Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کی خدمات جلیلہ اور عصر حاضر

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
کی خدمات جلیلہ اور عصر حاضر

از: حضرت پروفیسر نثار احمد فاروقیؒ، شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی

اسلام وہ مذہب ہے جس کی تکمیل اللہ نے کر کے اسے سب انسانوں کے لئے پسند کیا ہے یعنی یہ عالمی مذہب ہے، ہر زمانے اور ہر قوم کے لئے ہے۔ ایسا ہے تو عالمی سیاق وسباق میں اس کا سابقہ مختلف قوموں کی معاشرت سے، ان کے اسلوب زندگی سے ، تاریخی اور جغرافیائی حالات سے بھی ہوگا، اگر اسلامی تاریخ کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایسا ہوا بھی ہے پہلے جزیرئہ عرب کے مشرکین سے واسطہ پڑا پھر یہود سے پھر نصاریٰ سے پھر پارسی مذہب سے پھر بدھ مت اور آخر میں ہندوازم سے۔
جب اتنے وسیع دائرے میں اس کاپھیلاؤ ہو اور اتنے مختلف عقائد وافکار سے رابطہ ہو تو فطری اور منطقی طور پر یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ اس میں لچک بھی ہو اور جن حالات میں جن لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچاناہے، ان کے مزاج، مذاق میلان اورضرورت کا لحاظ رکھا جائے۔ مذہبی ماحول ایسا ہوگا جس کی بعض یا بیشتر باتیں اسلامی اصول وعقائد سے ملتی جلتی ہوں گی، کہیں ایسے مذہب سے سابقہ پڑے گا جس کی کوئی کل سیدھی نہ ہو کہیں تو افق ہوگا تو کہیں تصادم ہوگا۔ ان حالات میں دوباتیں ضروری ہوجاتی ہیں۔
۱)ایک یہ کہ اصول دین کی حفاظت کی جائے ان پر کسی سے کوئی سمجھوتا یا مداہنت کا رویہ ممکن نہیں۔ اسلام میں توحید، رسالت اور آخرت تین بنیادی پتھر ہیں۔ اعمال میں عبادات ارکان دین ہیں۔
۲) دوسرے بہت سے امور جن کا تعلق اسلامی معاشرت سے ہے، یا جن کا تعین فقہاء نے قرآن وسنت کی تشریح وتاویل سے کیا ہے، وہ دین تو ہیں مگر اصول دین میں سے نہیں۔مثلا ذبیحہ گاؤ سے اگر کسی دوسری قوم کو جذباتی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر اصرار کرنا مناسب نہ ہوگا۔ اس طرح کے مسائل کا تصفیہ کرنے کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنا بہتر ہوگا۔ ہم کوئی فیصلہ مغلوب ومقہور ہوکر کریں تو اس سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ ایسا فیصلہ اپنی صوابدید سے کرلیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اصول دین کا تحفظ کس طرح ہو؟ یہ عوام کے بس کی بات نہیں، صحیح اور معتدل مزاج رکھنے والے علماء کا کام ہے۔ یہ دین کے لفظ یعنی ظاہر دین کے شارح ہیں۔
عام آدمی تک دین کی صاف ستھری شکل پہنچے یہ ذمہ داری ہمارے علماء وفقہاء کی ہے۔ دینی اعمال واشغال پاکیزہ، شفاف ،دلکش اور دلنواز ہوں، یہ منصب ہمارے صوفیہ کا ہے ، جو دین کی روح کے ممثل ہیں، اس کی انسان دوستی ، دردمندی اور بیکراں محبت کانمونہ دکھاتے ہیں۔
دین کی تعلیم، تشریح وتفسیر، تحفظ وتبلیغ کے لئے فقہاء اور صوفیہ دونوں ضروری ہیں۔ حضرت سید محمد حسینی گیسودراز علیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ
’’جو انِ صالح اور فقیہ صوفی‘‘ کبریت احمر کاحکم رکھتے ہیں یعنی نہایت کمیاب ہیں‘‘۔
ہمارے حضرت مولانا انواراللہ فاروقی نوراللہ مرقدہ ایسے ہی ’’کبریتِ احمر‘‘ تھے انکی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ جوان صالح بھی تھے اور فقیہ صوفی بھی۔
فقیہ کی نظر رسوم وشعائر پر ہوتی ہے، جب ایک جرم واقع ہوجاتا ہے تب وہ ’’دست اندازی پولیس‘‘ کے تحت آتا ہے جسے تعزیرات کی زبان میں (COGNIZABLE)کہا گیا ہے۔
قوت، ارادہ اور فعل تین مرحلے ہیں۔ میرے اندر یہ قوت ہے کہ چوری کرسکتاہوں، اس پر نہ فقیہ مجھے پکڑسکتا ہے، نہ پولیس میرا کچھ بگاڑسکتی ہے، اب میں دوسرے مرحلے میں قدم رکھتا ہوں یعنی چوری کا ارادہ کر کے گھر سے نکلتا ہوں، یہاں بھی فقیہ کا کچھ زور نہیںچلتا، نہ پولیس کے فرشتوں کو میرے ارادے کی خبر ہوتی ہے۔
جب تیسرا مرحلہ سر ہوگیایعنی میں نے چوری کرلی تو اب دین اور دنیا دونوں کے قوانین جاگ جائیں گے۔
صوفی کی نظر اسرار و خفا یا پر ہوتی ہے  وہ اپنی نظر کمیااثر سے گناہ کی قوت او ر عزیمت ہی کو ادھ مواکر دیتا ہے، اس کے زیر تربیت رہ کر منازل سلوک طے کرلیں تو پھر وہ ہوتا ہے کہ ’’نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری‘‘۔
صحراے دلم عشق تو شورستان کرد
تامہر دگر کسے نروید ہرگز
فقیہ صوفی اندر باہر کی، صورت وسیرت دونوں کی اصلاح، آرایش اور زیبایش کردیتا ہے۔ یہ سلطنت آصفیہ کی خوش نصیبی تھی کہ آخر صدی میں یہاں حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ کاظہور ہوا جن کی محبوب محترم شخصیت کمالات کا مجموعہ ہے، وہ مفسر ومحدث بھی ہیں، فقیہ اور اصولی بھی، متکلم اور فلسفی بھی ہیں، مصلح و مجدد بھی وہ ادیب وانشا پر داز بھی ہیں، شاعر بھی۔ مورخ اور سیرۃ نگار بھی معلم اور مربی بھی۔ واعظ اور خطیب بھی ہیں، مناظر اور منطقی بھی۔
لَیْسَ عَلٰی اللّٰہِ بِمُسْتَنْکِر
ٍاَنْ یَّجْمَعَ الْعَالَمْ فِیْ الْوَاحِدِ
 اللہ نے ان کے ظاہر کو علم و فضل  سے آراستہ کیاتھا تو باطن کو نورِ عرفان سے جگمگادیاتھا ان کا محض نام ہی انواراللہ نہیں، انوارالہی سے ان کا ظاہر بھی روشن ہے باطن بھی منور ہے، وہ نور بھی کیسا کہ اس کی کرنیں آج بھی پھیل رہی ہیں، اقصائے عالم میں اجالا کررہی ہیں۔ جامعہ نظامیہ منبع انوار ہے، یہاں سے فارغ ہوکر نکلنے والے علماء انوارِ الہی کی شعاعیں ہیں۔ اللہ اس سر چشمۂ انوار کو نظر بد سے بچائے اور یہ جوت یوں ہی چلتی رہے۔
ابھی میں نے عرض کیا تھا کہ دین کو اس کی نتھری شکل میں باقی رکھنا تحفظ کرنا اور عام لوگوں تک پہنچانا علماء وفقہاء کی ذمہ داری ہے۔ اس میں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ علماء کی بھی بہت سی قسمیں ہیں ایک گروہ وہ بھی ہے جسے علمائے سوء کہا گیا ہے۔ اس گروہ نے اکثر حالات میں حکومت وقت سے سازباز کر کے وقتی فائدے اٹھائے ہیں، جاہ طلبی وہ مرض ہے جس کے لئے کہا گیا ہے آخِرُ مَا یَخْرُجُ عَنْ رُؤسِ الصِّدِّیْقِیْنَ حُبُّ الْجَاہُ۔
جب صدیقوں کے سر سے یہ دھن سب سے آخر میں نکلتی ہے تو ہمہ شماکس شمار میں ہیں۔ فرقہ ہائے اسلامی پر ’’الملل والنحل‘‘ جیسی کئی کتابیں لکھی گئی ہیں انہیں پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ باطل مذاہب بھی عوام نے نہیں علمائے سوء کی کج روی، کج فہمی، نفسانیت یا نفاق نے پیدا کئے ہیں۔
طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کسی نے پوچھا کہ دین میں فساد اگر ہو توکہاں سے ہوگا؟ انہوں نے بہت مختصر مگر نہایت بلیغ اور جامع جواب دیا تھا ’’مِنْ قِبَلِ الْعُلَمَائِ‘‘ یہ بالکل درست ہے سنت الہی یہ ہے کہ ہر چیز میں تعمیر اور تخریب دونوں پہلو رکھے ہیں۔ پھل خوش نما، خوش ذائقہ، خوش بو ہے مگر اس میں سڑنے اور کیڑے پڑنے کی صلاحیت بھی ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کاہے خونِ گرم دہقاں کا
ہر زمانے میں ایسے علماء پیدا ہوئے ہیں اور آج بھی ہیں، جنہوں نے آیات و احادیث کی غلط تاویلیں کر کے دین میں فساد یا گڑبڑ گھٹالے کئے ہیں، مگر وہ دین کا کچھ بگاڑ نہیں سکے۔ اسلام کا اساسی دستور قرآن کریم ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے کہ ’’اِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ ہمیںیقین رکھنا چاہئے کہ جو شئے اللہ کی حفاظت میں ہے وہ بے زلل اور بے خلل رہے گی۔
یہ بات اس لئے عرض کرتا ہوں کہ ہم اپنی دینی حمیت وغیرت کا ضرورت سے زیادہ مظاہرہ کر کے نہایت ہیچ وپوچ، جاہل اور آبرو باختہ لوگوں کو بھی شہرت دے کر ان کی اہمیت میں اضافہ کردیتے ہیں، اسلام سے چھیڑ چھاڑ کرنے میں ان کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے۔ اس کی تازہ مثال سلمان رشدی ہے جس کی کتاب ایک مجذوب کی بڑسے بھی زیادہ مہمل ہے، دوسری مثال بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین ہے جو بنگالی کی تیسرے درجے کی ادیبہ بھی نہیں تھی، ہم نے دونوں کو بانس پر چڑھادیا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیںکہ ہم بے غیرت اور بے شرم ہوجائیں، گونگے بہرے بن جائیںلیکن یہ ضرور سونچنا ہوگا کہ اس کے دور رس نتائج کیاہوں گے اور معاندین اس کا فائدہ کس شکل میں اٹھائیںگے۔
ماضی میں ایک دو نہیں سیکڑوں فتنے اٹھے ہیں، اسلامی دنیا میں ان فتنوں کاہاتھ سے، زبان سے ، قلم سے ہر طرح مقابلہ بھی کیا گیا ہے، مگر گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ جس کی زیادہ مخالفت کی گئی ہے وہ فرقہ جم گیا ہے، جسے نظر انداز کردیا گیا وہ فنا کے گھاٹ اترگیا۔
مغل بادشاہ فرخ سیر کے عہد میں ایک پاکھنڈی پیدا ہوا جو مہمل اصطلاحوں میں کلام کرتا تھا، اپنا نام خفشاں نمود بتاتاتھا اس کے مرید ومعتقد فربود کہے جاتے تھے، اس نے ایک کتاب بھی ایسی ہی مہمل بنالی تھی جسے اقوزئہ مقدسہ کہتا تھا۔ مریدوں کی خاصی تعداد اکٹھا کرلی تھی یہی نہیں خود بادشاہ فرخ سیر اس کے پاس دعا کرانے جاتا تھا، بادشاہ جاتا تھا تو امراء کیوں نہ جاتے۔ ہمارے علماء نے مقامی طور پر اس کے مکروفریب کاپر دہ تو چاک کیا، پھر وہ کہنے لگا کہ میں کوئی نیا مذہب نہیںلایا، دین محمدی کی تائید کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اس کی تردید میں کتابیں وغیرہ زیادہ نہیں لکھی گئیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سامعین کی اس محفل میں اکثر ایسے ہوسکتے ہیں جنہوں نے خفشان نمود کا نام پہلی بار سنا ہو۔
انیسویں صدی کے آخر میں مرـزا غلام احمد قادیانی اٹھے۔ اگر تاریخ کے چوکھٹے میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ صلیبی جنگوں کے بعد عیسائی دنیا جہاد کے نام سے ڈرنے لگی تھی، اسلام کا مقابلہ کرنے اور اسے زک پہنچانے کے لئے اس نے تلوار کی جگہ قلم سنبھال لیا تھا۔ ہندوستان میں برطانوی استعمار نے سید احمد شہید کی تحریک کو سر اٹھاتے دیکھا۔ پنجاب میں سکھوں کا راج تھا اور اور اس پر قبضہ کرنے کی نیت بہت دنوں سے تھی اس لئے کہ پنجاب بہت زرخیز اورسیاسی اعتبار سے اہم علاقہ تھا۔ انگریز شاطروں نے ایک تیر سے دو شکار کئے، سید احمد شہید اصل میں انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کی  نیت سے اٹھے تھے اسی لئے انہوں نے ٹونک کے نواب امیر خاں سے توسل اختیار کیاتھا کہ وہ ایک بہادر جنگ آزماتھا اور سب سے بڑا توپ خانہ بھی اس کے پاس تھا۔ ۱۸۱۶ء میں انگریزوں نے اس کی ریاست کو سند تودے دی مگر ریاست کے پانچو ں اضلاع میں میلوں کا فاصلہ رکھا، امیر خاں سے جو معاہدہ ہواتھا  اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر اس ریاست میں افیون کی کاشت ہوتو کمپنی بہادر اس میں معاون ہوگی اور اس کی پیداوار خریدیگی۔ اس معاہدے کے بعد حضرت سید احمدرائے بریلوی ٹونک سے دل برداشتہ ہوکر دہلی آگئے یہاں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی رہنمائی میں کوئی منصوبہ بناہی رہے تھے کہ انگریزوں کے جاسوسوں نے پنجاب میں سکھوں کے مظالم کی داستانیں خوب مبالغے کے ساتھ پہنچانی شروع کیں۔
یہاںتک نوبت پہنچی کہ پہلے سکھوں سے جنگ کا فیصلہ کیاگیا۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ یہی انگریزوں کی سب سے بڑی خواہش تھی یہی ان کی سیاست تھی۔ نتیجہ آپ سب جانتے ہیں۔ ۱۸۴۲ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کرلیا۔ انیسویں صدی کی نصف دوم میں مرزا غلام احمد قادیانی کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ ابتداء میں مختلف موضوعات پر چھوٹے چھوٹے رسائل لکھتے تھے ذہن تو شروع سے صاف نہ تھا، مگر مشق اتنی ہوگئی تھی کہ دو اور دو کو پانچ ثابت کرنے کے لئے ایک ہزار صفحات کا لے کرسکتے تھے۔ انگریزوں پر جہاد کا کابوس سوار تھا انھیں ایسے کسی شخص کی ضرورت تھی جو اپنے جھنڈے کے نیچے بھیڑ جمع کرے اور جہاد کی طرف سے مسلمانوں کا رخ موڑدے۔
غور فرمائیے مرزا صاحب عیسی مسیح موعود ہونے کا دعوی کررہے ہیں۔ حضرت عیسی یقینا اس گروہ انبیاء سے تعلق رکھتے ہیں جن کی تصدیق کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے، مگر عیسائی تو انکی امت ہیں، ان کے پیرو ہیں حضرت عیسٰی ان کے سر خیل ہیں، مگر عیسائیوں نے مرزا صاحب کے دعوے کی تردید کے لئے کبھی محاذ نہیں کھولا۔ ہم سے زیادہ تو انہیں فکر ہونا تھی کہ حضرت عیسیٰ قادیان میں کیسے نازل ہوئے؟ اورمزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے اخبار و آثار میں فتنہ دجال کی جو روایات آتی ہیں ان کے مفہوم کو خبط کرکے مرزا صاحب کہتے ہیں دجال سے مراد پادری ہیں کوئی ایک پادری نہیں صیغہ جمع میں سارے پادری۔ کسی تیلی نے جاٹ سے کہاتھا جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ اس نے پلٹ کر کہا: تیلی رے تیلی تیرے سر پر کولھو۔ تیلی نے کہا کہ تک نہیں بھڑی، یعنی قافیہ نہیں ملا، جاٹ نے کہا: تو بوجھوں تو مرا۔ یعنی کھاٹ کے مقابلے میںکولھو کا وزن گئی ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ مرزا صاحب نے ایک دجال کو سارے پادریوں میں بانٹ دیا، واحد کو جمع کردیا، عیسائیت کے روز اول سے جتنے پادری آج تک ہوئے ہیں سب دجال کی ایک چادر میں لپیٹ کر رکھ دئے۔ مگر دیکھئیے پادریوں نے برا نہیں مانا، تردید نہیں کی، مقابلے پر نہیں آئے۔ حالانکہ مسلمانوں سے زیادہ تو ان پر زور پڑرہی تھی۔
پھر مرزا نے مہدی موعود ہونے کا دعوی کیا۔ ان سے پہلے بھی بہت سے مغوی مہدی بن چکے تھے، مگر : اوخویشتن گم است کرار ہبری کند! آخر ظلمات ضلالت میں گم ہوکر رہ گئے ہماری روایات میں ظہور مہدی کا حوالہ ملتا ہے اور اس کے مقصود مرا د میں اختلاف بھی ہے۔ بعض علماء نے نظریہ مہدویت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ مگر شیعہ فرقے کے لئے تو وہ آخری امام منتظر ہیں، ان کے عقیدہ امامت کے سلسلے کی مضبوط کڑی ہیں، شیعوں نے مرزا کے مہدی ہونے کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ کس نمی پر سد کہ بھیا کون ہو ایک ہو، یا ڈیڑھ ہو، یا پون ہو حالانکہ سب سے زیادہ برافروختہ شیعوں کو ہونا چاہئے تھا کہ یہ مہدی سنیوںمیں کیسے جانکلے!
ہم مسلمانوں کا دینی جوش ایک دم خطرے کے نشان کو چھونے لگتا ہے۔ ہمیں اول تو ان کے وجود سے ہی بے خبر ہوجانا تھا قادیان ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، وہاں کون کب آسمان سے نازل ہوا، ہمیں اس کی اطلاع ہی نہیں دی گئی۔
اگر کوئی عیسٰی ہے تو عیسائیوں سے تصدیق کراؤ ہم بھی مان لیں گے، مہدی ہے تو اس کی شناخت شیعوں سے کرالو ہم بھی جان لیں گے۔ خیر یہ تو برطانوی سا مراج کی بچھائی ہوئی بساط تھی اس کا مقابلہ ہمارے علماء نے خوب کیا۔ حضرت حاجی امداداللہ فاروقی مہاجر مکی علیہ الرحمۃ نے حرم میں بیٹھ کر ہندوستان کے بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشرتی حالات پر نظر رکھی تھی۔ انہوں نے عیسائیت کی تبلیغ میں سرگرم مشنریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مدارس اسلامیہ کے قیام اور عوامی سطح پر انتظام وانصرام کی بھر پور تائید کی۔ حاجی صاحب کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تھی، مگر اس کے شواہد موجود ہیں کہ وہ مدارس کے لئے دعا بھی کرتے تھے اور حتی المقدور بعض مدرسوں کو اپنی طرف سے عطیہ بھی بھیجتے تھے۔
ان کی زندگی کے آخری دور میں قادیانی فتنہ بھی سر اٹھانے لگا تھا۔ انہوں نے پنجاب میں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حضرت مہر علی شاہ چشتی نظامیؒ کا انتخاب کیا اور دکن میں حضرت مولانا انواراللہ خاں بہادرفاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ کو اپنی خصوصی دعاؤں سے نوازا۔ ان دونوں بزرگوں نے اپنی سطح پر نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں۔
علماء کی اتنی کوشش وکاوش کے باوجود یہ فتنہ اپنے اثرات چھوڑگیا۔ پچھلی صدی میں ہندوستانی مسلمانوں میں جو نہایت ممتاز اور محترم شخصیات ہوئی ہیں ان میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی امتیازی حیثیت سے کسی کو انکار نہ ہوگا، ان تینوں کے بھائی یعنی ذوالفقار علی گوہر، غلام یسین آہ اور شیخ عطا محمد قادیانی ہوگئے تھے۔ قادیانیت کو بڑھاوا دینے کے لئے برطانوی حکومت ہند نے بعض ریاستوں کو بھی استعمال کیا۔ نواب رام پورنے اپنی خاص نگرانی میں ایک مناظرہ قادیانی اور علمائے اہل سنت کے درمیان کرایا جس کی روداد اس زمانے میں رام پور کے اخبار دبدبہ سکندری میں شائع ہوئی تھی، اس میں اگرچہ قادیانی حریف کو شکست ہوئی، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھلا نواب رام پور کو اس میں اتنی دل چسپی کیوں ہوئی؟
اس مقصد سے سابق ریاست حیدرآباد مرزائیوں کی بڑی جولان گہ بلکہ مضبوط قلعہ بھی سن سکتی تھی۔ مگر اس کی پیش بندی حضور مولانا انواراللہ خاں بہادر فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ نے کردی انہوں نے افادۃ الافہام، مفاتیح الاعلام اور انوار الحق جیسی کتابوں میں نہایت ہی مدلل انداز میں قادیانیت کا ردکیا۔ بعد کو مولانا محمد الیاس برنی نے ردقادیانیت میں اپنی بے مثل کتاب لکھی۔ شمالی ہند کے علماء میں مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا احمد حسن محدث امروی، مولانا انورشاہ کشمیری وغیرہ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس فتنے کے لئے میدان تنگ کردیا۔
لیکن مغربی ممالک خصوصا یورپ اور امریکہ میں آج بھی قادیانیت منظّم طریقے سے کام کررہی ہے، اسے وہاں کی حکومتوں کی تائید ونصرت بھی حاصل ہے۔ اس کا مقابلہ ہمارے علماء نہیں کررہے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہاہوں کہ بعض افراد اور ادارے اپنے موقف پر نظر ثانی، تجدید وتطہیر یعنی تعبیر وتفسیر سے کیوں خوف کھاتے ہیں۔ وہ اپنے پروگرام کو ’’واحد نسخہ‘‘ کیوں سمجھتے ہیں؟ وہ جہاں کام کرتے ہیں وہاں کی مقامی زبان کو اہمیت کیوںنہیں دیتے؟ وہ اپنے نصاب میں طلبہ کو اسلامی تاریخ کے نشیب وفراز سے آگاہ کیوںنہیں کرتے؟
پاکستان کے ایک مشہور کثیرالاشاعت اخبار میں ہفتے میں ایک دن مذہبی مسائل پر سوال وجواب کاکالم ہوتا ہے ایک بارکسی نے مسئلہ پوچھا کہ اسلامی عبادات میں اکثر کا تعین رؤیت بلال سے ہوتا ہے، اگر چاند میں آبادی ہوجائے اور مسلمان وہاں جائیں تو ان معمولات کے اوقات کا تعین کیسے ہوگا؟ مسائل کا جواب دینے والے مولوی صاحب نے ایسا دندان شکن جواب دیاکہ ان کا منھ موتیوں سے بھر دیا جائے۔ فرمایا:مسلمان کو وہاں جانے کی ضرورت ہی کیاہے؟ ایک مستشرق کی کتاب اسلام کے بارے میں پڑھ رہاتھا اس میں جگہ جگہ اس کے عناد کی جھلک ملتی ہے۔ مگر اس نے کتاب کے دیباچے میں لکھا کہ بعض لوگ یہ کہیں گے میں نے اسلام کا مطالعہ اس زاویے سے کیوں کیا؟میرا کہنا یہ ہے کہ وہ بھی جس زاویے سے چاہیں عیسائیت کا مطالعہ کرلیں۔
ہر زمانے کے مطالبے جدا ہوتے ہیں اگر ہم اپنے پروگرام کو جانچتے پرکھتے ہیں تو وسائل اور طریق کار میں بھی سہولت پیدا ہوتی ہے۔ بعض امراض ایسے تھے کہ طب یونانی کے پاس ان کا علاج نہ تھا یا تھا تو بہت پیچیدہ تھا حمیٰ کی ایک قسم ایسی بھی تھی جس کے لئے لکھا ہے مریض کا سر مونڈ کر اس پر مشک سے پانی بہایا جائے۔ آج ایک گولی یا دو گھونٹ شربت سے اس مرض کا علاج ہوسکتاہے۔
ہم نے معاندین کو کھلی چھوٹ دے دی اور وہ بے خوف تر دید اپنے عناد کو شائع کرتے رہے۔ ان بڑے مدارس کو مستشرقین کا مقابلہ کرنے والے علماء کو بھی تیار کرنا چاہئے تھا۔ جامعہ نظامیہ کے ایک مایہ ناز فرزند ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے فرانس میں بیٹھ کر وہ کام کیا جو کسی بڑے ادارے سے بھی ممکن نہ ہوتا۔
جب مدارس کے نظام اور نصاب میں ترقی اور توسع کی بات سوچی جائے تو رفتہ رفتہ نئے شعبوں کا اضافہ ہوسکتا ہے مثلا ایک شعبہ ترجمہ قائم کیا جائے جس میں ذی صلاحیت طلبہ کو فراغت کے بعد کسی ایک علاقائی یا مغربی زبان میں ترجمہ کرنے کی تربیت دی جائے۔ ایک شعبہ ایسا ہو جو مستشرقین کی کتابوں سے بحث کرے اور ان کا جواب لکھے وغیرہ۔
حضرت مولانا انواراللہ فاروقی علیہ الرحمۃ کا مسلک اعتدال تھا، انہوں نے اختلاف بین المسلمین کو کبھی ہوا نہیںدی، اپنی ساری توجہ تعلیم کی اشاعت، مسلمانو ں کی معاشرتی اصلاح، طلبہ کی کردار سازی، عامۃ المسلمین کی رہنمائی پر مرکوز رکھی۔ وہ انگریزی تہذیب کے مضر اثرات سے بھی باخبر تھے یہ بھی جانتے تھے کہ سماجی انقلاب ڈنڈے کے زور سے نہیں آتا خاموشی سے کام کرتے رہنے سے آتا ہے۔ وہ تصوف کی افادیت سے بھی واقف تھے خود ایک مکمل صوفی تھے، معقولی ومنقولی تھے اور تاریخ اسلام پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی قوت استدلال بہت زبردست ہے مطالعہ نہایت وسیع ہے اور ساری خوبیوں کا جوہر ان کا اخلاص ہے اخلاص ہی سب سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے یہ اگر ہو تو پھر کسی وسیلے اور سرمائے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔
جامعہ نظامیہ کو اپنے بانی کی انہیں صفات کو نصب العین بنا کر قدم آگے بڑھانا ہوگا۔ جو وقت آرہاہے اس میں جو فتنے سر اٹھا نے والے ہیں ان کی  سرکوبی کرنے والے طلبہ کو ابھی سے تیار کرنا ہوگا۔٭٭٭
٭٭٭

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!