Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کبيرہ نمبر211 بلاضرورت محض تکبرکی بناپراونچی عمارت بنانا

 (1)۔۔۔۔۔۔حضرت عمار بن ياسررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:”جب آدمی عمارت کو 7گز سے زيادہ بلند کرتا ہے تو اسے ندادی جاتی ہے:”اے سب سے بڑے فاسق! کہاں تک بلند کریگا۔”
 (الترغیب والترھیب،کتاب البیوع،باب الترھیب من البناء ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث :۲۹۲۲، ج۲، ص ۶ ۴۱)
 (2)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:”ہم،نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحروبَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی معيت ميں نکلے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ايک اونچا قبہ ديکھ کر پوچھا:”يہ کيا ہے؟” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”يہ فلاں انصاری کامکان ہے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم خاموش ہوگئے اور اس بات کو اپنے دل ميں رکھاحتی کہ اس کا مالک آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی بارگاہ ميں حاضر ہوا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے سامنے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی بارگاہ ميں سلام عرض کیا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اس سے اپنا رخِ انور پھير ليا، اس نے کئی مرتبہ سلام عرض کیا جب اس پر رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ناراضگی اور بے رخی واضح ہو گئی تو اس نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے اس بات کا تذکرہ کيا اور کہا:”اللہ عزوجل کی قسم!میں نے نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ناراض کردیا (وجہ معلوم نہیں)؟” تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بتايا:”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم باہر تشريف لے گئے تھے اور تمہارا گنبد ديکھا تھا(بس یہی وجہ ناراضگی ہے )۔” تو وہ شخص اپنے قبے کی طرف گيا اور اسے مسمار کر کے زمين کے برابر کر ديا، پھر ايک دن رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم باہر تشريف لے گئے تو وہ قبہ موجود نہ پا کر صحابہ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمايا:”قبے کا کيا ہوا؟” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عر ض کی:”اس کے مالک نے ہمارے سامنے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی ناراضگی کاذکر کيا تو ہم نے اسے واقعہ بتا ديا پس انہوں نے اسے منہدم کر ديا۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمايا:”ضرورت سے زيادہ ہر عمارت اپنے مالک پر وبال ہو گی۔”
  ( سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ، باب فی البناء ، الحدیث: ۵۲۳۷ ، ص ۱۶۰۵)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (3)۔۔۔۔۔۔نبی کريم،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کسی انصاری کے دروازے پر بنے ہوئے قبے کے قريب سے گزرے تو دریافت فرمایا:”يہ کيا ہے؟” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”يہ قبہ ہے، فلاں نے بنايا۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”اس طرح کی ہر چيز قيامت کے دن اپنے مالک پر وبال ہو گی۔” جب اس انصاری تک يہ بات پہنچی تو اس نے اسے ڈھا ديا، پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا دوبارہ وہاں سے گزر ہوا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے وہ قبہ موجو دنہ پاکر اس کے بارے ميں پوچھاتو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی بارگاہ ميں عرض کی گئی کہ”اس کے مالک تک آپ کی بات پہنچی تو اس نے اسے ڈھا ديا۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل اس پر رحم فرمائے۔”  ( سنن ابن ماجہ ،ابواب الزھد ، باب فی ا لبناء والنحراب، الحدیث:۴۱۶۱ ، ص ۲۷۳۰)
 (4)۔۔۔۔۔۔رسول اکرم، شفيع مُعظَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا گزر ایک انصاری کی قبہ نما عمارت کے قريب سے ہوا تو دریافت فرمایا:”يہ کيا ہے؟” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”یہ قبہ ہے۔” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اپنے سرِ اقدس کی طرف اشارہ کر کے ارشاد فرمايا:”ہر وہ عمارت جو اس سے اونچی ہووہ قيامت کے دن اپنے مالک پر وبال ہو گی۔”  ( المعجم الاوسط ، الحدیث: ۳۰۸۱، ج۲ ، ص ۲۲۳)
 (5)۔۔۔۔۔۔حضورنبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”ہر عمارت اپنے مالک پر وبال ہو گی مگر جو اتنی ہواور اپنے دستِ اقدس سے اشارہ فرمایااور ہر علم اپنے صاحب پر وبال ہو گا مگر جس پر عمل کيا جائے۔”  ( المعجم الکبیر ، الحدیث: ۱۳۱ ، ج ۲۲ ، ص ۵۵تا ۵۶)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (6)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جب اللہ عزوجل کسی بندے سے برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے عمارت بنانے کے لئے اينٹيں اور مٹی مہيا فرما ديتا ہے۔”  ( المعجم الکبیر ، الحدیث:۱۷۵۵ ، ج۲ ، ص ۱۸۵)
 (7)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جب اللہ عزوجل کسی بندے کو رسوا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تووہ اپنا مال عمارتیں بنانے ميں خرچ کرڈالتا ہے۔”
 ( المعجم الاوسط ، الحدیث: ۸۹۳۹، ج۶، ص ۳۲۸ )
 (8)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو اپنی ضرورت سے زيادہ اونچی عمارت بنائے گا قيامت کے دن اسے وہ عمارت اٹھانے کا پابند بنايا جائے گا۔”
 ( المعجم الکبیر ، الحدیث:۱۰۲۸۷،ج۱۰،ص۱۵۲تا۱۵۱ )
 (9)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ايک قبہ بنوايا، تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ان سے ارشاد فرمايا:”اسے گرا دیں یا پھر اس کی قيمت صدقہ کریں۔” تو انہوں نے عرض کی:”ميں اسے ہی گرا ديتا ہوں۔”
 ( مجمع الزوائد ،کتاب البیوع ، باب ماجاء فی البنان ، الحدیث: ۶۲۸۲، ج۴ ، ص ۱۲۱)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (10)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”ہر اچھی چيز صدقہ ہے اور آدمی اپنے اہلِ خانہ پر جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہی لکھا جاتا ہے اور بندہ عمارت يا گناہ کے علاوہ جس کام ميں بھی اپنا مال خرچ کرتا ہے اس کا بدلہ اللہ عزوجل کے ذمۂ کرم پر ہے اور اللہ عزوجل اس کا ضامن ہے۔”
 ( المستدرک،کتاب البیوع ، باب کل معروف صدقۃ ، الحدیث: ۲۳۵۸ ، ج ۲ ، ص ۳۵۸)
 (11)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المُبلِّغین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”مٹی یاعمارت بنانے کے علاوہ آدمی کواس کے ہرقسم کے نفقہ میں اَجرملتاہے۔”
( جامع الترمذی ،ابواب صفۃ القیامۃ ، باب النفقۃ کلھا۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۲۴۸۳،ص۱۹۰۱)
 (12)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”ہرقسم کا خرچ راہِ خدا عزوجل ميں ہے مگر عمارت بنانے کا خرچ اس ميں شامل نہيں کيونکہ اس ميں کوئی بھلائی نہيں۔”
 (المرجع السابق، الحدیث: ۲۴۸۲ ، ص ۱۹۰۱)
 (13)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”مسلمان آدمی کا مال جن کاموں ميں ضائع ہوتا ہے ان ميں بدترين کام عمارت بنانا ہے۔”
(مراسیل ابی داؤد،باب ماجاء فی البناء،حدیث عطیۃ بن قیس ،ص۱۹)
 (14)۔۔۔۔۔۔حدیثِ جبرائیل میں ہے:”قيامت کی نشانيوں ميں سے ايک يہ بھی ہے کہ بکرياں چرانے والے لوگ عمارتوں پرفخرکريں گے۔”
 ( صحیح مسلم ،کتاب الایمان ، باب بیان الایمان والاسلام ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۹۳ ، ص ۶۸۱)
 (15)۔۔۔۔۔۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :”(قربِ قیامت )بکریاں چرانے والے اور ننگے بدن والے فقراء عمارتیں بنانے پر فخر کریں گے۔”
      (سنن ابی داؤد،کتاب السنۃ،باب فی القدر،الحدیث:۴۶۹۵،ص۱۵۶۸)

تنبیہ:


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنے کی وجہ يہ ہے کہ اگرچہ ميں نے کسی کو اس کی صراحت کرتے ہوئے نہيں پایامگر احادیثِ مبارکہ اورآثارصحابہ اس کے کبيرہ ہونے کی صراحت کرتے ہيں کيونکہ ايسی باتيں اپنی رائے سے نہيں کہی جاتيں۔
    اس طرح کے معاملات ميں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اقوال مرفوع حديث کے حکم ميں ہوتے ہيں کيونکہ ان ميں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہيں آخری چند احادیثِ مبارکہ تو اس کے کبيرہ ہونے پر صريح دليل ہيں کيونکہ ان ميں اس عمل پر صريح وعيد بيان کی گئی ہے اور کچھ باتيں اس وعيد کی طرف اشارہ کرتی ہيں مثلاًمَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق وامین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا غضب فرمانا، سلام کا جواب نہ دينا اور اسے گرائے بغير راضی نہ ہونا اس کے کبيرہ گناہ ہونے پر صريح دليل ہے مگر اسے اس صورت پر محمول کرنا مناسب ہے جسے ميں نے عنوان ميں ذکر کر ديا ہے کہ اگر اس سے مقصود تکبر اور فخر ہو تو يہ کبيرہ گناہ ہے اسی طرح اسے وبال، رسوائی اورمکمل شر سے تعبير کرنا يا تو سخت وعيد پر صريح دليل ہے يا صريح دليل کی طرح ہے۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!