islam
نوفل کی لاش
اس کے بعد نوفل غصہ میں بپھرا ہوا میدان میں نکلااور پکارنے لگا کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے؟ حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس پر بجلی کی طرح جھپٹے اور ایسی تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار زین کو کاٹتی ہوئی گھوڑے کی کمر تک پہنچ گئی لوگوں نے کہا کہ اے زبیر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہاری تلوار کی تو مثال نہیں مل سکتی آپ نے فرمایاکہ تلوار کیا چیز ہے؟ کلائی میں دم خم اور ضرب میں کمال چاہیے۔ ہبیرہ اور ضرار بھی بڑے طنطنہ سے آگے بڑھے مگر جب ذوالفقار کا وار دیکھا تو لرزہ براندام
ہو کر فرار ہو گئے کفار کے باقی شہسوار بھی جو خندق کو پار کرکے آ گئے تھے وہ سب بھی بھاگ کھڑے ہوئے اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ تو اس قدر بدحواس ہو گیا کہ اپنا نیزہ پھینک کر بھاگا اور خندق کے پار جا کر اس کو قرار آیا۔(1)(زرقانی جلد ۲ )
بعض مؤرخین کا قول ہے کہ نوفل کو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قتل کیااور بعض نے یہ کہا کہ نوفل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے گھوڑے کو کودا کر خندق کو پار کرنا چاہتا تھا کہ خود ہی خندق میں گر پڑااور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مر گیابہر حال کفار مکہ نے دس ہزار درہم میں اس کی لاش کو لینا چاہاتاکہ وہ اس کو اعزاز کے ساتھ دفن کریں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے رقم لینے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم کو اس لاش سے کوئی غرض نہیں مشرکین اس کو لے جائیں اور دفن کریں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔(2)(زرقانی جلد۲ ص۱۱۴)
اس دن کاحملہ بہت ہی سخت تھادن بھرلڑائی جاری رہی اوردونوں طرف سے تیراندازی اورپتھربازی کاسلسلہ برابرجاری رہااورکسی مجاہدکااپنی جگہ سے ہٹنانا ممکن تھا، خالد بن ولید نے اپنی فوج کے ساتھ ایک جگہ سے خندق کو پار کر لیا اور بالکل ہی ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خیمہ اقدس پر حملہ آور ہو گیامگر حضرت اسید بن حضیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو دیکھ لیا اور دو سو مجاہدین کو ساتھ لے کر دوڑ پڑے اور خالد بن الولید کے دستہ کے ساتھ دست بدست کی لڑائی میں ٹکرا گئے اور خوب جم کر لڑے اس لئے کفار خیمہ اطہر تک نہ پہنچ سکے ۔ (3)(زرقانی جلد۲ ص۱۱۷)
اس گھمسان کی لڑائی میں حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نماز عصر قضا ہو گئی۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا ۔تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھی ہے پھر آپ نے وادی بطحان میں سورج غروب ہو جانے کے بعد نماز عصر قضا پڑھی پھر اس کے بعد نماز مغرب ادا فرمائی۔ اور کفار کے حق میں یہ دعا مانگی کہ
مَلَاَ اللہُ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَھُمْ وَقُبُوْرَھُمْ نَارًا کَمَا شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ (1)(بخاری ج2ص۵۹۰)
اﷲ ان مشرکوں کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے ان لوگوں نے ہم کو نماز وسطیٰ سے روک دیایہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔
جنگ خندق کے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی فرمائی کہ :
اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ(2)(بخاری ج۲ ص۵۹۰)
اے اﷲ!عزوجل اے کتاب نازل فرمانے والے!جلدحساب لینے والے!تو ان کفار کے لشکروں کو شکست دے دے،اے اﷲ!عزوجل ان کو شکست دے اور انہیں جھنجھوڑ دے۔
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق…الخ، ج۳،ص۴۳ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق…الخ،ج۳،ص۴۱،۴۳ملتقطاً
3۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ الخندق…الخ،ج۳،ص۴۷ملخصاً
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق،الحدیث:۴۱۱۱،۴۱۱۲،
ج۳، ص۵۴
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق،الحدیث:۴۱۱۵،ج۳،ص۵۵