غیب کی خبریں وہی دیگا جو خود بھی خبر رکھے۔ جو لوگ حضور کے علم کا انکار کرتے ہیں وہ درپردہ آپکے نبی ہونے کے منکر ہیں۔ اگر (نبی کے )معنی کئے جائیں “خبر رکھنے والا” تو مطلب یہ ہوگا “اے ساری خدائی کی خبر رکھنے والے” ۔ ہر محکمہ کا بڑا آفیسر اپنے سارے محکمہ کی خبر رکھتا ہے، نگرانی بھی کرتا ہے۔ حضور ﷺ سلطنت الٰہیہ کے وزیر اعظم ہیں۔ آپکو اﷲ تعالیٰ نے ذرے ذرے اور قطرے قطرے پر خبردار کیاہے۔ اگر جہاز کا کپتان جہاز سے بے خبر ہو جائے تو جہاز ڈوب جائیگا اگر ہمارے رسول ہم سے بے خبر ہو جائیں تو ہمارے ایمان کی کشتی غرق ہو جائیگی۔ (بحوالہ سابق ص 32)
حضور ﷺ سے سچی محبت پر انعامات الٰہیہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور شیخ الاسلام رقم فرماتے ہیں،
’’یہ بات قطعی ہے کہ جو شخص بھی حضور (کی محبت کی وجہ سے حضور ) کے ساتھ ہوگا وہ یقینا جنت میں داخل ہوگا، نتیجہ یہ نکلا کہ حضور کی محبت ہی جنت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ قیامت کے دن کلمہ ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ تمام عبادات اسی کی قبول ہونگی جس کے دل میں محبت ِمصطفی علیہ التحیۃ والثناء کی جلوہ گری ہوگی پھر جن لوگوں کا عقیدہ یہ ہو کہ اگر نماز میں نبی کا خیال آجائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے، وہاں محبت کا کیا کام۔۔۔۔۔؟ نماز تو وہ نماز ہے جو تصور ِمحبوب میں گم ہوکر پڑھی جائے،
ایمان ہے جس کا نام وہ حب ِرسول ہے
جب یہ نہیں تو ساری عبادت فضول ہے
(اتباع نبوی ص 40)
کلام نظم ہو کہ کلام نثر آیات ِقرآنیہ کی تفسیر ہویااحادیث نبویہ کی تشریح ، سب میں حضرت شیخ الاسلام نے عشق رسالت کے مقدس موضوع کو اول پیش نظر رکھا ہے۔ چنانچہ اربعین اشرفی میں ایک حدیث کی توضیح کے دوران آپ فرماتے ہیں،
’’رسول کریم کی عبدیت پر اسرار صرف ابنیت کی نفی کے لئے ہے۔ جو عبداﷲ ہوگا وہ ابن اﷲ نہیں ہو سکتا۔ اور چونکہ صرف عبداﷲ کے ذکر سے بظاہر دوسرے عام بندوں سے اشتراک و مساوات کا واہمہ ہو سکتا تھا اس لئے عبداﷲ کے ساتھ رسول اﷲ کی قید لگا دی تاکہ جہاں آپکو عبداﷲ کہنے والا ابن اﷲ نہ کہہ سکے وہیں رسول اﷲ کہنے والا اپنے جیسا نہ سمجھ سکے”
اور آپ نے اپنے اس دعویٰ کی تائید میں امام العارفین شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا قول بھی نقل فرمادیا ۔
’’مقام عبدیت جو آنحضرت ﷺ کا خاص مقام ہے ایک دفعہ مجھ پرسوئی کے ناکہ کے برابر منکشف ہوا تھا تو میں اس کی بھی تاب نہ لا سکا اور قریب تھا کہ جل گیا ہوتا ” (ماخوذ ازالاربعین الاشرفی ص 269)
حضرت ابو طالب کے ایمان کا مسئلہ جو علمائے سلف و خلف کے نزدیک مختلف فیہ رہا ہے ، اس بارے میں حضرت شیخ الاسلام نے اربعین اشرفی جو مشکوٰۃ شریف کی ابتدائی چالیس حدیثوں کی معرکۃ الآرا شرح ہے اس میں آپ نے حضرت ابو طالب کے متعلق پہلے علماء کا مذہب ذکر کیا ہے۔ پھر حضرت ضیائے ملت اور حضرت علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہما کے عمدہ خیالات کا ذکر کرتے ہوئے عشق رسالت ماٰب کے ادب کا تقاضہ ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں،
’’ حضرت ابو طالب کے ایمان کا مسئلہ اختلافی ہے اور جو لوگ آپ کے ایمان کے قائل نہیں انہیں یہ مناسب نہیں کہ اپنی زبان پر کوئی نا روا جملہ لے آئیں کیونکہ اس سے حضرت سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ کی اولاد کو اذیت پہنچتی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ حضور پاک کا دل بھی رنجیدہ ہوتا ہو، ہر عقل مند آدمی جانتا ہے کہ ایسے نازک مقام پر احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔ “
چند سطور کے بعد حضرت ضیائے ملت رحمۃ اﷲ علیہ کا مذہب رقم فرماتے ہیں ،
’’میرے خیال میں کسی عاشق بارگاہ ِرسالت ماٰب کو اس (حضرت ابو طالب کے ایمان ) کو دل سے قبول کرنے میں اعتراض نہیں ہونا چاہئے، اس تحفہ کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس سے کسی صاحب ِمسلک کو اس کے مسلک سے نہیں ہٹایا جارہاہے بلکہ بقصد ِادب بارگاہِ نبوی ایک ایسے غیر ضروری عمل و کردار سے اپنے کو بچانے کی صلاح دی جارہی ہے جس سے سادات ِعلویہ تو سادات ِعلویہ ، خود نبی کریم کو اذیت پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔
از خدا خواہیم توفیق ادب
بے ادب محروم از فضل رب
(الاربعین الاشرفی ص 338)
حضرت کے خطبات میں عشق رسول
خطبات ِبرطانیہ جو حضرت شیخ الاسلام کے شاہکار خطبات کاحسین مجموعہ ہے ، اس سے چند اقتباسات پیش ہیں۔ چونکہ طوالت کا خوف بھی دامن گیرہے اور قارئین کے افتادِ طبع کا خیال بھی ضروری ہے اس لئے اس اہم مجموعہ سے چند ہی اقتباسات قارئین کرام کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
میلاد مصطفی کے عنوان پر حضور والا کا اہم بیان جاری ہے اور فرماتے ہیں، ” اچھا مان لو خدا نے میلاد پڑھی، مگر شیرینی کہاں تقسیم کی تھی؟ اﷲ نے کچھ بانٹا بھی؟ ہم نے کہا ہاں۔ وہاں بھی شیرینی بٹی تھی مگر اتنا جان لو کہ ہم بانٹتے ہیں تو اپنی حیثیت کے مطابق ۔ جتنی ہماری حیثیت ہے اتنا ہی تو بانٹیں گے اور جب خدا دیگا تو تمہاری صلاحیت کے مطابق۔ وہ اپنی قدرت کے مطابق دے تو لینے کے لئے تمہارے پاس دامن کہاں؟ تو وہ دیتا ہے اپنی قدرت کے مطابق نہیں بلکہ تمہاری صلاحیت کے مطابق ۔ تو سنو میرے رسول کی میلاد کے صدقہ میں کیا تبرکات بٹے؟ دیکھو نبی کی میلاد کے صدقہ میں کسی کو نبوت ملی، کسی کو رسالت ملی، کسی کو ولایت ملی، کسی کو قرآن ملا، کسی کو انجیل ملی، کسی کو زبور عطا ہوئی، کسی کو توریت ملی، اور ہم سب کو رسول کی غلامی ملی، رسول کا کلمہ پڑھنے کی سعادت ملی۔ اور سنو ایمان والو ں کو ایمان ملا، اور کفر والوں کو رسول کی دھرتی پر رہنے کی مہلت ملی۔ (خطبات برطانیہ ص 48)
عاشق سے عشق کی بات
مسطورہ تحریریں اس پاکیزہ بارگاہ میں بطور نذرانۂ خلوص پیش ہیں، جن کے علوم و فنون کا جہان علم و فن معترف ہے۔ جو بیک وقت بے شمار کمالات، صلاحیات و صالحیات سے مالامال ہیں، برد باری جن کی عادت ہے، کرم نوازی جن کا شعار ہے، حسن اخلاق جن کے کردار سے ہویدا ہے، شفقت و محبت ، حوصلہ و ہمت، رہنمائی و بے نیازی ،عجز و انکساری، سادگی و اصاغر نوازی جن کی ذات کا دوسرا نام ہے۔ اور جن کا در کرم ضرورت مندوں کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ خدا کرے حضرت والا کا با فیض سایہ ہم ناچیزوں پر قائم و دائم رہے۔ درِکرم کھلا رہے، اور ہم حقیروں کی آس آپ کے بابرکت در سے بندھی رہے۔ اس لئے کہ آپ اس چمنستان کرم کے پھول ہیں جن کی بارگاہ کرم نوازی میں امام عشق و محبت ،غواص بحر معرفت ، پروانۂ شمع رسالت اعلیٰ حضرت رفیع الدرجت عرض گذار ہوتے ہیں،
کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی
زہرہ ہیں کلی جس میں حسین اور حسن پھول
اور فرماتے ہیں،
دو جہاں میں خادم آل رسول اﷲ کر
حضرت آل رسول مقتداء کے واسطے
انہیں چند کلمات کے ساتھ ناچیز حقیر الفہم اپنی بات کو ختم کرتا ہے، اس امید کے ساتھ کہ یہی تحریریں میرے لئے مغفرت کا سبب بنیں ، اس وقت جب کہ کسی کی نہیں چلے گی صرف حسنین کریمین کے نانا ﷺ کی چلے گی۔ گذارش ہے بارگاہ ِشیخ الاسلام میں
تیرے غلاموں میں اپنا بھی نام ہوجائے”