islam
دنیوی اور دینی فوائد:
اس کے دنيوی فوائد تو ظاہر ہيں اور دينی فوائد ميں سے سب سے اہم ترين عبادت کا حصول مال کے بغير ممکن نہيں جيسے حج و عمرہ ا ور مال ہی کے ذريعے عبادات پر قوت حاصل ہوتی ہے مثلاً کھانے، لباس، رہائش، نکاح اور ديگر ضرورياتِ زندگی کا حصول وغيرہ کيونکہ دين کی خدمت کے لئے وہی شخص فراغت پا سکتا ہے جو ان امور ميں باکفايت ہو حالانکہ (یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ) عبادت کا حصول جن چيزوں پر موقوف ہو وہ بھی عبادت ہی ہوتی ہيں جبکہ جو مال ضرورت سے زائد ہو وہ دنيا کا حصہ ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔دينی فوائد ميں سے ایک فائدہ صدقہ کرنا بھی ہے، اس کے فضائل مشہور ہيں اور میں نے اس کے بارے میں ایک کتاب بھی تالیف کی ہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔اسی طرح اغنياء کے لئے تحائف اور مہمان نوازی باعثِ فضیلت ہے۔ ان دونوں کے بھی بہت سے فضائل ہيں، نيز ان سے دوستياں بڑھتی ہيں، سخاوت کی صفت حاصل ہوتی ہے يا شاعر يا بے دين سے عزت کی حفاظت ہوتی ہے۔
(77)۔۔۔۔۔۔ایک اور روایت میں دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس مال کے ذريعے عزت بچائی جا ئے وہ بھی صدقہ ہے۔”
(سنن دار قطنی،کتاب البیوع،الحدیث: ۲۸۷۲،ج۳،ص۳۳)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(۴)۔۔۔۔۔۔جو شخص تمہارے کام وغيرہ نپٹاتا ہو اس کی اجرت بھی مال ہی سے ادا ہو سکتی ہے کيونکہ اگر تم خود وہ کام سرانجام ديتے تو تمہارے اخروی مصالح فوت ہو جاتے اس وجہ سے کہ تم پر جو علم و عمل اور ذکر و فکر لازم ہے وہ دوسرے کسی شخص سے پورا ہونے کا تصور نہيں کيا جا سکتا، لہٰذا تمہارا دوسرے کاموں ميں وقت صرف کرنا فساد ہی ہے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔عام خيرکے کام مثلاً مسجد بنانا، قلعے يا پل بنانا، راستوں پر پانی کی سبيل بنانا، بيماروں کے لئے اسپتال قائم کرنا وغيرہ اور ديگر خير کے کام مال ہی کے ذريعے پايہ تکميل تک پہنچ سکتے ہيں، يہ نیکی کے وہ کام ہيں جو موت کے بعد بھی ہميشہ رہنے والے اور ضرورت کے وقت صالحين کی دعاؤں کو سميٹنے والے ہيں اور تمہارے لئے اس کی اتنی ہی بھلائی کافی ہے کہ يہ سب مال کے دینی فوائد ہيں جبکہ اس سے جلد حاصل ہونے والے فوائد مزيد برآں ہيں مثلاً عزت، خدمتگاروں اور دوستوں کی کثرت، لوگوں کا تعظيم کرنااور اس کے علا وہ وہ دنيوی فوائد جن کا مال و دولت تقاضاکرتا ہے۔