islam
بروزقیا مت فرائض کی کمی نوافل سے پوری کی جائے گی :
(23)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”بندے کا قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب ہو گا وہ نماز ہے، اگر وہ مکمل ہوئی تو اس کے لئے کامل ہونا لکھ دیا جائے گا اور اگر وہ مکمل نہ ہوئی تو اللہ عزوجل اپنے فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا :”ذرا دیکھو تو کیا تم میرے بندے کے پاس نوافل پاتے ہو؟” لہذا وہ اس بندے کے فرائض کو اس کے نوافل سے مکمل فرما دیں گے، پھر زکوٰۃ کا اسی طرح حساب ہو گا اور اس کے بعد بقیہ اعمال کا حساب بھی اسی طرح ہو گا۔”
(سنن النسائی،کتاب الصلاۃ ،باب المحاسبۃ علی الصلاۃ ،الحدیث ۶۶۷،ص۲۱۱۷بتغیرٍقلیلٍ )
(24)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر وہ کامل ہوئی تو کامل لکھ دی جائے گی اور اگر مکمل نہ ہوئی تو اللہ عزوجل اپنے فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا: کیا تم میرے بندے کے پاس کوئی نفل پاتے ہو۔ تو وہ اس کے فرائض کو اس کے نوافل کے ذریعے پورا کر دیں گے پھر اسی طرح زکوٰۃ اور دیگر اعمال کا حساب لیا جائے گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( سنن ابی داؤد ، کتاب الصلاہ ، باب قول النبی علیہ السلام کل صلاۃ۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث ۸۶۴، ص ۱۲۸۷،”مختصرًا”)
(25)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحبِ جُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا وہ یہ کہ اس کی نماز دیکھی جائے گی اگر وہ صحیح ہو گی تو وہ نجات پا جائے گا اور اگروہ صحیح نہ ہوئی تو وہ خائب و خاسر ہو گا۔”
( المعجم الاوسط ، الحدیث ، ۳۷۸۲ ،ج ۳ ، ص ۳۲ )
(26)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا اگر وہ صحیح ہو ئی تو بقیہ سار ے ا عمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر صحیح نہ ہوئی تو بقیہ سارے بھی برباد ہو جائیں گے پھر اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا :”دیکھو کیا میرے بندے کے پاس کوئی نفلی عبادت بھی ہے؟” تو اگر اس کے پاس نفل ہوئے تو ان سے فرضوں کو پورا کردے گا اور پھر اس کے بعد اللہ عزوجل کی رحمت سے دوسرے فرائض کا حساب ہوتا رہے گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(کنزالعمال،کتاب الصلاۃ ، قسم الاقوا ل،باب فی فضل الصلوۃوجوبھا،الفصل الاول،الحدیث:۱۸۸۸۴،ج۷،ص۱۱۵)
(27)۔۔۔۔۔۔خاتَم ُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قیامت کے دن بندوں سے ان کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا، تو اللہ عزوجل اپنے فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے:
”میرے بندے کی نماز کو دیکھو کیا یہ مکمل ہے يا ناقص؟ اگر وہ کامل ہو گی تو کامل لکھ دی جائے گی اور اگر اس نے اس میں کچھ کوتاہی کی ہو گی تو اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا:”میرے بندے کے نوافل دیکھو اگر اس کے پاس کچھ نوافل ہوں تو ان سے اس کے فرائض کو پورا کر دو۔” پھر اسی طرح بقیہ اعمال کا بھی حساب ہو گا۔”
( سنن ابی داؤد ،کتاب الصلاۃ ، باب قول النبی کل صلاۃ ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۸۶۴، ص ۱۲۸۷)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(28)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :ميرے پاس اللہ عزوجل کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کی :يارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ ”ميں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی اُمت پر پانچ نمازيں فرض فرمائی ہيں جو انہيں ان کے وضو، اوقات، رکوع اور سجود کی رعايت کرتے ہوئے ادا کریگا تو اسے جنت ميں داخل کرنا ميرے ذمۂ کرم پر ہے اور جو ان ميں سے کسی چيز ميں کوتاہی کر کے مجھ سے ملے گا اس کے لئے ميرے ذمۂ کرم پر کچھ نہيں، اگر ميں چاہوں گا تو اسے عذاب دوں گا اور اگر چاہوں گا تو اس پر رحم فرماؤں گا۔”
( کنز العمال ،کتاب الصلاۃ ، الحدیث ۱۸۸۷۶ ، ج۷ ، ص ۱۱۴)
(29)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”نماز کے لئے ميزان مقرر ہو گی جس نے اسے پورا کيا وہ پورا بدلہ لے گا۔”
( شعب الایمان ،باب فی الصلوات/ تحسین الصلاۃ والاکثارمنہا،الحدیث:۳۱۵۱،ج۳،ص۱۴۷ )
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(30)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”نماز شيطان کا منہ کالا کرتی ہے، صدقہ اس کی کمر توڑتا ہے اوراللہ عزوجل کے لئے محبت اور علم کے معاملے ميں مودّت اس کی دم کاٹ دیتی ہے، لہٰذا جب تم یہ (اعمال)کرتے ہو تو وہ تم سے اس قدر دور ہو جاتا ہے جيسے سورج کے طلوع ہونے کی جگہ اس کے غروب ہونے کی جگہ سے دور ہے۔”
( فردو س الاخبارللدیلمی،حرف باب الصاد،الحدیث:۳۶۱۵، ج۲ ،ص۳۰)
(31)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دل کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل سے ڈرو، اپنی پانچ نمازيں ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اموال کی زکوٰۃ ادا کرو اور جب ميں تمہيں کوئی حکم دوں تو اس کی پيروی کرو اپنے رب عزوجل کی جنت ميں داخل ہو جاؤ گے۔”
( جامع الترمذی ، ابواب السفر،باب منہ،الحدیث ۶۱۶، ص ۱۷۰۶ )
(32)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل کے نزديک سب سے پسنديدہ عمل وقت پر نماز پڑھنا ہے پھر والدين کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور پھر راہِ خدا عزوجل ميں جہاد کرنا ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( صحیح البخاری ،کتاب المواقیت الصلاۃ ، باب فضل الصلاۃ لوقتھا ، الحدیث ۵۲۸، ص۴۴)
(33)۔۔۔۔۔۔امير المؤمنين حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ايک شخص نے مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ ميں حاضر ہو کر عرض کی :”يارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اسلام کا کونسا عمل اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ پسند ہے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”وقت پر نماز پڑھنا اور جو شخص نماز چھوڑ دے اس کا کوئی دين نہيں اور نماز دين کا ستون ہے۔”
( السنن الکبری للبیہقی،کتا ب الصلاۃ ، باب التر غیب فی حفظ وقت الصلاۃ ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۳۱۶۵، ج ۲،ص ۳۰۴، مختصرا )
(34)۔۔۔۔۔۔ جب امير المؤمنين حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زخمی کيا گيا تو ان سے کہا گيا :”اے امير المؤمنين رضی اللہ تعالیٰ عنہ! نماز (کا وقت ہے)۔” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمايا :”يہ ايک نعمت ہے اور جس نے نماز کو ضائع کيا اس کا اسلام ميں کوئی حصّہ نہيں۔” پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز ادا فرمائی حالانکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔
(کتاب الکبائر،الکبیرۃ الرابعۃفی ترک الصلوٰۃ،ص۲۲،”نعمۃ”بدلہ”نعم”)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(35)۔۔۔۔۔۔مَحبوب رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب بندہ اوّل وقت ميں نماز ادا کرتا ہے تو وہ آسمان کی طرف بلند ہو جاتی ہے اور عرش تک اس کے ساتھ ايک نور ہوتا ہے، پھر وہ قيامت تک اس نمازی کے لئے استغفار کرتی رہتی ہے اور اس سے کہتی ہے :”اللہ عزوجل تيری اسی طرح حفاظت فرمائے جس طرح تُو نے ميری حفاظت فرمائی۔” اور جب بندہ وقت گزار کر نماز پڑھتا ہے تو وہ تاريکی ميں ڈوب کر آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے پھر جب وہ آسمان پر پہنچ جاتی ہے تو بوسيدہ کپڑے ميں لپيٹ کر اس نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔”
( کنز العمال،کتاب الصلوۃ ، الحدیث ۱۹۲۶۳،ج ۷، س ۱۴۷،بتغیرٍقلیلٍ)
(36)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تین شخص ایسے ہيں کہ جن کی نماز اللہ عزوجل قبول نہيں فرماتا۔
اور ان ميں اس شخص کا ذکر فرمايا جو وقت گزار کر نماز پڑھتا ہے۔
(37)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو نماز کی پابندی کریگا اللہ عزوجل پانچ باتوں کے ساتھ اس کا اکرام فرماے گا: (۱)اس سے تنگی اور (۲)قبر کا عذاب دور فرمائے گا(۳ )اللہ عزوجل نامۂ اعمال اس کے دائيں ہاتھ ميں دے گا (۴)وہ پل صراط سے بجلی کی تيزی سے گزر جائے گا اور (۵)جنت ميں بغير حساب داخل ہو گا اور جو نماز کو سستی کی وجہ سے چھوڑے گااللہ عزوجل اسے پندرہ سزائیں دے گا:پانچ دنيا ميں،تین موت کے وقت،تین قبر ميں اورتین قبر سے نکلتے وقت۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
دنیا میں ملنے والی سزائیں يہ ہيں: (۱)اس کی عمر سے برکت ختم کر دی جائے گی (۲) اس کے چہرے سے صالحين کی علامت مٹا دی جائے گی (۳)اللہ عزوجل اسے کسی عمل پر ثواب نہ دے گا (۴)اس کی کوئی دعا آسمان تک نہ پہنچے گی اور (۵)صالحين کی دعاؤں ميں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا ۔
موت کے وقت دی جانے والی سزائیں یہ ہیں (۱) وہ ذليل ہو کر مرے گا (۲)بھوکا مرے گا اور(۳)پياسا مرے گا اگرچہ اسے دنيا بھر کے سمندر پلا دئيے جائيں پھر بھی اس کی پياس نہ بجھے گی ۔
بے نمازی کو قبر میں دی جانے والی سزائیں یہ ہیں(۱) اس کی قبر کو اتنا تنگ کر ديا جائے گا کہ اس کی پسلياں ايک دوسرے ميں پيوست ہو جائيں گی (۲)اس کی قبر ميں آگ بھڑکا دی جائے گی پھر وہ دن رات انگاروں پر لوٹ پوٹ ہوتا رہے گا اور (۳)قبر ميں اس پرايک اژدھا مسلط کر ديا جائے گا جس کا نام اَلشَّجَاعُ الْاَقْرَع ہے، اس کی آنکھيں آگ کی ہوں گی جبکہ ناخن لوہے کے ہوں گے، ہر ناخن کی لمبائی ايک دن کی مسافت تک ہو گی، وہ ميت سے کلام کرتے ہوئے کہے گا: ”ميں اَلشَّجَاعُ الْاَقْرَع يعنی گنجا سانپ ہوں۔” اس کی آواز کڑک دار بجلی کی سی ہو گی، وہ کہے گا :”ميرے رب عزوجل نے مجھے حکم ديا ہے کہ نمازِ فجر ضائع کرنے پرطلوع آفتاب کے بعد تک مارتا رہوں اور نمازِ ظہر ضائع کرنے پر عصر تک مارتارہوں اور نمازِ عصر ضائع کرنے پر مغرب تک مارتا رہوں اور نمازِ مغرب ضائع کرنے پر عشاء تک مارتا رہوں اور نمازِ عشاء ضائع کرنے پر فجر تک مارتا رہوں۔” جب بھی وہ اسے مارے گا تو وہ 70ہاتھ تک زمين ميں دھنس جائے گا اور وہ قيامت تک اس عذاب ميں مبتلا رہے گا ۔
قبر سے نکلتے وقت ميدان محشر ميں ملنے والی سزائیں: (۱)وہ حساب کی سختی (۲)ربِّ قہار عزوجل کی ناراضگی اور (۳)جہنم ميں داخلہ ہيں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(کتاب الکبائرللامام الحافظ الذہبی،فصل فی المحافظۃ علی الصلوات والتہاون بہا،ص۲۴)
وضاحت: اس حدیثِ پاک ميں عدد کی جو تفصيل بيان کی گئی ہے وہ 15کے عدد کو پورا نہيں کرتی کيونکہ تفصيل 14سزاؤں کی بيان ہوئی ہے شايد راوی پندرہويں سزا بھول گئے۔
(38)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے :”جب وہ قيامت کے دن آئے گا تو اس کے چہرے پر تین سطریں لکھی ہو ں گی:(۱)اے اللہ عزوجل کا حق ضائع کرنے والے (۲)اے اللہ عزوجل کے غضب کے ساتھ مخصوص اور (۳)جس طرح تُو نے د نیا میں اللہ عزوجل کا حق ضائع کيا تو آج توبھی اللہ عزوجل کی رحمت سے مايوس ہو جا۔” (المرجع السابق،ص۲۵)
(39)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فرماتے ہيں :”جب قيامت کا دن آئے گا توايک شخص کو اللہ عزوجل کی بارگاہ ميں لا کرکھڑاکيا جائے گا، اللہ عزوجل اسے جہنم ميں لیجانے کا حکم فرمائے گا تو وہ عرض کریگا :”يا رب عزوجل! کس جرم کی سزا ميں؟” اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا :”نماز کو ان کے اوقات سے مؤخر کرنے اور ميرے نام کی جھوٹی قسميں کھانے کی وجہ سے۔” (المرجع السابق،ص۲۵)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(40)۔۔۔۔۔۔بعض محدثین کرام رحمہم اللہ تعالی نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ايک دن اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمايا :”دعا کرو، اے اللہ عزوجل !ہم ميں سے کسی کوبدبخت اور محروم نہ رہنے دے۔” پھر ارشاد فرمايا :”کيا تم جانتے ہو محروم اور بدبخت کون ہے؟” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :”يارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! وہ کون ہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”نماز چھوڑنے والا۔” (المرجع السابق، ص ۵ ۲)
(41)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قيامت کے دن سب سے پہلے نماز چھوڑنے والوں کے چہرے سياہ ہوں گے اور بے شک جہنم ميں ايک وادی ہے جسے لَمْلَمْ کہا جاتا ہے، اس ميں سانپ ہيں اور ہر سانپ اونٹ جتنا ہے، اس کی لمبائی ايک مہينے کی مسافت جتنی ہے، جب وہ بے نمازی کو ڈسے گا تو اس کا زہر 70سال تک اس کے جسم ميں جوش مارتا رہے گا پھر اس کا گوشت گل کر ہڈی سے الگ ہو جائے گا۔” (المرجع السابق،ص۲۶)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(42)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”بنی اسرائيل کی ايک عورت نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ ميں حاضر ہو کر عرض کی:”اے اللہ عزوجل کے نبی عليہ الصلوٰۃو السلام! ميں نے ايک بہت بڑا گناہ کيا ہے اور ميں اللہ عزوجل کی بارگاہ ميں توبہ بھی کر چکی ہوں، آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ عزوجل کی بارگاہ ميں دعا فرمائيں کہ وہ ميرا گناہ معاف فرما کر ميری توبہ قبول فرمالے۔” حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے دریافت فرمایا :”تيرا گناہ کيا ہے ؟” تو وہ بولی: ”ميں نے زنا کيا پھر اس سے جو بچہ پيدا ہوا ميں نے اسے قتل کر ديا۔” اس پر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے فرمايا :”اے بدکار عورت! يہاں سے چلی جا، کہيں آسمان سے آگ نازل نہ ہو جائے، اور تيری بدعملی کے سبب ہم بھی اس کی لپٹ ميں نہ آ جائيں۔” وہ عورت شکستہ دل لئے وہاں سے جانے لگی تو حضرت جبرائيل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کی :”اے موسیٰ علیہ السلام آپ کا رب عزوجل آپ سے ارشاد فرماتا ہے کہ” آپ نے اس توبہ کرنے والی عورت کو واپس کیوں لوٹا دیا؟ کيا آپ نے اس سے بدتر کسی کو نہ پايا؟” تو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمايا :”اے جبرائيل! اس سے بدتر کون ہو گا ؟” تو انہوں نے عرض کی: ”جو جان بوجھ کر نماز ترک کر دے۔” (کتاب الکبائر،ص۲۶)
سلف صالحین ميں سے کسی بزرگ رحمۃاللہ تعالی علیہ سے منقول ہے کہ ان کی بہن کا انتقال ہو گيا جب وہ اسے دفنانے لگے تو ان کی پوٹلی جس ميں کچھ پونجی جمع تھی قبر ميں گر گئی، دفنا کر لوٹنے تک وہ اس سے بے خبر رہے، جب واپس لوٹ آئے تو انہيں ياد آيا، وہ اس کی قبر پر آئے اور لوگوں کے چلے جانے کے بعد اسے کھودنے لگے، انہوں نے قبر ميں بھڑکتی ہوئی آگ دیکھی تو مٹی ڈال کر روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی ”اے امی جان!مجھے میری بہن کے بارے میں بتائیں کہ وہ کیا عمل کرتی تھی؟” والدہ صاحبہ نے کہا!”تم اس کے بارے میں کیا جاننا چاہتے ہو؟انہوں نے عرض کی :”امی جان ميں نے اس کی قبر پردہکتی ہوئی آگ ديکھی ہے۔” يہ سن کر وہ روتے ہوئے بولی :” بيٹا! تمہاری بہن نمازمیں سستی کرتی تھی اور اسے وقت گزار کر پڑھا کرتی تھی۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جب وقت گزار کر نماز پڑھنے کا يہ حال ہے تو ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں۔ہم اللہ عزوجل سے تمام آداب و کمالات اور وقت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفيق مانگتے ہيں بے شک وہ جواد و کريم اور رء ُ وف ورحيم ہے۔(آمين بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(المرجع السابق،ص۲۶)
تنبیہات
تنبیہ1:
نماز نہ پڑھنے يابلا عذر اسے وقت سے پہلے ياوقت گزار کرپڑھنے کو کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا ہے اس کی وجہ شيخين کا وہ قول ہے جسے انہوں نے صَاحِبُ الْعُدَّۃ سے نقل کر کے برقرار رکھا اور ”اَلْاَنْوَار ”ميں جو”دھرائے بغیر”کی قيد کا اضافہ کيا گيا ہے (یعنی اس وقت گناہ کبیرہ ہے جبکہ نماز نہ دہرائے)وہ اپنے محل ميں نہيں کيونکہ قبل اداکرنے کی صورت ميں وہ جان بوجھ کر دين سے مذاق کرنے والا ہو گا اگرچہ وقت ميں اعادہ بھی کر لے، جبکہ ”اَلْاِسْنَوِی”کا يہ قول کہ شيخين کا نماز کو وقت سے مقدم کرنے کا قول تحقيق شدہ نہيں کيونکہ اگر وہ اس کے جواز کا اعتقاد رکھتا ہو تو اس ميں کوئی کلام نہيں اور اگر وہ جانتا ہو کہ ايسا کرنا منع ہے تو اس کی نماز فاسد ہے اور ايسی صورت ميں اگر اس نے وقت ميں نماز پڑھی تو اس کا يہ عمل حرام ہے کيونکہ اس نے فاسد طور پر نماز ادا کی، لہٰذا اس کا لحاظ رکھنا چاہے اور اس شاذو نادر صورت پر اقتصار نہيں کرنا چاہے، اگر اس نے وقت پر نماز ادا نہ کی تو تاخير اور فاسد نماز کے سبب گناہ گار ہو گا اور يہ بات بھی اپنے محل ميں نہيں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اسی لئے سیدنا اذرعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمايا :”انہوں نے جو بات ذکر کی ہے وہ ايسی بے تکی بات ہے جس پر اضافہ کی گنجائش نہيں صَاحِبُ الْعُدَّۃ وغيرہ کے نماز کو وقت سے مقدم کرنے (کے قول ) سے مراد یہ ہے کہ وہ وقت کے داخل نہ ہونے کو جاننے کے باوجود نماز کو وقت سے مقدم کر کے ادا کرے اور ايسا کرنا جائز نہيں يہ وہ بات تھی جس کا تقاضا ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے ايک گروہ کا کلام کرتا ہے اور اس ميں کوئی نزاع نہيں اور بلاشبہ يہ عمل کبيرہ گناہ اور دين سے ہنسی مذاق کرنا ہے خواہ اس نے بعد ميں نماز کی قضاکی ہو یانہ کی ہو ۔
اور”اَلتَّہْذِيْب ”ميں جو ایک وجہ بیان کی گئی ہے وہ ضعیف ہے کہ ايک ضعيف حکايت ہے :”ايک مرتبہ نماز کو اتنی دير تک ادا نہ کرنا کہ اس کا وقت گزر جائے کبيرہ گناہ نہيں اور اس عمل سے گواہی اسی وقت مردود ہو گی جبکہ وہ اسے عادت بنا لے۔”
سیدنا حليمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں :”نماز ترک کرنا کبيرہ گناہ ہے اور اگر کوئی اس کی عادت بنا لے تو يہ زيادہ برا ہے اور اگر کسی نے نماز پڑھی مگر اس کے خشوع کا حق ادا نہ کيا مثلاً اِدھر اُدھر متوجہ رہا يا اپنی انگلياں چٹخاتا رہا يا لوگوں کی باتيں توجہ سے سنيں يا پتھر ہٹائے يا داڑھی کو باربار چھوتا رہا تو(نماز میں) يہ اعمال صغيرہ گناہ ہيں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سیدنا اذرعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں :”امام حلیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علاوہ دیگر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا کلام اعمال کے مکروہ ہونے کا تقاضا کرتا ہے ۔” اسے ا ن کے قول کی طرف پھيرنا زيادہ مناسب ہے، يہ بات خشوع کے اسباب کے زيادہ موافق ہے لہٰذا خشوع کے منافی ہر بات کا يہی حکم ہے تاکہ نماز کا کوئی حصہ حرام نہ ہو جبکہ صحيح ترين قول يہ ہے کہ خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنا سنت ہے لہٰذا ان ميں سے کوئی عمل حرام نہيں۔
تنبیہ2:
نماز ترک کرنا کفرہے یا نہیں ؟
حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان اور ان کے بعد کے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا بے نمازی کے کافر ہونے کے بارے ميں اختلاف ہے اور گذشتہ کئی احادیثِ مبارکہ ميں بے نمازی کے کفر، شرک اور ملتِ اسلاميہ سے خارج ہونے کی تصريح کی گئی ہے مثلاً ”بے نمازی سے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا ذمۂ کرم اُٹھ گیا ، اس کے اعمال برباد ہو گئے، اس کا کوئی دين نہيں اور اس کا کوئی ايمان نہيں وغيرہ وغیرہ۔ ”بہت سے صحابہ کرام،تابعين اور ان کے بعد کے ائمہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان احادیثِ مبارکہ کے ظاہری معنی کو اختيار کيا اور فرمايا :”جو شخص جان بوجھ کر نماز کو اتنی دير تک مؤخر کر ے کہ نماز کا پورا وقت گزر جائے وہ کافر ہے، اسے قتل کر ديا جائے۔”