تیس ہزار درہم
حضرت سیدنا یحییٰ بن اسود کلابی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو میں نے اپنے باغ کی دیکھ بھال کے لئے اجیر(یعنی ملازم) رکھا، تقریبا ًایک سال بعد میں اپنے کچھ دوستو ں کے ساتھ با غ میں گیا اور حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم سے کہا :”ہمارے لئے چند میٹھے انار توڑ لاؤ ۔”وہ گئے اور چند انار ہمارے سامنے رکھے۔ جب ہم نے انہیں کھایا تو وہ بہت کھٹے تھے ، میں نے ان سے کہا :” تمہیں اس باغ میں پورا ایک سال گز رچکا ہے، ابھی تک تمہیں میٹھے اور کھٹے انارو ں کی بھی پہچان نہ ہوسکی؟” تووہ فرمانے لگے :” آپ مجھے بتا دیجئے کہ کس درخت کے انار میٹھے ہیں، میں ابھی حاضر کردو ں گا۔” پھر میں نے انہیں میٹھے اناروں کے بارے بتایا تو وہ میٹھے ا نار لے آئے۔
پھر ایک شخص عمدہ اونٹ پر سوار ہو کر ہمارے پاس آیا اور اس نے حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے بارے میں پوچھا:” ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کون ہیں؟” میں نے اسے بتایا :” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فلاں جگہ موجو د ہیں ۔” وہ شخص آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دست بوسی کی اور نہایت مؤدبانہ انداز میں کھڑا ہوگیا۔ حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے استفسار فرمایا:” تم یہاں کس سلسلے میں آئے ہو؟” وہ شخص کہنے لگا:” میں ”بلخ شہر ”سے آیا ہوں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چند غلاموں کا انتقال ہوگیا ہے، میں ان کا مال لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ یہ تیس ہزار درہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہہی کے ہیں، آپ انہیں قبول فرمالیں ۔”
حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:”تمہیں میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی؟” وہ کہنے لگا: ”حضور! میں اتنی دور سے سفر کی تکالیف برداشت کر کے حاضرہوا ہوں، برائے کرم !یہ رقم قبول فرما لیجئے۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”ایک چادر بچھا ؤ اور سارا مال اس پر ڈال دو۔” اس نے ایسا ہی کیا ۔پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :” اس مال کے برابر برابر تین حصے کرو ۔” اس نے تین حصے کر دیئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” ایک حصہ تیرے لئے کیونکہ تو سفر کی صعوبتیں اور مشکلات بر داشت کر کے یہاں پہنچاہے ، اور دوسراحصہ لے جاؤ اور اسے بلخ کے غرباء و مساکین میں تقسیم کردینا۔
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہحضرت سیدنا یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طر ف متوجہ ہوئے جن کے با غ میں آپ بطورِ اجیر کام کرتے تھے اور ان سے فرمایا:” یہ ایک حصہ تم لے لو اور اسے ” عسقلان” کے غرباء وفقراء میں تقسیم کردینا ۔” اتنا کہنے کے بعدآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے تشریف لے گے اور ان تیس ہزار دراہم میں سے ایک درہم بھی نہ لیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)