Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

آخرت میں تباہی و بربادی، سودخورکامقدر:

    بیان کردہ سب ہلاکتیں وہ ہیں جن کا دنیا ہی میں سود خور کو سامنا کرنا ہو گا جبکہ آخرت کی تباہی وبربادی یہ ہے:
(8)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے :”اس کا نہ صدقہ قبول کیا جائے گا ، نہ جہاد ، نہ حج اور نہ ہی صلہ رحمی۔”
     (تفسیر قرطبی،سورۃ البقرۃ،تحت الآیۃ:۲۷۶،ج۲،ص۲۷۴)
    اس کے علاوہ وہ مرے گا تو اپنا سب مال و اسباب پیچھے چھوڑ جائے گا لہذا اس کے سبب اس پر اپنا اور اپنے پيروکاروں کا بھی وبال اور عذابِ الیم ہو گا،اسی لئے منقول ہے کہ،
(9)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”دو مصیبتیں ایسی ہیں کہ کوئی بھی ان کی مثل سے دوچار نہ ہو گا:تمام کاتمام مال چھوڑنا اور پھر اس پر سزا بھی پانا۔”
    نیز صحیح حدیث میں ہے کہ” اغنیاء جنت میں فقراء سے 500سال بعد داخل ہوں گے۔”
(فیض القدیر،حرف الھمزۃ ،تحت الحدیث:۲، ج۱، ص ۵۲)
     توجب مالِ حلال کی وجہ سے اغنیاء کی یہ حالت ہو گی تو جن کا کاروبار ہی حرام ہو ان کا کیا حال ہو گا؟
    المختصر یہ کہ یہ سب وہ ہلاکتیں ، بربادیاں،نقصان، گھاٹے اور ذلتیں ہیں جن کا اسے سامنا کرنا ہو گا۔
وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ؕ
    یعنی فرشتہ دنیامیں اس کے لئے اللہ عزوجل سے صدقات کی زیادتی کاسوال کرتا ہے کہ وہ اس خرچ کرنے والے کو اچھا نعم البدل عطا فرمائے جیسا کہ احادیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ،
(10)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”کوئی دن ایسا نہیں جس میں ایک فرشتہ یہ نہ پکارتا ہو:اے اللہ عزوجل! اس خرچ کرنے والے کو اچھا نعم البدل عطا فرما۔”
( کشف الخفاء ، حرف الھمزۃ مع اللام ، الحدیث: ۵۴۹، ج۱ ، ص ۱۶۷)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    اس طرح ہر روز اس کا مرتبہ اور ذکرِ جمیل زیادہ ہوتا جاتا ہے، دل اس کی جانب مائل ہوتے ہیں، فقراء کے دلوں سے اس کے لئے خالص دُعا نکلتی ہے، اس سے لوگوں کی حرص اور طمع ختم ہو جاتی ہے، جب وہ فقراء ومساکین کے معاملات کی دیکھ بھال میں مشہور ہو جائے تو ہر ایک اسے تکلیف پہنچانے سے گریز کرتا ہے، نیز ہر لالچی اور ظالم انسان بھی اس کا سامنا کرتے ہوئے ڈرتا ہے، اور آخرت میں یہ سب کچھ بڑھ کر اس قدر ہو چکا ہو گا کہ ایک لقمہ بھی پہاڑوں کی مثل ہو گا جیسا کہ سابقہ زکوٰۃ کے باب میں بیان ہونے والی احادیثِ مبارکہ میں گزرا ہے۔
وَاللہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ ﴿276﴾
    اس آیتِ مبارکہ میں کفار اور اثیم دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں جن میں سود کو حلال جاننے والے اور سود کھانے والے کا ان دونوں پر استمرار پایا جا رہا ہے، ان دونوں افراد کا اپنے افعال سے رجوع کرنا ممکن ہے جیسا کہ مروی ہے کہ
(11)۔۔۔۔۔۔سرکارِ مدينہ، راحتِ قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جس نے نماز یا حج ترک کیا اس نے کفرکیا، جس نے اپنی بيوی سے حیض کی حالت میں وطی کی اس نے کفر کیا اور جس نے اس کی دُبر( یعنی پچھلے مقام)ميں وطی کی اس نے بھی کفر کیا۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

حدیثِ پاک کامفہوم:

    اس (حدیث) سے مراد یہ ہے کہ وہ کفر کے قریب کرنے والے اعمال ہیں کہ اگر ان اعمال خبیثہ کو بجا لاتا رہا تو ایک دن یہی اس کے کفر اور برُے خاتمہ کا باعث بنیں گے، یہاں اس مبالغہ میں بہت زیادہ ڈرانا مقصودہے۔
(۲)فرمان باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿278﴾فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُوۡسُ اَمْوَالِکُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوۡنَ وَلَا تُظْلَمُوۡنَ ﴿279﴾وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ
ترجمہ کنز الايمان:اے ايمان والو اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گيا ہے سود اگر مسلمان ہو پھر اگر ايسا نہ کرو تو يقين کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤنہ تمہيں نقصان ہو اور اگر قرض دار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دينا لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿280﴾وَاتَّقُوۡا یَوْمًا تُرْجَعُوۡنَ فِیۡہِ اِلَی اللہِ ٭۟ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوۡنَ ﴿281﴾٪
تمہارے لئے اور بھلا ہے اگر جانو اور ڈرو اس دن سے جس ميں اللہ کی طرف پھرو گے اور ہر جان کو ا سکی کمائی پوری بھر دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔(پ 3، البقرۃ،278تا281)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

آیتِ مبارکہ کی وضاحت:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا
    قرآنِ کریم کا اسلوب ہے کہ ترہیب(يعنی ڈرانے) کے بعد ترغیب ہوتی ہے یا پھر کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے لہذا یہاں بھی اس کے انجام سے نصیحت دلاتے ہوئے، مطیع وفرمانبردار کے مقام و مرتبہ کو ایک عاصی و گناہ گار سے ممتاز کرتے ہوئے، نیز اس پر ان کی تعریف و مذمت میں مبالغہ کرتے ہوئے ترہیب کے بعد ترغیب کا ذکر ہو رہا ہے کہ اے ایمان والو!اللہ عزوجل سے ڈرو اور سود کی بقیہ رقم کو مقروضوں سے وصول نہ کرو، اور اس سے قبل اللہ عزوجل نے اپنے اس فرمانِ عالیشان فَلَہٗ مَا سَلَفَ سے واضح کر دیا ہے کہ حرمتِ سود کا حکم نازل ہونے سے پہلے جو سود وصول کیا گیا وہ حرام نہیں سوائے اس کے کہ جو سود حرمت کا حکم نازل ہونے کے بعد وصول کیا گیا کیونکہ وہ حرام ہے اب اس شخص کے لئے اپنے اصل مال سے زائد مال لینا جائز نہیں اس وجہ سے اب نزولِ حکم کے بعد مکلف ہونے کی بناء پر اس پر ایسا کرنا حرام ہوگا۔
    اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مکہ تمام یا چند ایک اور اہلِ طائف کے چند افرادسودی لین دین کیا کرتے تھے لہذا جب وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تو اس سود میں ان کا آپس میں جھگڑا ہو گیا جس پر انہوں نے ابھی تک قبضہ نہیں کیا تھا تو یہ آیتِ مبارکہ اس بات کا حکم لے کر اُتری کہ وہ صرف اپنے اصل اموال ہی واپس لیں گے اس سے زائد کچھ وصول نہیں کریں گے۔
(12)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:”خبر دار،جان لو! زمانۂ جاہلیت کا ہر معاملہ میرے قدموں تلے ختم کر دیا گیا ہے۔” پھر ارشاد فرمایا:”جاہلیت کا سود بھی ختم کر دیا گیا ہے اور سب سے پہلا سودجس کو میں ختم کر رہا ہوں وہ حضرت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سودہے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

( صحیح المسلم ،کتاب الحج ، باب حجۃ النبی ، الحدیث: ۲۹۵۰ ، ص ۸۸۱)
اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿278﴾فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ ۚ
    یعنی اگر تم ایمان والے ہو تو سودی کاروبار سے باز آجاؤاور اگر اس سے نہ رُکے تو اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے اعلان جنگ کر دو، اور جس نے بھی ایسا کیا تو وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
    اس حرب سے مراد یا تودُنیوی جنگ ہے یا پھراُخروی جنگ۔ 
    دُنیوی جنگ سے مراد یہ ہے کہ شریعت نافذ کرنے والے حکام پر لازم ہے کہ جب انہیں کسی کے بارے میں سود لینے کا پتہ چلے تو اسے قید کر دیں یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے، لیکن اگر سودخور صاحبِ حیثیت اور ذِی حشم ہوکہ تم اس پر جنگ کئے بغیر قدرت حاصل نہیں کر سکتے تو اسی طرح جنگ کروجیسے (حضرت سیدنا )ابو بکر صدیق( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ کی تھی۔
    حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا فرمان ہے :”جو سودی کاروبار میں ملوث ہو اس پر توبہ پیش کی جائے اگر توبہ کر لے تو اچھی بات ہے ورنہ اس کاسر تن سے جدا کر دیا جائے۔”
    آیتِ مبارکہ میں جنگ کرنے کا یہ حکم دو چیزوں کا احتمال رکھتا ہے کہ یا تو مطلقاً جو بھی سود لے اس کے ساتھ جنگ کی جائے یا پھر صرف اس کے ساتھ جو اسے حلال اور جائز سمجھ کر لے، ایک قول یہ مروی ہے کہ”اعلانِ جنگ سود کو جائز سمجھنے والے سے ہے۔” جبکہ ایک قول کے مطابق اس سے بھی اور دوسروں سے بھی ہے، لیکن آیتِ کریمہ کی ترتيب کے لحاظ سے مناسب پہلا قول ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے فرمانِ عالیشان کا مفہوم ہے کہ”اگر تم سود کی حرمت پر ایمان رکھتے ہو تواسے چھوڑ دوجوباقی ہے، اور اگر ایمان نہیں رکھتے تو اعلانِ جنگ کر دو۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    اُخروی جنگ سے مراد یہ ہے کہ اللہ عزوجل اس کا خاتمہ برائی پر فرمائے گا، کیونکہ جس نے بھی اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ جنگ کی تو اس کا خاتمہ بالخیرکس طرح ہو سکتا ہے؟ نیزاللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے جنگ کرنا درحقیقت اس کی رحمت کے مقامات سے دوری اور بدبختی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنا ہے۔
وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُوۡسُ اَمْوَالِکُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوۡنَ وَلَا تُظْلَمُوۡنَ ﴿279﴾
    یعنی اگر تم سود کی حلّت کے پہلے قول سے توبہ کر لو یا دوسرے قول کے مطابق عمل سے توبہ کر لو تو تمہارے لئے صرف اصل مال لینا جائز ہے تا کہ اس اصل مال پر مقروض سے زیادہ مال لے کر نہ تو اس پر تم ظلم کرو اور نہ ہی تمہارے اصل مال میں کمی کر کے تم پر کوئی ظلم کیا جائے گا۔
    جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو سودکا تقاضاکرنے والوں نے یہ کہتے ہوئے توبہ کر لی کہ”ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں کیونکہ ہم میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے جنگ کرنے کی کوئی طاقت نہیں۔” لہٰذا وہ اپنے اصل مال لینے پر ہی راضی ہو گئے اور جب ان کے مطالبہ کی وجہ سے مقروضوں نے تنگ دستی کا شکوہ کیا تو انہوں نے صبر کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ
    یعنی اگر تمہارا مقروض تنگ دست ہو تو تم پر لازم ہے کہ اسے کشادگی تک مہلت دو، اسی طرح تنگ دست کو ہر قسم کے قرض میں مہلت دینا واجب ہے۔۱؎ لیکن يہ خاص سبب سے نہيں بلکہ مذکورہ (آیۂ مبارکہ کے) الفاظ کے عموم سے استدلال ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً ۪ وَّاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ﴿130﴾ۚوَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡۤ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیۡنَ ﴿131﴾
ترجمۂ کنز الايمان:اے ايمان والو! سود دُونا دُون (دُگنا)نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس اميد پر کہ تمہیں فلاح ملے اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تيار رکھی ہے۔(پ4، اٰل عمران:130۔131)

آیتِ مبارکہ کی وضاحت:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا
    اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں اگر کسی کا کسی پر مخصوص مدت تک کے لئے 100 درہم قرض ہوتا اور مقروض تنگ دستی کی بناء پر ادا نہ کرسکتاتوقرض خواہ اس مقروض سے کہتا:”میں تمہاری ادائیگی کی مقررہ مدت میں اضافہ کر دیتا ہوں تم مال میں اضافہ کر دو۔” اس طرح بسا اوقات اس کا مال 200درہم ہو جاتا،اور جب دوسری مقررہ مدت آتی اور مقروض دوبارہ رقم ادا نہ کر پاتا تو وہ مزید انہی شرائط پر مدت بڑھا دیتا یہاں تک کہ اس طریقہ سے وہ کئی مدتوں تک اضافہ کرتا جاتا اور اس طرح سینکڑوں درہم اس مقروض سے وصول کر لیتا، پس اسی وجہ سے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً ۪ وَّاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ﴿130﴾
    یعنی سود کو چھوڑ دو اور اللہ عزوجل سے ڈروتا کہ تم فلاح وکامیابی پا سکو۔اس آیتِ مبارکہ میں اس بات کی جانب اشارہ پایا جارہا ہے کہ اگر اس سودی رَوِش(يعنی خصلت)کوترک نہ کیا توکبھی بھی فلاح وکامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے، اس کا سبب وہی ہے جو گذشتہ آیتِ مبارکہ میں گزر چکا ہے یعنی اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے جنگ اور جو اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّمَ سے بر سرِپیکار ہو اس کی فلاح و کامیابی کا تصور کیونکر کیا جاسکتا ہے؟ نیز اس آیتِ مبارکہ میں برے خاتمے کی جانب بھی اشارہ ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ۚوَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡۤ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیۡنَ ﴿131﴾
    یعنی اس آگ سے ڈرو جس کو کافروں کے لئے ان کی ذات کی وجہ سے اور دوسروں کے لئے کافروں کی پیروی کی وجہ سے تیار کیا گیا ہے، مراد یہ ہے کہ جہنم کی اکثرگھاٹیاں کافروں کے لئے تیار کی گئی ہیں اور یہ اس بات کے منافی نہیں کہ گناہ گار مؤمن ان میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ اسی آیتِ مبارکہ میں ہی اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ وہ مسلمان جو سودی کاروبار سے منسلک رہا تو وہ اس آگ میں کفار کے ساتھ ہی ہو گا جو کہ محض انہی کے لئے تیار کی گئی ہے، لہذا جب یہ بات واضح اور ثابت ہو گئی کہ یہ سود اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے کھلی جنگ ہے اوربرُے خاتمہ کا باعث ہے:
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنْ اَمْرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیۡبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿63﴾
ترجمۂ کنزالایمان:توڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ پہنچے یا اُن پر درناک عذاب پڑے۔(پ18، النور:63)
    پس غورو فکر کرنا چاہے کہ اللہ عزوجل نے اس آگ کی صفت بیان کی ہے کہ وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے، کیونکہ اس میں حد درجہ وعید ہے اس لئے کہ وہ مؤمنین جو گناہوں سے پرہيز کرنے کے مخاطب ہیں جب انہیں یہ علم ہو گا کہ اگر انہوں نے گناہوں سے بچنے سے روگردانی کی تو انہیں اس آگ میں ڈال دیا جائے گا جو کہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور اس طرح ان کے اذہان میں کفار کی سزاکی زيادتی پختہ ہوگی تو وہ گناہوں سے مکمل طور پر رک جائیں گے۔
    نیزاس میں بھی غور کرنا چاہے کہ ان آیاتِ مقدسہ میں اللہ عزوجل نے سودخور کی مذمت میں جووعید ذکر کی ہے اس سے رائی کے برابر بھی عقل ودانش رکھنے والاانسان اس گناہ کا قبیح ہونا آسانی سے جان لے گا۔ خصوصًا اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے محاذ آرائی اولیاء اللہ رحمہم اللہ تعالیٰ کی دشمنی جیسے قبیح  گناہ کا باعث بنتی ہے، جب آپ پر دنیا و آخرت کی ہلاکتوں کا سبب بننے والے اس گناہ کی حقیقت آشکار ہو چکی ہے تو چاہے کہ آپ اس سے رجوع کر لیں اور اپنے پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کریں۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    سود خوروں کے لئے ان آیاتِ مقدسہ میں جو عقوبتیں اور سزائیں بیان ہوئیں ان کے علاوہ کئی احادیثِ مبارکہ میں انہی جیسا مضمون ملتا ہے، اس مضمون کی تکمیل کی خاطر انہیں بھی یہاں ذکر کرنا پسند کروں گا۔
۱؎:مفسِّر شہیر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تفسیر نعیمی میں” احکام القرآن” کے حوالے سے فرماتے ہيں :”مہلت دینا ہر اس قرض میں واجب ہے جو مالی کاروبار کاہو جیسے تجارتی قرض، مگر دین، مہر، کفالہ، حوالہ ،صلح کے روپیہ پر مہلت واجب نہیں۔” (تفسیر نعیمی ،سورۃ البقرۃ،تحت الآیۃ:۲۸۰،ج۳، ص ۷ ۱۶)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!