Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islamwaqiyat

دشوار گزار گھاٹی

دشوار گزار گھاٹی

حضرت سیدنا ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ المُنعم فرماتے ہیں :” جب حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجید خلیفہ بن گئے تو ایک دن میں ا ن سے ملاقات کے لئے گیا۔ وہ کچھ لوگو ں میں تشریف فرماتھے ، میں انہیں نہ پہچان سکا لیکن انہوں نے مجھے پہچان لیا اور فرمایا:” اے ابو حازم ( علیہ رحمۃ اللہ المُنعم)! میرے قریب آؤ ، میں ان کے قریب گیااور عرض کی:” کیا آپ ہی امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) ہیں؟” انہوں نے فرما یا:”جی ہاں میں ہی عمر بن عبدالعزیز ہوں۔”
میں بہت حیران ہوا اور عرض کی:” جس وقت آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مدینہ منورہ میں ہمارے امیر تھے اس وقت آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہکا حسن وجمال عروج پر تھا، چہرہ انتہائی تاباں اور روشن تھا، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس بہترین لباس اور بہت ہی عمدہ سواریاں تھیں ،آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے کثیر خدّام تھے، اور آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی رہائش گاہ بہت ہی عمدہ تھی ۔ اب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو کس چیز نے اس حال میں پہنچا دیا۔حالانکہ اب توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ امیر المؤمنین ہیں،اب توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس زیادہ آسائشیں ہونی چاہيں تھیں۔” امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ المجیدیہ سن کر رونے لگے اور فرمایا:”اے ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ المُنعم!اس وقت میرا کیا حال ہوگا جب میں اندھیر ی قبر میں پہنچ جاؤں گا اور میری آنکھیں بہہ کر میرے رخساروں پر آجائیں گی ، میرا پیٹ پھٹ جائے گا، زبان خشک ہوجائے گی اور کیڑے میرے جسم پر رینگ رہے ہوں گے چاہے میں کتنا ہی انکار کرو ں۔”
پھر روتے ہوئے فرمانے لگے:” اے ابو حازم (علیہ رحمۃ اللہ المُنعِم)!مجھے وہ حدیث سناؤ جو تم نے مجھے مدینہ منورہ میں سنائی تھی۔” تومیں نے کہا:” اے امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ! میں نے حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہ فرماتے ہوئے سناکہ نبی ئمُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا:” تمہارے سامنے دشوار گزار گھاٹی ہے جس سے صرف کمزور اور نحیف لوگ ہی گزر سکیں گے۔ ” ( حلیۃ الاولیاء،مسند عمر بن عبد العزیز،رقم :۷۲۹۸،ج۵،ص۳۳۳)
یہ حدیثِ پاک سن کرحضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ المجید بہت دیر تک روتے رہے، پھر فرمایا:” اے ابوحازم (علیہ رحمۃ اللہ المُنعم)!کیا میرے لئے یہ بہتر نہیں کہ میں اپنے جسم کو کمزور ونحیف بنالوں تا کہ اس ہولناک وادی سے گزر سکوں؟ لیکن مجھے اس خلافت کی آزمائش میں مبتلا کر دیا گیا ہے، پس معلوم نہیں کہ مجھے نجات ملے گی یا نہیں ۔” پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ پر غشی طاری ہوگئی۔ لوگوں نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق باتیں بنانا شروع کردیں، میں نے لوگو ں سے کہا:” تم امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق باتیں نہ بناؤ، تمہیں کیا معلوم!یہ کس مصیبت سے دوچار ہيں ۔”

پھر انہوں نے اچانک رونا شرو ع کردیا اور اتنا زور سے روئے کہ ہم سب نے ان کی آواز سنی، پھر یکدم ہنسنے لگے ۔میں نے کہا:” حضور! ہم نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو بڑی تعجب خیز حالت میں دیکھا ۔پہلے تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ خوب روئے پھر ہنسنا شروع کردیا، اس میں کیا راز ہے ؟” انہوں نے پوچھا :” کیا تم نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا؟”میں نے کہا :”جی ہاں! ہم سب نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہکی یہ تعجب خیزحالت دیکھی ہے۔”تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے:” اے ابو حازم (علیہ رحمۃ اللہ المُنعم) ! بات دراصل یہ ہے کہ جب مجھ پر غشی طاری ہو ئی تو میں نے خواب دیکھا کہ قیامت قائم ہوچکی ہے ، اور مخلوق حساب و کتاب کے لئے میدان محشر میں جمع ہے، تمام اُمتوں کی 120صفیں ہیں جن میں سے اسّی(80)صفیں اُمتِ محمد یہ علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والسلام کی ہیں۔ تمام لوگ منتظر ہیں کہ کب حساب کتاب شرو ع ہوتاہے۔
اچانک ندادی گئی :” عبداللہ بن عثمان ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہاں ہے؟” چنانچہ حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فر شتو ں نے بارگاہِ خداوندی عزوجل میں حاضر کیا۔ ان سے مختصر حساب لیا گیا اور انہیں دائیں جانب جنت کی طر ف جانے کا حکم ہوا ۔پھر حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آواز دی گی ؟ وہ بھی بارگاہِ ربُّ العزَّت عزوجل میں حاضر کئے گئے اور مختصر حساب کے بعد انہیں بھی جنت کا مژدہ سنادیا گیا،پھرحضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مختصر حساب کے بعدجنت میں جانے کا حکم سنایا گیا پھر حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کو ندادی گئی۔ چنا نچہ وہ بھی بارگاہِ احکم الحاکمین عزوجل میں حاضر ہوگئے اور انہیں بھی مختصر حساب کے بعد جنت کا پر وانہ مل گیا۔
جب میں نے دیکھا کہ اب میری باری آنے والی ہے تو میں منہ کے بل گر پڑا اور مجھے معلوم نہیں کہ خلفاء اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد والوں کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا، پھر ندادی گئی کہ عمر بن عبد العزیزکہا ں ہے ؟ میری حالت خراب ہونے لگی اور میں پسینے میں شرابور ہوگیا، مجھے بارگاہِ خداوندی عزوجل میں حاضر کیا گیا اور مجھ سے حساب کتاب شرو ع ہوا اور ہر اس فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا جو میں نے کیا حتّٰی کہ گٹھلی ،اس کے دھاگے اورگٹھلی کے چھلکے تک کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی، پھر مجھے بخش دیا گیا (اور جنت میں جانے کا حکم صادر ہوا)راستے میں میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو گلے سڑے جسم کے ساتھ راکھ پر پڑا تھا۔ میں نے فرشتو ں سے پوچھا :”یہ کون ہے ؟” توفرشتو ں نے کہا:” آپ اس سے بات کیجئے، یہ آپ کو جواب دے گا۔” میں اس کے پاس گیا اور اسے ٹھو کر مار ی تو ا س نے آنکھیں کھول دیں اور سر اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگا۔میں نے اس سے پوچھا: ”تو کون ہے ؟” اس نے کہا:”آپ کون ہو؟” میں نے کہا :”میں عمر بن عبدالعزیز ہوں۔” پھر اس نے پوچھا :”اللہ ربُّ العزَّت نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟” میں نے کہا :” مجھے میرے رحیم وکریم پروردگار عزوجل نے اپنے فضل وکرم سے بخش دیا اور
میرے ساتھ بھی وہی معاملہ فرمایا جو خلفاء اربعہ علیہم الرضوان کے ساتھ فرمایا اور مجھے بھی جنت میں جانے کا حکم ہوا ہے۔ان کے علاوہ باقی لوگو ں کے بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ وہ شخص کہنے لگا:”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو بہت بہت مبارک ہو کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا میاب ہو گئے ۔”میں نے پوچھا :” تم کون ہو؟” اس نے کہا :”میرا نام حجاج بن یوسف ہے، مجھے جب اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو میں نے اپنے پروردگار عز وجل کوبہت غضب وقہر کے عالم میں پایا اور مجھے ہر اس قتل کے بدلے سخت عذاب دیا گیا جو میں نے دنیا میں کیا تھاجن طریقوں سے میں نے دنیا میں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا تھا انہی طریقوں سے مجھے بھی سخت عذاب دیا گیا۔اب میں یہاں پڑاہوا ہوں اور اپنے رب عزوجل کی رحمت کا اُمیدوار ہوں جس طر ح کہ سب مُوحِّدین منتظر ہیں۔ اب یا تو ہمارا ٹھکانا جنت ہوگا یا جہنم ۔”حضر ت سیدنا ابو حازم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”حضرت سیدنا عمربن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجید کے اس خواب کے بعد میں نے عہد کرلیا کہ آئندہ کبھی بھی کسی مسلمان کو قطعی جہنمی نہیں کہوں گا۔” (یعنی بندہ چاہے کتناہی گناہ گار کیوں نہ ہو اللہ عزوجل کی رحمت بڑی وسیع ہے وہ جسے چاہے بخش دے )
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!